پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے سب سے پہلا عندیہ اپنے اظہاریئے میں احقر نے دیا تھا جس میں اٹک سے یاور بخاری ایم پی اے کا نام دیا تھا۔جوں جوں تبدیلی کی ہوا پھیلتی گئی وزیر اعلیٰ کے ناموں میں اضافہ بھی ہوتا چلا گیا،ہاں مگر میرے موقف میں تا حال تبدیلی نہیں آئی۔مگر جہاں سے اس طرح کے نامے آتے ہیں،وہاں ہوا کا فیصلہ نہیں چلتا،ان کے پاس compass کی بجائے سمت دیکھنے اور پرکھنے کا اپنا ہی آلہ ہوتا ہے جسکاآلہ کار بننے کے سِوا حکمرانوں
کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
سیاست کے بادباں اُس طرف کے اشارے کے بِنا نہیں کھلتے،اب آکے کپتان کو بھی یقین ہو گیا ہے کہ یہ کھیل کا میدان نہیں جہاں ساری کپتان کی چلتی ہے،یہاں کوچ اشارہ نہ کرے تو کسی کو آؤٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔تاہم ایک بات طے شدہ ہے کہ کوچ کپتان کو خوب تپسیا کٹواتا ہے،پھر جا کر کوئی فیصلہ دیتا ہے۔
یہ دو سال جو قوم نے خجل ہوتے گزارے آپ کے یو ٹرنز کی رُت ہی ختم ہونے کو نہیں آئی،آپ نے اپنے انتہائی قریبی دوست گنوا دیئے جو آپ کی لیاقت کی قسمیں کھایا کرتے تھے،آپ کی حب الوطنی پر،آپ کے امانتدار ودیانتدار ہونے پر واری واری جاتے تھے،آپ کے حوصلہ مند ہونے کی داد دیتے نہیں تھکتے تھے،آج وہ سب حوصلے ہار چکے ہیں۔ کارکردگی دکھانے کے لئے دوسال کم نہیں ہوتے،ان دو برس میں ایک بھی کام ایسا نہیں ہوا جس کی مثال دی جاسکے،چاروں اور انتقام انتقام کا شور ہے،کوئی وزیر کوئی مشیر ایسا نہیں جس پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے،خود آپ کی زنبیل میں کوئی تمغہ حسن کارکردگی نہیں ہے۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد جناح ؒ کو تو جیب میں میں کھوٹے سکے ہونے کا گلہ تھا،آپ تو مٹھیوں میں لئے پھرتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے فقط پنجاب ہی کے بارے نہیں جہاں جہاں ان کی جماعت کی حاکمیت ہے،بہت سارے بے ربط وبے معنی فیصلے کئے،مگر ایک ضد تھی جس نے انہیں سپر انداز ہونے نہیں دیا،یوں ملک کے سب بڑے صوبے کی زمام ایک نوآموز اور تحصیل سطح کے سیاستکار کے ہاتھ دیکر اپنے وزیراعلیٰ کی سیاسی بصیرت کا بھانڈہ پھوڑ دیا،جس کے اثرات و ثمرات بیخ کنی کے سوا کچھ نہیں نکلے۔وزر اعظم اوپر بیٹھ کر نیچے کے حالات کیسے سنبھال سکتے تھے،جس کا انہیں زعم تھا،جو آخر کو خاک ہوا،ایسا کہ اپنے معاملات بھی بطور احسن نبھا نہ سکے۔
عمران خان کے بارے شروع دن سے میری رائے یہ رہی ہے کہ موصوف کانوں کے کچے اور فیصلوں کے حوالے سے مضمحل قویٰ کے حامل ہیں۔جوش خطابت میں جو کہتے ہیں حالت ہوش تک پہنچتے پہنچتے اس سے دست کش ہوچکے ہوتے ہیں،مگر پھر بھی کچھ وقت میں نہ مانوں کا ایک بھوت ان پر سوار رہتا ہے،نہ جانے انہیں کیوں خبر نہیں کہ پانی پُلوں کے نیچے سے گزر جائے تو واپس کبھی نہیں آتا۔تاریخ نے کسی اور کو معاف کیا ہے جو آپ کو کرے گی،وہ سب جو اُن سب نے ملکر کیا،آپ اکیلے اس دھندے کے رکھوالے بنے ہوئے ہیں۔ملک کے بڑے صوبے کا بگڑا ہوا سارا آوا آپ کا مرہون منت ہے۔آپ کا یہ دعویٰ کہ ستر برس کا کوڑاکرکٹ سمیٹنے میں وقت لگ رہا ہے،مگر اس متعفن ڈھیر کے اوپرجو ڈھیر لگ چکا ہے،اس کا کیا بنے گا؟جبکہ غلطی دوبارہ دہرانے کے اسباب جمع کئے جارہے ہیں۔
تاہم کسی کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ نئی مسلم لیگ ہمیشہ آمریت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔نئی بننے والی مسلم لیگ کو آپ کی فرد جرم دینے سے اعراض کیونکر ہوگا؟ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی،وہ لیاقت علی خان ہوسکندر مرزا ہو،ایوب خان ہو،یحیٰ خان ہو،ضیاء الحق ہو یا پرویز مشرف۔یہ الگ بات کہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیربھٹو اپنے داغ اپنے لہو سے دھوکر سرخرو ہوئے،مگرمیاں نواز شریف کا اور آپ کا معاملہ ابھی باقی ہے۔واللہ اعلم!
فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت
اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے
فیس بک کمینٹ