لکھنے والے پر سچی بات لکھنا قرض ہوتا ہے اور یہ قرض نہ چکانا بخل ہوتا ہے،پی ٹی آئی کی حکومت کو بنے دو سال ہوگئے ان دوسال کے پیچھے بائیس برس کی جدوجہد ہے،جس میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں وعدے عوام سے کئے گئے،جن پر بھروسہ کرکے بہر حال قوم نے اسے مینڈیٹ دیا،سلیکٹڈ کا نعرہ لگانے والوں کو کبھی پیچھے مڑکر دیکھنے کی خجالت محسوس نہیں کی ورنہ اس امر کو بھلایا نہ ہوتا کہ یہاں فقط ووٹ لینے پر ہی موقوف نہیں ہوتا کچھ اور مرحلے بھی طے کرنے ہوتے ہیں اقتدار کے سنگھاسن تک رسائی کے لئے،بلکہ کچھ مہمات ہوتی ہیں جنہیں سر کئے بغیر اقتدار کی منزل نہیں ملتی،بھلے دو تہائی اکثریت ہی کیوں حاصل نہ ہو،اس رستے میں کچھ آستانوں پر ڈنوت بجا لانا بھی ضروری ہوتا ہے جس سے انکار کا کوئی یارہ نہیں ہوتاپھر اس آستانے کے کچھ مجاور ہوتے ہیں جنہیں ساتھ لیکر چلنا ضروری ہوتا ہے ان کو حکومت میں کھپانے کے پروانے بھی ادھر ہی سے جاری ہوتے ہیں جن سے مفر کی کس کو مجال۔!
محترمہ بینظیر بھٹو کو 1988ء میں اس شرط پر ہی زمام اقتدار سونپی گئی تھی ورنہ صدر اسحاق نے تو مردہ نہلا دیا تھا،میاں نواز شریف کو ضیاء الحق اپنی زندگی نہ دیتا تو وہ بھی کبھی اقتدار کے جھولے نہ جھول سکتے،اوپر والوں کا پالنا بڑا مضبوط ہوتا ہے اسے کوئی چیلنج نہیں کرسکتا،آصف علی زرداری نے پانچ سال ایسے پورے نہیں کر لئے تھے اور اب کبھی بلاول زرداری کو موقع فراہم ہوا تو عوام کے ووٹ سے نہیں اوپر والوں کے دست شفقت ہی سے راہداری کا پروانہ ملے گا اس لئے تو بلاول حکومت اور حکومتی جماعت کو تنقید کا ہدف بناتے ہیں اس سے آگے ان کے پر جلنے لگتے ہیں۔
آج کے اظہاریئے میں دراصل یہ بتانا مقصود تھا کہ شاہ محمود قریشی کا شمار بھی آستانہ عالیہ کے چنیدہ لوگوں میں ہوتا ہے، تاہم ان کا دامن بدعنوانیوں سے پاک رہا ہے اور اب جبکہ پی ٹی آئی کا ایک وزیر ایک مشیر بھی ایسا نہیں جو دامن نچوڑنے کا دعویٰ ہی کر سکے،شاہ محمود واحد وزیر ہیں صاف چلی شفاف چلی میں جو ہر حکومت کا حصہ رہے مگر کانٹوں بھری پگڈنڈیوں پر چل کر بھی ان میں الجھنے سے محفوظ رہے،البتہ ان کی اس نیک نامی کو پہلی بار ملتان کے ایک ایم این اے نے چیلنج کیا ہے۔موصوف ملتان کو جنوبی پنجاب کا واحد سیکٹریٹ بنوانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں مگر ابھی تک یہ ثابت نہیں کر پائے اسی زعم میں وہ وزیر خارجہ کو رگیدنے میں لگے ہیں مگر ان کا کچھ بگاڑ نہیں پائے،شاید انہیں معلوم نہیں کہ دوسروں کے معائب پر نہیں اپنے محاسن پر حاصل کی گئی شہرت دیرپا ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں ملتان گیسٹ ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں کچھ صحافیوں نے اپنی جو بھد اڑوائی وہ انہیں کا طرہ ہے ورنہ سینیئر صحافی رضی الدین رضی اور شوکت اشفاق خان نے تو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ”پریس کانفرنس سوال کرنے کے لئے ہوتی ہے ناکہ بحث کرنے کے لئے“ مذکورہ دونوں صحافی سنجیدہ صحافت کے نمائیندہ ہیں۔اس شعبے میں اگنے والی نئی کھمبیوں کو ان سے صحافتی آداب سیکھنے چاہئیں۔اس کانفرنس کا اصل مقصد فضول بحث مباحثے کی بھینٹ چڑھ گیا اچھا ہوتا اگر سلیقے سے جنوبی پنجاب سیکریٹیریٹ سے متعلق وفاقی حکومت کا موقف وزیر خارجہ سے سنا جاتا اور سنجیدہ سوال و جواب ہوتے۔
جنوبی پنجاب سیکریٹیٹ کے نام پر جو سیاسی کھیل رچا ہوا ہے اسے اب بند ہونا چاہئے،ایم پی اے ندیم قریشی اپنی دکان سجائے ہوئے ہیں،ممبر قومی اسمبلی احمد حسین دیہڑ اپنا چورن بیچ رہے ہیں،پی ٹی آئی کے متعدد کاکارکن اور مقامی رہنما
سرائیکی ڈیموکریٹک پارٹی کے موقف کو تسلیم کرتے ہیں،بریگیڈیئر قیصر علی مہے ملتان سیکریٹیریٹ کے حق میں شہر بھر کے چوکوں پر لاکھوں کے سرمائے سے بڑے بڑے بورڈز کی بھر مار کئے سراپا احتجاج ہیں۔متعلقہ آفیشلز اپنے اپنے طور پر
پراگندہ حال ہیں۔کاش شاہ محمود قریشی کے موقف کو سنجیدگی سے سن لیا جاتا کم از کم کچھ نہ کچھ عقدہ توکشا ہو ہی جاتا مگر صبر اور حوصلے کے فقدان نے معاملے کو اور الجھا دیا۔
تاہم ایک بات طے شدہ ہے کہ مخدوم شاہ محمود کے رابطے اوپر تلک ہیں وہ جو بات کریں گے اس میں وزن ضرور ہوگا، رہے احمد حسین دیہڑ وہ پی پی پی کے سیاسی گھونسلے سے گرے اس بچے کی مثل ہیں جو گرا ہے تو کہیں پناہ اور قرار نہیں پارہا، اس کی سیاسی لڑائی اس کا بھانجا آصف نذر دیہڑ چیئرمین یونین کونسل 56بہت تن دہی سے لڑرہا ہے مگر بے سود کہ اس کے ماموں کو پارٹی ڈسپلن کے خلاف بیان دینے پر نوٹس جاری ہوگیا ہے۔
فیس بک کمینٹ