تحریک انصاف کی چھتری تلے کھڑی نوجوان نسل جعلی مینڈیٹ والی سول آمریت کے جعلی اقتدار کی طاقت ،جاہ و جلال کی چھتری تلے بابے کی جیت پر نہ تو مضطرب ہے اور نہ ہی ششدر و جامد ۔ اب یہ سوال لبوں پر آنے کیلئے بے تاب ہے وہ الیکشن جسے ذرائع ابلاغ پر چیخ چیخ کرخود ساختہ فتح قراردیا جارہا ہے اس کا پس منظر حالات کے کینوس پر یوں بکھرا ہوا ہے کہ ایک طرف سرکاری وسائل ،ا ندھے اختیارات کی طاقت اوردوسری جانب وہ میڈیا جو عوا م کے شعور پراس ”سفید جھوٹ “کو مسلط کرنے کی سرتوڑ کوشش میں لگا ہوا ہے کہ یہ جہانگیر ترین کی نہیں تحریک انصاف کی شکست ہے اس حقیقت کو وہ عیاں کرنے سے قاصر ہے کہ پوری حکومتی مشینری ،ڈی سی او ،ڈی پی او ،ایس ایچ اوز اور پٹواریوں کی فوج ظفر موج کے علاوہ 36یونین کونسلوں کے کونسلرز تک کو کانجو ہاﺅس بلا کر فنڈز بانٹے گئے۔ 13کروڑ کی آبادی کے بڑے صوبے پر بھائی اور وفاق میں ایک ڈمی وزیر اعظم جو اپنا وزیر اعظم ایک نااہل شخص کو باور کراتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے زر خرید دانشور وں کا سارا زور حکومت کے نااہل امیدوار کی تعریف تو صیف میں صرف ہوتارہا لیکن این اے 154میں آزادی رائے کا جمہوریت کے نام پر وہ تاریخ کا سب سے بڑاڈاکہ ، دھوکہ ،فراڈ اور ڈھونگ ثابت ہواجسے عوامی ذہن قبول کرنے کو کسی طرح تیار نہیں ۔پنجاب میں 36سال سے مسلط خاندانی جمہوریت اور حکمرانی میں ہمیشہ لٹیروں ،ڈاکوﺅ ں ،قاتلوں ،رسہ گیروں اور بدمعاشوں کے مختلف گروہوں میں سے سلیکشن کی جاتی رہی ۔ کالے دھن کی معیشت صنعتکار حکمرانوں کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہے جو سماجی جمود کے عہد میں پارٹی منشور اور پالیسیوں کا تعین کرتی ہے اور اس کالے دھن سے سیاسی اقتدار ،مرتبہ ،میڈیا کے ذریعے مقبولیت ،ریاستی عہدے ،منافع بخش کاروبار ،سودے ،وفاداریاں ،وابستگیاں ،قانون ،انصاف خریدا جا تا ہے ۔ اپوزیشن خصوصا ًزرداری سے وابستہ افراد لودھراں کے ضمنی الیکشن میں زمینی حقائق سے نظریں چرا کر علی ترین کی شکست کو ن لیگ کیلئے ایک اہم سنگ میل ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، اگر وہ ماضی کا ادراک رکھتے ہیں تو مرزا نا صر بیگ تو جہانگیر ترین سے بھی زیادہ بڑا زمیندار ہے اور دولت میں بھی اس کا ہمسر جو اس حلقہ سے متعدد بار ایم این اے بنا شکست خوردہ ہوکر بھی جس کے ووٹ 79000سے کم نہ ہوئے لیکن اس کے بیٹے نے ایک بڑی پار ٹی جسے چاروں صوبوں کی زنجیر اور وفاق کی علامت سمجھا جاتا ہے کے ٹکٹ پر محض 3432ووٹ لئے ۔ پی پی کے تنخواہ دار دانشورذرا اس پر بھی بحث کر لیں کہ وطن عزیز کی تاریخ میں ضمنی الیکشن میں حکومت مخالف امیدوار کی کامیابی کے امکانات اس پس منظر میں معدوم ہو جاتے ہیں کہ 36برسوں سے بلا شرکت غیرے ایک نااہل خاندانی موروثیت پنجاب پر قابض چلی آرہی ہے جو سیاسی جماعت سے زیادہ جرائم کی راہ پر سرپٹ دوڑنے والے لے پالک افراد کا ایک ایسا جتھہ ہے جو عوام کی رائے کو بذریعہ جبر اور پولیس اپنے حق میں ہموار کرتا ہے اس مافیا نے پہلا وار اداروں پر کیا اور آج ادارے تباہ اور ان میں بیٹھے کرپٹ سربراہ ان کی رائے کو لیکر چلتے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو لیں تو کیا الیکشن کمیشن نے کسی موقع پر اپنا کردار ادا کیا، لوگوں کو ضمنی الیکشن میں حکومت وقت کی طرف سے بنیادی مراعات کی فراہمی سولنگ ،سیوریج ،گیس ،بجلی کی ترسیل کے موقع پر آرڈرز کیا پری پول رگنگ نہیں ؟حکومتی وسائل کسی بھی الیکشن میں حکومتی جماعت بلاخوف و خطر جھونک دیتی ہے اس عمل سے اسے روکنے والا کوئی ادارہ نہیں ہوتا کہ یہ انتخابی قواعد و ضوابط کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس الیکشن کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ ضلع بھر کے بااثر ،مضبوط سیاسی اور موروثی دھڑے سر جوڑ کر حکومتی امیدوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے ان دھڑوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جنہیں سینیٹ الیکشن میں ٹکٹ دینے کے وعدے وعید ہوئے زرداری رجیم اور شریف خاندان سے جڑے خیر خواہ لیگی بابے کی کامیابی کو آنے والے عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کا عندیہ دیتے ہیں مگر غیر جانبدار کثیر فکری بنک اس بات کی نفی کرتا ہے کہ یہ بحث ہی من گھڑت مفروضوں کی عکاس ہے جبکہ جواں سال علی ترین جس کے مد مقابل ایک موروثی سیاست کے پروردہ ایک ایسے بابے کی جیت ہوئی جو خود مشرف دور میں تحصیل ناظم رہا ،جس کا ایک بیٹا حکومتی ایم پی اے اور مریدین کا وسیع حلقہ اور اس انتخاب کے پس منظر میں خادم اعلیٰ کا وہ ذہن جس نے پہلے جانبدار میڈیا پر پروپیگنڈہ چلوایا کہ وہاں نہ تو شہباز شریف گئے نہ نواز شریف اور نہ ہی مریم یا حمزہ شہباز لیکن ایک پلان ترتیب ڈے ڈالا تاکہ بعد ازاں عوامی رائے اور اذہان کو یر غمال بنایا جاسکے کہ بغیر حکومتی سپورٹ کے ن لیگی اُمیدوار نے ایک سرمایہ دار کے مقابلہ میں میدان مار لیا پنجاب بھر کے حکومتی ممبران اسمبلی کی دن رات مہم ،تعلق ،حکومتی وسائل حکومتی گلیوں تک میں جھونک دیئے گئے مگر اس کے برعکس ایک لاکھ کے قریب ووٹوں کا حصول علی ترین کی بہت بڑی کامیابی ہے اور سٹیٹس کو کے وجود میں ایک دراڑ ہے اسی کا شاخسانہ تھا کہ لودھراں میں اس جیت کے بعد ”سارا ٹبر “لودھراں میں اُمڈ آیا ایک کثیر فکری بنک علی ترین کے وسیع ووٹ بنک کو ایک ایسا نتیجہ تصور کرتا ہے جو مستقبل کی سیاسی پیش بندی اور نوشتہ دیوار ہے اس ضمنی الیکشن میں ن لیگ کی پری پول جیت کو وہ سیاسی نابالغ ایک کامیابی قرار دے رہے ہیں جوعوامی حلقوں میں عمران خان کو ایک ناتجربہ کار سیاسی قیادت کے طور پر متعارف کرانے میں پیش پیش رہے یہ سوال ابھی تک بحث طلب ہے کہ سیاسی میدان کے جواں سال شہسوار اور ناتجربہ کار عمران خان کے سپاہی علی ترین کے مقابلے میں سیاست کے نام نہاد ڈاکٹر اور زرداری کے جیالوں کے بقول منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی (ایک زرداری سب پہ بھاری )کے اُمیدوار مرزا محمد علی بیگ جن کی ضمانت بھی ضبط ہوچکی کا موازنہ ن لیگ کے اُمیدوار سے کیوں نہیں کرتے کیا تجربہ کار زرداری کی پارٹی جو روز افزوں سکڑ کر زرداری لیگ بنتی جارہی ہے اس کا مستقبل یہی نہیں کہ وہ 2018کے الیکشن تک ضیا آمریت سے جنم لینے والی ن لیگ میں ضم ہوجائے گی بصورت دیگر زرداری لیگ کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کا جواب ان کے پاس کیا ہے ؟اس سوال کا پس منظر محض لودھراں کے حالیہ الیکشن تک محدود نہیں لاہور کے حلقہ این اے 120کا رزلٹ اُٹھایئے ،سرگودھا کے انتخابی نتائج چاروں صوبوں کی زنجیر کو توڑ گئے عمران خان پر ان دوغلے ،سیاسی تجزیہ نگار وں کا شعور کس کسوٹی پر پرکھا جائے ؟
وطن عزیز کے باشعور حلقے کا شعور اس موقف کے ساتھ لپٹا ہواہے کہ اقتدار کی ایک لمبی اڑان میں ملک و قوم کا وقت برباد کرنے والے سیاسی ڈرامہ بازوں کا وقت آپہنچا بغض کے خیالات میں الجھی پرپیگنڈہ مشینیں جس طرح چاہے جگالی کرتی رہیں چالیس سال تک عوامی خدمت کا ڈھنڈورا پیٹنے اور حکمرانی کی انگز کھلنے والوں کو عمران گھسیٹ کر عدالت کے کٹہرے میں لایا ۔عوام فیصلہ صادر کریں گے حکمرانی کے زور پر پٹواریوں ،تھانیداروں ،ٹیچروں کو تو پنڈال میں لایا جاسکتا ہے عوام کو نہیں
فیس بک کمینٹ