گزشتہ سے پیوستہ
جب دیوداس کی ہیروئن پارو نصف شب کے عمل میں اپنے گھر سے نکل کر دیوداس کی عظیم الشان حویلی میں داخل ہوتی ہے تو وہاں برآمدے میں نوکر چاکر سو رہے ہیں۔ کوئی پوچھتا ہے ، کون؟ پارو ، آنچل سے منہ ڈھکے ہوئے کہتی ہے”میں“ اندر آکر وہ دلیپ کمار کے کمرے کو بند کردیتی ہے اور دلیپ کمار جو کوئی کتاب پڑھتے ہوئے صوفے پر ہی سو گیا ہے ، سراسیمگی میں دیوار پر گھڑی کی طرف دیکھتا ہے۔ رات کے دو بجے کا عمل ہے وہ پارو سے کہتا ہے کہ ”اتنی رات گئے ،کیا اکیلی ہی آئی ہو“ پارو کہتی ہے ”ہاں“ ہیرو کہتا ہے ”تمہیں ڈر نہیں لگا“ پارو کہتی ہے ”میں جن بھوت سے نہیں ڈرتی“ دیوداس کہتا ہے ”مگر باہر سب ملازم لیٹے ہوئے ہیں اگر کسی نے تمہیں دیکھ لیا ہو؟“
پارو کا جواب ہے کہ جب مجھے پتا ہے کہ میری لجا کو تم ڈھک لو گے تو میں کسی سے کیوں ڈروں؟ مجھے اپنے چرنوں میں جگہ دے دو دیوداس۔ اپنا رشتہ پارو خود دیوداس کے پاس لے کر آتی ہے جو 1955ءکے برصغیر میں ایک عورت کی طرف سے سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
بِمل رائے کا ایک دوسرا حسن سادگی ہے۔ یہ سادگی صرف لباس میں نہیں ، قول و فعل،جذبے ، فرض ،زندگی کے ہر پہلو میں نظر آتی ہے بلکہ فلم فلم نہیں رہتی خود زندگی بن جاتی ہے ، سیدھی اور سچی زندگی! پھر اُسی فلسفی (افلاطون) کا ایک قول یاد کروں گی ”علم ان باتوں سے محبت سکھاتا ہے جن سے محبت ہونی چاہیے یعنی درد مندی ، سچ ،محبت ، انسانیت اور علم کو ان باتوں سے نفرت سکھانی چاہیے جن سے نفرت جائز ہے یعنی جھوٹ ، کینہ ، ہوس ،فریب وغیرہ“۔
بِمل رائے کی فلمیں سادگی اور سچ ، انسان دوستی اور محبت کی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔ ساری فلموں میں ہیروئن دو تین ہی ساڑھیاں بدلتی ہے۔ (علاوہ طوائف کے) بلکہ وہ تو طوائف کو بھی محبت کی مار سے جوگن بنا دیتے ہیں۔ بہادری کے تمام کارنامے عورت کے ذریعے ہوتے ہیں اور ان کارناموں کے پیچھے عشق کا سچ کام کررہا ہوتا ہے۔ ”بندنی“ کی ہیروئن نوتن جسے اشوک نے ایک بڑے الزام سے بچانے کیلئے اپنی پتنی کہہ دیا ہے اور نوتن اور اس کے باپ نے اسے سچ مان لیا ہے ، مگر اس عرصے میں ہیرو کو انگریز سرکار جیل بھیج دیتی ہے اور اب جب نوتن باپ کا گاﺅں چھوڑ کر شہر جارہی ہے تو یہ بڑا فیصلہ ہے جو باپ کو بدنامی سے بچانے کیلئے کیا گیا ہے پھر جب وہ اشوک کو ایک بیوی کے ساتھ دیکھتی ہے ، وہ بیوی جو ہسٹیرک جنونی گلیاری ہے اور اپنی خادمہ نوتن کو مارتی ہے تو نوتن کا دماغ کام نہیں کرتا وہ اس کی چائے میں زہر ملا دیتی ہے۔ ظاہر ہے یہ جرم ہے جس کی سزا بھی نوتن کو آٹھ سال قید بامشقت کے طور پر بھگتنا پڑتی ہے۔ مگر ہدایت کار بِمل رائے کا کمال یہ ہے کہ ہم مقتول کے بجائے قاتل سے پیار کررہے ہوتے ہیں۔ ہم ہی نہیں جیلر ، قیدی مریضائیں سبھی اور ڈاکٹر (دھرمیندر) تو اس کا رشتہ بھی جیلر کے پاس بھیج دیتا ہے۔ یعنی ایک بدمزاج ، گالیاں بکنے والی مار پیٹ کرنے والی مقتولہ کی نسبت ، ایک پڑھی لکھی ، پاک طینت ، خوش تربیت ، نیک ، جو سچ بولنے میں اتنی بے باک ہے کہ اقرارِ قتل تک کرلیتی ہے سبھی اس عورت کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔
پھر بندنی کی یہی ہیروئن اپنی سزا مکمل کر کے جب ڈاکٹر کی بیوی بننے جارہی ہے تو سامنے سمندر کے اسٹیمر پر اشوک کو سوار ہونا ہے دوسری طرف ریل تیار ہے۔ دونوں کی ملاقات بیچ کے انتظار گاہ میں ہوتی ہے جہاں اشوک اُس سے اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگتا ہے اور وطن کی خاطر ، سیاسی شادی ، لمبی جیل پھر ٹی بی کے مرض کا بتاتا ہے۔ وہ ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ”تم میرے ساتھ چلو“ اس زماے میں ٹی بی کا مرض ایسا ہی تھا جیسا آج کل ایڈز کا مرض ہے۔ یہ چھوت کا مرض تھا اور مریض ہی نہیں تیماردار کیلئے موت کا پیغام…. مگر یہاں بھی بندنی کی ہیروئن (ایک ناتواں مگر مضبوط کردار عورت) ہی فیصلہ کرتی ہے اور تمام پچھلی بدنامیوں ، اگلے اندیشوں کو بھول کر محبت اور اس ایک لمحے کو گلے لگالیتی ہے ، جب ہیرو نے اس کی عزت بچانے کیلئے اسے اپنی بیوی کہہ دیا تھا۔
بِمل رائے ایک انتہائی شائستہ سماج سدھار کارکن تھے۔ وہ ایک ایسے باغی بھی تھے جنہوں نے فلم کے ذریعے زمانے کو بڑی خاموشی کے ساتھ کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔
اس کے باوجود بِمل رائے نے کچھ پرانی رسموں کو بچایا بھی ہے۔ مثلاً مجھے یاد ہے ، میرے بچپن تک ، بچیاں گڑیاں گڈے کی شادی کیا کرتی تھیں اور باقاعدہ شادی کی رسمیں ادا کی جاتی تھیں۔ گھر کے بڑے بھی ان شادیوں میں ہنسی خوشی شریک ہوا کرتے تھے۔ یوں ایک طرح سے بچیوں کو آئندہ زندگی کی تربیت دی جاتی تھی۔
”پرینیتا“ میں ایک مشہور گیت آشانے گا یا جواشکوک کمار کی غریب پڑوسن مینا کماری کی چچا زاد بہنوں نے گڑیا کی شادی میں دہرایا ہے۔ اس فلمی منظر میں کلکتے کا انتہائی سادہ اور غربت کا مارا گھرنا ہے چھوٹی چھوٹی دس بارہ بچیاں جن کی عمریں دس سال سے بھی کم ہیں اور دو جوان لڑکیاں مینا کماری اور اس کی بہن (جو گارہی ہے) یہ گیت سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بِمل رائے نے شاعر کا ہاتھ پکڑ کر لکھوایا ہے۔ اگر آج کے زمانے کا کوئی ناپختہ ہدایت کار ہوتا تو چکا چوند اور دھماچوکڑی سے اس گیت کا سبق ہی محو کرادیتا جو ایک گڑیا کو ہاتھ میں لے کر دیا جارہا ہے یہ گانا بھارت ویاس نے تحریر کیا تھا۔
پیا کے سنگ سکھی میٹھی میٹھی بولنا ، اس کے نینن میں سکھی دھیرے دھیرے ڈولنا غصہ کریں وہ زبان نہیں کھولنا
ساجن کو من کے مندر میں رکھنا
نینوں کا دیپک اُجال کے چلو
دلہنیا پیا سے ملنے ، چھوٹا سا گھونگٹ نکال کے
بِمل رائے اپنی اس فلم میں 1950ءمیں جس سماج کو دکھا رہے ہیں وہ عورت اور مرد کیلئے مساوی نہیں تھا۔ دونوں فریقوں میں بعدالقطبین پایا جاتا تھا۔ عورت کیلئے تعلیم کا نہ ہونا ذہنی بلوغت کی پسماندگی اور عورت کا خود کفیل نہ ہونا ،اس حساب سے یہ گیت گو آج کے سماج کے مطابق نہیں لگتا مگر اس وقت گھر کی زندگی کو پُرامن رکھنے کا یہی ایک نسخہ تھا ، سوچا جائے تو ”پیا“ کیلئے بھی ایک اشارہ ہے کہ ”انہیں“ من مندر کے سنگھاسن پر براجنے کے لائق ہونا چاہیے!ویسے یہ نسخہ ہر عہد میں کار گر رہے گا یا ہوسکتا ہے بِمل رائے شاید ایسا ہی دیکھتے ہیں۔
وہ اپنی ہر فلم میں بڑوں کے ساتھ چھوٹوں کو ضرور رکھتے ہیں ، یہ بھی ان کا ایک نسخہ خاص ہے مثلاً ”مدھومتی“ میں گاﺅں کی لڑکیاں میلے میں وجنتی مالا کے ساتھ رقص میں ہیں ، لتا کے بول ہیں:
جُلمی سنگ آنکھ لڑی ،جانے کیسی یہ گانٹھ پڑی
یہ رقص فلمی رقص نہیں لگتا ، کیونکہ رقص کے دائرے میں اچانک کہیں سے آکر چھوٹی چھوٹی دو تین بچیاں بھی شامل رقص ہوجاتی ہیں۔ یہ بِمل رائے کی ایک خاص بصیرت ہے جو فلم کو زندگی سے قریب کردیتی ہے اور وہ اصلاح جو مغرب سے ہمارے ہاں در آئی Generation Gap اس کا خاتمہ کردیتی ہے۔
دیوداس میں بھی ، جب دیوداس اور اس کی بچپن کی ساتھی جدا ہوتے ہیں تو وہ بچی جو بڑی ہو کر سچتراسین کے روپ میں پارو بنے گی ، جنگل میں بیٹھی رو رہی ہے۔ ایک بھکشو جوڑا پتی پتنی ہاتھ میں اک تارہ لیے کہیں سے آتے ہیں اور بچی کو بہلانے کیلئے ساحر لدھیانوی کا لکھا یہ بھجن گاتے ہیں۔
آن ملو آن ملو ، شام سانورے
برج میں اکیلی رادھے کھوئی پھرے
اساطیر ، دیومالا ، شعر اور فنون لطیفہ کو اگلی نسلوں تک پہچانا ، بِمل رائے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں یہ بڑوں کے ذریعے چھوٹوں سے کلام کرنا ،بِمل رائے کی وہ ذہنی تربیت ہے ، جو آج معاشرے میں ہم گنوا بیٹھے۔
بِمل رائے ایک سماج سدھارک ہی نہیں ، جادوگر بھی ہیں۔ وہ اپنا جادو کیمرے کے ذریعے عجیب و غریب طریقوں سے منواتے ہیں مثلاً مدھومتی کے میلے میں دلیپ کمار دُور سے وجنتی مالا کو دیکھ گزرتے ہی ہیرو کو وہاں ہیروئن نظر نہیں آتی۔ وہ گاڑی کے پیچھے چھپ کر نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے ،مدھومتی میں جگہ جگہ یہی کام بادلوں کے چھا جانے سے لیا گیا ہے ،آبشار اور جھرنوں کے زور میں جب مکیش کا گیت دلیپ گا رہا ہے
سہانا سفر اور یہ موسم حسین ،ہمیں ڈر ہے ہم کھو نہ جائیں کہیں
تو پہاڑوں سے آواز کی بازگشت ہوتی ہے ، جس پر ہیرو کے ساتھ ہم بھی سہانے سفر میں کھو جاتے ہیں ، سلیل چوہدری اس سفر کو حسین دُھن دیتے ہیں۔
بِمل کمار رائے کا جادو بعض اوقات احساس تک کو چھولیتا ہے ، یہ ایک کرشمہ ہی کہا جاسکتا ہے ،بچپن کی جدائی کے بعد جب دیوداس جوان ہو کر کلکتے سے لوٹتا ہے تو شام ہو رہی ہے پارو اپنے کمرے میں اپنی شرم چھپانے کیلئے بظاہر بھگوان کی مورتی کے آگے دیا جلانے میں مصروف ہوتی ہے…. دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہیں ، جلتی ہوئی دیا سلائی پارو کی انگلی کی پور تک پہنچ چکی ہے اور پھر وہ جلن سے ہلکا سا سانس لیتی ہے…. لگتا ہے کہ ہماری ہی انگلی جل گئی۔
دیوداس ، جسے میں بِمل رائے کا شاہکار مانتی ہوں ، وہاں ایسے لاتعداد مناظر ، جو روح میں اتر جاتے ہیں ، چندر مکھی (وجنتی مالا) ایک طوائف جو دیوداس کی نگاہ پڑھتے ہی ، جوگن بن جاتی ہے ، دیوداس کی کھوج میں اسی گاﺅں کی طرف پیدل آرہی ہے۔ کچی پگڈنڈی پر دوسری طرف چار کہار پارو کی پالکی لیے چلے آرہے ہیں۔ کہاروں کے بدن پر صرف تہمد ہے پسینہ بہہ رہا ہے۔ چندر مکھی پیدل دھوپ میں پسینہ پونچھتی جارہی ہے۔ کہار ایک گیت گا رہے ہیں۔ عجب گیت اور ایس ڈی برمن کی عجب سحر انگیز موسیقی ہے…. ایسا لگتا ہے کہ کھیتوں سے اٹھتے ہوئے حبس نے ہمیں گھیر لیا ہے ، دم گھٹنے لگتا ہے کیونکہ اب دیوداس سے ان دونوں ، محبت کی ماری ، عورتوں کی کبھی ملاقات نہیں ہوگی ، ساحر کا گیت جو کہارگا رہے ہیں ، کچھ یوں ہے۔۔
جیون کی چاہ میں …. راہی کے واسطے
سکھ کے بھی راستے …. دکھ کے بھی راستے
کہیں گھنی چھاﺅں ہے …. کہیں کڑی دھوپ ہے
وہ بھی ایک روپ ہے…. یہ بھی ایک روپ ہے
کئی یہاں کھوئیں گے …. کئی یہاں پائیں گے
کئی ابھی آئیں گے …. کئی ابھی جائیں گے
گیت کی بحر چھوٹی ، بول سادہ ہیں جو کہار ہی گا سکتے ہیں ، مگر دھن ایسی دکھ بھری ہے جیسے کوئی گلا گھونٹ رہا ہے۔
بِمل رائے کی جادوگری میں صوتیات بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ رات کے 2 بجے جب ، پارو دیوداس کی حویلی کی طرف چلتی ہے تو کتے بھونک بھونک کر اندھیرے اور پارو کے اکیلے پن کو ہولناک بناتے ہیں۔ مدھومتی جب مرچکی ہے اور دیوانگی میں دلیپ پاگلوں کی طرح اسے جنگلوں ، پہاڑوں میں کھوج رہا ہے تو مسلسل فاختہ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میرے لیے فاختہ آج جہاں کہیں بھی بولتی ہے فقط ایک ہی نام لیتی ہے …. بِمل رائے …. بِمل رائے
”بندنی“ میں جب نوتن ، اسٹیمر اور ریل کے امتحان کے بیج انتخاب کے دوراہے پر تذبذب میں ہے تو ریل کی سیٹی اور اسٹیمر کا بھونپو ایک خاص کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ ایک ہیجانی کیفیت جو تناﺅ میں لے آتی ہے ،جیسے فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہو!دیوداس جب پارو کے گھر کے باہر پیپل کے پیڑ کے نیچے آخری سانس لے رہا ہے تو پارو کے دل کی دھڑکن کو اتنا بڑھا دیتا ہے کہ سننے والے کی اپنی دھڑکن بڑھ جاتی ہے بلکہ دل اچھل کر حلق میں آجاتا ہے۔
دیوداس جب کلکتے سے پارو کو خط لکھتا ہے کہ ”میرے ماتا پتا اس رشتے کو قبول نہیں کریں گے“ اور یہ بھی کہ ”میں نے تمہیں کبھی من سے نہیں چاہا“ عین اسی پل پر میز پر رکھی گھڑی کا الارم زور سے بجنے لگتا ہے۔
خط ملازم کو دیتے ہی دیوداس کو پارہ کا جملہ یاد آتا ہے:
کیا ندی میں اتنا بھی جل نہیں جو میرا کَلَنک ڈھانپ لے ، تو دیوداس اڑی رنگت کے ساتھ جس طرح بے تابانہ ملازم کو پکارتا ہے ، اس پکار میں درد بھرا ایسا پچھتاوا ہوتا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ کاش ملازم نے ابھی خط سپرد ڈاک نہ کیا ہو ، مدھومتی جسے بدمعاش زمیندار نے اغوا کر کے بے حرمت کرنا چاہا اور اس نے محل کی دیوار سے کود کر جان دے دی۔ مدھومتی میں مدھواس کی روح حویلی میں ، پہاڑوں اور جنگلوں میں سامنے آکر چھپ کر ایک سرگوشی میں ہیرو کو پکارتی ہے ”بابو جی“ یہ سرگوشی مرنے والی کی آہ ہوتی ہے جو کانوں سے جگر کے پار اتر جاتی ہے اور کلیجہ چیر کے رکھ دیتی ہے۔
دیوداس جب شراب میں بے حال ہو کر ایک لاحاصل سفر پر نکلتا ہے تو ریل کے پہیوں کی آواز کھٹاکھٹ ، ٹھکا ٹھک ٹھکا ٹھک ، ہمارے اپنے سانسوں میں گھل مل جاتی ہے ، بلکہ سانس اکھڑنے لگتا ہے!!
دیوداس اپنے بچپن میں پارو کی کھڑکی کے ٹین کے چھجے پر ، سامنے کے درخت سے آم توڑ کر پھینکا کرتا تھا ، یہی عمل وہ اپنی جوانی میں بھی دہراتا ہے۔ آم کا ٹین کے چھجے پر گرنا ٹنٹناٹن کی آواز کے ساتھ ہی پس منظر میں ستار کی دھن پر پارو کا دوڑتے ہوئے آنا کوئی بھول نہیں سکتا ، حتیٰ کہ دیوداس میں ریل کے سفر کے خاتمے پر ایک قلی لالٹین ہاتھ میں لیے آواز لگا رہا ہے کہ پانڈوا اسٹیشن مانک پور (پارو کی سسرال) کی سواریاں اتر جائیں۔ یہ آواز بھی رہ رہ کر کانوں میں گونجاہی کرتی ہے۔ پھر جب دیوداس چندر مکھی سے جدا ہورہا ہے تو پس منظر میں ایک روتی ہوئی آواز گونجتی ہے۔ مبارک بیگم کی اس درد بھری ، الوداعی پکار اور بے بس صدا کو کون سا دل ہوگا جو سہ سکے؟
وہ نہ آئیں گے پلٹ کر انہیں لاکھ ہم بلائیں
میں بِمل رائے کا حق ادا نہیں کرسکتی ، اس تحریر کے ذریعے میں نے محض ایک قرض چکانے کی کوشش کی ہے جو میرے قلم کی تخلیقی زندگی پر واجب تھا ، بِمل رائے کو میں دکھا ہی نہیں سکتی کیونکہ میں ہدایت کار نہیں مگر جیسے فراق نے میر کیلئے کہا تھا ”میر نہیں ہماری تہذیب بول رہی ہے“ کچھ ایسا ہی بِمل رائے کے لیے کہنا چاہوں گی۔
( بشکریہ :اجراء۔۔ کراچی)