وہ ان کے لئے منحوس دن ثابت ہوا۔ایک رقیہ کی برسی، دوسری طرف اسی تاریخ کو راشد کو تختہ دار پر لٹکایا گیا اور اب کچھ عدالتی پیچیدگیوں کے بعد راشد کی میت کو گھر لایا جارہا تھا۔ گھر میں تو قیامت صغریٰ برپا تھی ۔ رقیہ کی ماں کبھی رقیہ کی یاد میں آنسو بہاتی تو کبھی راشد کی میت کو دیکھ کر دو ہتڑ چھاتی پر مارتی اور ساتھ کہتی کہ رقیہ یہ تو نے کیا کر دیا۔ کبھی راشد کی میت کو دیکھ کر کہتی کہ تو نے رقیہ کو قتل کر کے اچھا نہیں کیا اور پھر راشد کے بیوی بچوں کو سینے سے چمٹاتی اور سینہ کوبی کرتی۔ دیکھنے والے گھر کی تباہی کو دیکھ کر کہتے کہ اس گھر کو کسی بد نظر کی نظر کھا گئی۔
رقیہ دو بھائیوں کی اکلوتی ہمشیرہ تھی ،سب
سے بڑا راشد اور اس سے چھوٹا رمیز اور پھر جنم جلی یہ رقیہ ۔ رقیہ کی ماں نے بیوگی کی چادر جوانی میں ہی اوڑھ لی تھی۔ اس نے اولاد کی تربیت شیرنی کی طرح کی۔ اور کھلایا
سونے کا نوالہ ۔ ماں نے رقیہ کو تعلیم پرائمری تک دلوائی کیونکہ گاؤں میں پرائمری سے آگے کوئی سکول نہ تھا ،گاؤں میں لڑکیوں کا سکول پرائمری تک اور لڑکوں کا مڈل تک تھا ، بیٹوں کو مڈل کے بعد دوسرے گاؤں کے ہائی سکول میں داخلہ دلوا دیا اور رقیہ کو گھر داری میں لگا لیا۔ اپنا ہنر سارا رقیہ میں منتقل کر دیا اور رقیہ کو ہر کام میں ماہر بنا دیا ۔ رقیہ کا ایک بھائی حصول روزگار کی خاطر سعودیہ چلا گیا اور دوسرے بھائی نے گاؤں میں ہی ایک چھوٹی سی پرچون کی دکان کھول لی ۔ رقیہ خوش شکل اور ہنر مند تھی ، کسی کے توسط سے رقیہ کے لئے بی اے پاس سرکاری کلرک کا رشتہ آیا، جسے چھان بین کے بعد منظور کر لیا گیا اور یوں وہ بابل کے گھر کو الوداع کہہ کر اپنے پیا کے گھر کی رونق بن گئی-رقیہ کے شوہر نے رقیہ کو منہ دکھائی میں ایک سونے کی انگوٹھی اور موبائل فون دیا رقیہ کی موبائل فون سے وابستگی فون کرنے یا پھر کال اٹھانے کی حد تک ہی تھی ۔تعلیم کی کمی کے باعث رقیہ کو موبائل فون کی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے برابر تھی ، شادی کو ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن اسے کسی رانگ نمبر سے کال آئی جب اس نے فون کرنے والے صاحب سے پوچھا کہ کون اور کس سے بات کرنی ہے تو جواب ملا کہ آپ سے ۔ اتنی بات پر رقیہ نے جھٹ سےفون بند کر دیا ۔ اب جب بھی اسی نمبر سے کال آتی تو وہ فون کاٹ دیتی ۔اور اب ان صاحب نے کال کے ساتھ ساتھ میسجز بھی بھیجنا شروع کر دیئے اور میسجز پر پیغامات بھی اس قسم کہ جانم تم مجھے نظر انداز کیوں کر رہی ہو میں تم سے بہت محبت کرنے لگا ہوں جب سے تمہاری آواز سنی ہے میں ہر وقت تمہارے ہی خیالوں میں کھویا رہتا ہوں ،دیکھو خدا کے لئے مجھے نظرانداز مت کرو میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا وہ صاحب اکثر اس قسم کے واہیات پیغامات بھیجتے رہتے ایک دن جب ان صاحب
نے فون کیا تو کال رقیہ کی ساس صاحبہ نے اٹھائی رقیہ کی ساس کو آواز مردانہ لگی کیونکہ ان صاحب نے انجان آواز کے سبب ہیلو کہہ کر کال منقطع کر دی ، ساس نے بغیر بہو سے جانچ پڑتال کئے بیٹے سے شکایت لگا دی کہ تمہاری بیوی کا موبائل فون پر کسی کے ساتھ چکر چل رہا ہے رقیہ کے شوہر نے
جب غصے میں آ کر رقیہ کا موبائل فون چیک کیا تھا تو رانگ نمبر سے آئے میسجز پڑھ لئے ۔تعلیم کی کمی کے باعث رقیہ کو موبائل فون کے مختلف آپشنز کے بارے میں آگاہی نہ تھی جس کی وجہ ان پیغامات کی خبر رقیہ کو نہ ہو سکی ۔ شوہر نے رقیہ کے موبائل فون میں موجود پیغامات رقیہ کے بھائی راشد کو پڑھائے تو راشد نے غیرت میں آکر رقیہ پر بے پناہ تشدد کیا۔ اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی یوں ایک رانگ کال سے تین ہنستے بستے گھر لقمہ اجل بن گئے –
فیس بک کمینٹ