بلند قامتی کے ساتھ بلند خیالی لازمی نہیں ہے۔
ویسے اتنی سادگی کہ اپنی پوشاک۔ بالوں کی تراش خراش سے بھی بے نیاز۔ حالانکہ ان محلّات میں سرکاری حجام بھی ہوتے ہیں۔ ایک چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے حجام کو جب بال کاٹنے میں دشواری ہوتی تھی تو وہ پوچھ لیتا تھا کہ جنرل صاحب الیکشن کب کروا رہے ہیں۔ اس پر ان کے بال کھڑے ہوجاتے اور وہ آسانی سے ضروری تراش خراش کرلیتا۔
لیکن جب نئے منتخب چیئرمین سینیٹ کا معاملہ آیا تو اس درویش منش وزیراعظم کے لہجے میں کتنا تکبر اور رعونت در آئی کہ خدا کی پناہ۔ اتفاق رائے یاد آگیا۔ ایک فوجی حکمراں بجا طور پر کہتے تھے کہ اتفاق رائے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ سراسر منافقت اور مصلحت کوشی۔ یہ اتفاق رائے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخاب کے وقت کیوں نہیں ملحوظ رکھا گیا۔ ایاز صادق کا بھی پہلے اس منصب جلیلہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ انہیں بھی پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔ہمیں تو قدرت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اتفاقاً یا حادثاتی طور پر ہی سہی، ملک کے سب سے بڑے رقبے والے اور سب سے امیر صوبے بلوچستان کو یہ بڑا منصب مل گیا ہے۔ باقاعدہ جمہوری طریقے سے کثرت رائے سے ملا ہے۔ جمہوریت کی روح مقابلہ اور انتخاب ہی تو ہے۔ باقی رہی تجربے کی بات۔ صادق سنجرانی صاحب جواں سال جواں عزم ہیں۔ ان کی on job تربیت ہوجائے گی۔ سینیٹ کے سیکریٹری اور تجربہ کار اسٹاف موجود ہے۔ وہ ان کو نیک و بد سمجھاتا رہے گا۔ ویسے ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے وزیراعظم کا یہ فرض ہے کہ وہ چیئرمین سینیٹ اور دیگر عہدیداروں کی تربیت کا اہتمام کریں۔ سینیٹ کے ہر اجلاس میں وزیراعظم کی موجودگی سے بھی ایوان بالا کو اہمیت مل سکتی ہے اور معنویت بھی۔
تاریخ نے ہمیں یہ موقع دیا ہے کہ وفاق کے تقاضے پورے کریں۔ پنجاب سے وزیراعظم ہے۔ پنجاب سے ہی اسپیکر قومی اسمبلی۔ سندھ سے صدر مملکت ہیں۔ اگرچہ سندھی بولنے والے نہیں ہیں۔ بلوچستان سے سینیٹ کے چیئرمین آگئے ہیں تو وفاق کا گلدستہ کسی حد تک پورا ہورہا ہے۔ کے پی کو بھی ان عہدوں میں سے کچھ ملنا چاہئے۔ اپوزیشن لیڈر سندھ سے ہیں۔ سندھی بولنے والے ہیں۔ یہ عہدیدار وفاق کے گلشن میں کھلے ہوئے پھول ہیں۔
ماضی میں بلوچستان سے بہت ناانصافی ہوئی ہے اب بھی ہورہی ہے۔ ہم یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرسکتے کہ بلوچستان ہمارا مستحکم مستقبل ہے۔ اب دنیا میں توانائی کی دوڑ ہے۔ دولت کا مقابلہ ہے۔ بلوچستان کے پاس توانائی بھی ہے دولت بھی۔ سونا تانبا۔ یورینیم۔ تیل۔ گیس اور گہرے پانی کی بندرگاہ گوادر بھی بلوچستان کے پاس ہے۔ دور بدل گیا ہے۔ بلوچستان سرداروں کے نرغے سے نکل رہا ہے۔ ایک عام سیاسی کارکن جناب عبدالمالک کی حکومت کامیاب رہی۔ اس نے اپنی مقررہ 2½ سالہ مدت بھی پوری کی۔ سردار ثنا اللہ زہری اپنی مدت پوری نہ کرسکے۔ یعنی سرداروں کی حکومت غیر مستحکم، کارکنوں کی پائیدار۔ جناب عبدالمالک کی حلف برداری میں ہم شریک ہوئے تھے۔ جمہوری جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے نظر آرہے تھے ان کے دور میں ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے بلوچستان کے تمام اضلاع کے بارے میں ضروری تحقیقی معلومات یکجا کیں۔ سردار ثنا اللہ زہری کے بزرگوں سے ہماری قربت رہی۔بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے اور علاقائی اہمیت اس امر سے جانی جاسکتی ہے کہ وہاں امریکہ بھی دلچسپی لیتا ہے، سازشیں کرتا ہے۔ ہندوستان نے اس کی سرحد پر آٹھ قونصل خانے قائم کئے ہیں۔ افغانستان بھی یہاں دخل اندازی کرتا ہے۔ ایران بھی اسے اپنے مفادات کی توسیع کے لئے استعمال کرتا ہے۔
ہمارے بہت ہی قریبی ہمدم جناب سردار غوث بخش رئیسانی کے صاحبزادے اسلم رئیسانی نے اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں ناشتے کے دوران بتایا کہ سندھ بلوچستان کے لئے امریکی قونصل جنرل ان سے ملنے آئے اور اس شرط پر سوال کرنے لگے کہ اس کا ذکر امریکی سفیر سے بھی نہ کریںHow will you feel if Balochistan gets independence
(اگر بلوچستان آزاد ہو جائے تو آپ کیا محسوس کریں گے)
اسلم رئیسانی وزیراعلیٰ بلوچستان ان کو پوری صداقت سے جواب دیتے ہیں
We will get drunk and will fight with each other
ہم نشے میں آجائیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیں گے۔
ہمیں اس امر پر فخر ہونا چاہئے کہ یہ اہم علاقہ جس پر دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہے۔ ہمارے وفاق کا حصہ ہے۔ اب ہماری ذمّہ داری ہے کہ ہم ماضی میں بلوچستان میں ڈھائے گئے مظالم کی معافی مانگیں۔ جیسے صدر زرداری نے مانگی۔ لیکن اس معافی کے ساتھ عملی اقدامات بھی کریں۔ سب سے زیادہ اہم کردار پنجاب کو ادا کرنا چاہئے۔ حکمراں پارٹی۔ اشرافیہ۔ صنعت کاروں۔ تاجروں۔ ادیبوں۔ دانشوروں کو کہ وہ خود بلوچستان کے کونے کونے میں جائیں۔ ان کے دُکھ درد بانٹیں۔ ان کی جو ضروریات ہیں وہ پوری کریں۔ بلوچستان سب سے حساس صوبہ ہے۔ سب سے زیادہ طاقت ور بھی اور سب سے خطرناک بھی اور یہ حقیقت بھی جانیں کہ وہاں جمہوری حکومتیں بے معنی اور بے نتیجہ کیوں رہی ہیں۔ زیادہ عمل دخل فوج کا ہی کیوں رہا ہے۔ بلوچستان کا رقبہ بہت زیادہ ہے۔ آبادی بکھری ہوئی۔ اس لئے اس کے ٹرانسپورٹ کے مسائل زیادہ ہیں۔ ایسی زمینی صورتِ حال میں جدید ٹیکنالوجی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یہاں آن لائن تعلیم اور تربیت کا نیٹ ورک قائم کیا جائے۔ بلوچ نوجوان بہت ذہین ہیں، وہ پڑھنا چاہتے ہیں، آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بلوچ مرکزی دھارے سے دُور رہنا چاہتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مرکزی دھارا ان سے دُور رہتا ہے، ان کی عزت نہیں کرتا، ان کا حق ان کو نہیں دیتا۔ وہ بہت محبت اور عزت کرنے والے لوگ ہیں۔
پریشانیاں۔ دُوریاں حکمراں طبقوں کی پیدا کردہ ہیں۔ جو آپس میں رشتے بھی کرلیتے ہیں۔ مگر مارے جاتے ہیں عام لوگ۔ آج کا بلوچستان 1960ء اور 1970ء کا بلوچستان نہیں ہے۔ اکیسویں صدی کا بلوچستان ہے۔ اپنے حقوق۔ اپنے اختیارات۔ اپنے وسائل۔ اپنی دولت کا شعور رکھنے والا۔ اپنا بُرا بھلا سمجھنے والا۔ اپنے دوست دشمن پہچاننے والا۔ یہاں صدیوں سے اپنی روایات اور اقدار کی پاسداری کرنے والے بلوچ بھی ہیں۔ اپنی غیرت اور عظمت کا تحفظ کرنے والے پشتون بھی۔ ایسے پس منظر والے نفرت نہیں عشق کے قائل ہوتے ہیں۔ نواب احمد یار خان۔ جناب اکبر بگٹی۔ عبدالصمد اچکزئی۔ غوث بخش بزنجو۔ گل خان نصیر۔ خیر بخش مری۔ سب لائق احترام پاکستانی ہیں۔ عطاء اللہ مینگل اس سلسلے کی ایک قابل قدر کڑی ہیں۔ امان اللہ گچکی ہیں۔ اب نئی نسل عبدالمالک۔ طاہر بزنجو۔ مولانا عبدالغفور حیدری۔سرفراز بگٹی اور وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو یہ سب محبت کے خواستگار ہیں۔ محبت ملے گی تو محبت دیں گے۔ صادق سنجرانی۔ بلوچستان اور پاکستانی سیاست کی شاخ پر پھوٹتی ایک نئی کونپل ہے۔ اسے آگے پھلنے پھولنے دینے میں ہی ہمارا مستقبل محفوظ ہے۔ اسے شاخ سے الگ کرنے میں بہت سے خطرات ہیں۔ جناب وزیراعظم چند ہفتوں کے مہمان ہیں۔ اس دوران محبت پھیلائیں اور ایک ہفتہ بلوچستان میں گزاریں۔ ہمیشہ کے لئے امر ہوجائیں۔ قیادت بلوچستان کا حق ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ