واشنگٹن میں جب بھی جانا ہوا۔امریکہ والے اپنے صدور کی یادگاروں پر ضرور لے جاتے ہیں۔ وہاں امریکی اسکولوں کالجوں کے طالب علم اورغیر ملکی سیاح بھی نظر آتے ہیں۔ جو ان یادگاروں پر درج واقعات کو بغور پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے عہد کے کارہائے نمایاں بھی تاریخ وار بتائے جاتے ہیں۔ ایک نظر میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ سامنے آجاتی ہے۔
میری بڑی تمنّا رہی کہ اسلام آباد میں بھی ایسی یادگاریں تعمیر ہوں۔ جہاں ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کے عہد کے واقعات۔ تاریخی اقدامات اور اقوال زریں درج ہوں۔ جس سے ہماری نئی نسل کو اپنی تاریخ ایک نظر میں جاننے کا موقع مل سکے۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے۔ ہماری تاریخ، صرف پاکستان کی تاریخ میں نہیں۔ عالم اسلام کی تاریخ میں بھی پسند نا پسند۔ نفرت اور محبت کی اتنی سخت روایات ہیں کہ کوئی کسی شخصیت کو تاریخ کا حصّہ نہیں بنانا چاہتا۔ کچھ دوسری شخصیت سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ماضی کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ پسند ہو یا نا پسند۔ وقت کا ایک دَور تو ایسی کسی شخصیت سے موسوم ہوگا۔ تاریخ سے ہماری یہی بد سلوکی ایک طرف ہماری تاریخ فہمی کمزور کرتی ہے۔ دوسری طرف ہمیں تاریخ مسخ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ تاریخ کو ہمیں جیسی تھی، جہاں تھی، جو بھی تھی کے طور پر قبول کرنا پڑتا ہے بعد میں آپ اس کا تجزیہ کرتے رہیں۔ ہم تو اُردو میںDate اور History کا الگ الگ متبادل بھی تلاش نہ کرسکے۔
میں نے یہ تجویز مشرف صاحب کو بھی دی تھی۔ لیکن وہاں ذوالفقار علی بھٹو کا زریں عہد آڑے آگیا پھر صدر آصف علی زرداری سے بھی اس تجویز پر بات ہوئی۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس طرح تو سفّاک ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کی یادگار بھی بنانا ہوں گی۔
یہ تاریخ تو ہماری ہے۔ جغرافیہ بیگانہ ہوجاتا ہے۔ جیسے جغرافیائی طور پر مشرقی پاکستان ہمارا نہیں رہا۔ لیکن 1971تک وہاں کی تاریخ تو ہماری ہے۔ ہم اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ تاریخ میں منتخب ہستیاں بھی ہوں گی۔ نظریۂ ضرورت کے تحت جائز آمر بھی۔ عدالتوں نے ان میں سے صرف ایک کو ناجائز قرار دیا وہ بھی اس کے دَور کے خاتمے کے بہت بعد۔ کسی آمر کو عدالت نے ہٹایا نہیں ہے۔
ہماری تاریخ کے کچھ سال کچھ مہینے ان غیر منتخب لیکن بعد میں ریفرینڈموں کے ذریعے منتخب حکمرانوں سے بھی وابستہ ہیں۔ ان کے دَور میں کئے گئے اقدامات، منظور کردہ قوانین اب بھی ہماری تعزیرات کا حصّہ ہیں۔ ان کے دَور میں جن لوگوں کو ایوارڈ ملے وہ بھی برقرار ہیں۔ جن کو سزائیں ملیں۔ وہ بھی کالعدم نہیں ہوئیں۔ شہروں کے نام بدلے گئے۔ وہ بھی برقرار ہیں۔
اکثر دوسرے ملکوں میں بھی ایسے متنازع ادوار رہے ہیں۔ وہ ان سے انکار نہیں کرتے۔ ان میں اصلاح کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں تو ہر ایک کو متنازع بنانے کا تمدّن ہے۔ پاکستان بننے سے قبل بھی یہی تھا۔ قائد اعظم کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔الزامات عائد کرنے کے ہم دھنی ہیں۔ کسی کی شخصیت میں عیب دیکھنے میں ہم ماہر ہیں۔
اس طرز معاشرت نے ہمیں قوموں کی صف میں اعلیٰ مقام حاصل نہیں کرنے دیا۔ ہمارے غیر ملکی نقّادوں نے، سفارت کاروں نے اکثر کہا کہ ہمیں پاکستانیوں کے خلاف مواد اکٹھا کرنے میں جاسوسی نہیں کرنا پڑتی۔ میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف الزامات سے ہمارا سفارتی تھیلا بھر جاتا ہے۔ کبھی ہم غور کریں کہ دوسری قوموں کے سامنے ہمارا تصوّر ہمیشہ آپس میں لڑتی جھگڑتی، ایک دوسرے کو غدار کہتی، نیت پر شک کرتی، کفرے کے فتوے لگاتی، اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کرتی اور سرکاری خزانہ لوٹتی قوم کا کیوں ہے۔
اس کا نقصان کیا ہوا ہے کہ ہمارے عظیم لیڈر جنہوں نے مشکلات اور صعوبتوں، انگریز سرکار اور کانگریس کی ریشہ دوانیوں کے باجود پاکستان حاصل کیا۔ جناب قائد اعظم محمد علی جناح۔ عالمی سطح پر ہم ان کی وہ قدر نہیں کرواسکے جو ہندوستانیوں نے گاندھی جی کی کروائی ہے۔ امریکہ ہو برطانیہ۔ یورپی یونین جب بھی وہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کو اپنے دَور کے عظیم رہنماؤں میں شامل کرتے ہیں۔ان کے فلسفۂ عدم تشدد کا پرچار کرتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں کرسکے۔ کیونکہ ہمیں اس کی فکر ہی نہیں ہے۔ قومیں اپنے لیڈروں سے پہچانی جاتی ہیں۔ آپ بتائیے قائد اعظم نے کب تشدد کی تلقین کی۔ انہوں نے تو سب پاکستانیوں کو ایک سا مقام دیا کہ مذہب، فرقہ، زبان کچھ بھی ہو۔ اب سب پاکستانی ہیں۔
اس طرح بعد میں جتنی شخصیات آئیں۔ قائد ملت لیاقت علی خان۔ خواجہ ناظم الدین۔ پھر جنرل ایوب خان سب نے اپنے اپنے طور پر ملک کو آگے لے جانے کی کوشش کی۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آئین دیا۔ ایک شکست خوردہ قوم کو مایوسی سے عزم نو کی طرف لائے۔ ٹائم میگزین یا دوسرے بڑے اخبارات جب گزشتہ 50سال کے عالمی لیڈروں کا ذکر کرتے ہیں تو بھٹو صاحب کو شامل نہیں کرتے کیونکہ ہم خود انہیں متنازع قرار دے چکے۔ اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو۔ میاں نواز شریف۔ جنرل(ر) پرویز مشرف۔ سب نے ملک کو کچھ نہ کچھ دیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے لئے کراچی یونیورسٹی میں چیئر قائم کی گئی۔ لیکن وہاں کوئی تحقیق نہ ہوسکی۔ ایک خاتون سحر گل بڑے عزائم لے کر آئیں لیکن وہ دفتری کشمکش کی نذر ہوگئیں۔ پروفیسر محمد احمد قادری ڈین کراچی یونیورسٹی کو عارضی چارج ملا۔ تو انہوں نے ایک روزہ کانفرنس کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی سماجی سیاسی اصلاحات پر سیر حاصل لیکچر ہوئے۔ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کو متنازع بنانے کی کوششیں پھر شروع ہوگئی ہیں۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت اور روٹری کلب نے مل کر اقبال کے یوم پیدائش پر سیمینار منعقد کیا جس میں علّامہ کے ہونہار پوتے ولید اقبال موجود تھے۔ میں نے ان کو پہلی بار سُنا۔ کیا اندازِ خطابت ہے۔ انگریزی اُردو دونوں میں روانی اور فصاحت۔ یہ ہماری نئی قیادت ہے۔ پاکستان کے پاس سب کچھ ہے۔ معدنی دولت بھی۔ ذہنی معدنیات بھی۔ یہ علاقہ جو اب پاکستان ہے۔اس کی تاریخ کئی ہزار سالہ ہے۔ ہر پاکستانی ذہن میں ان تمام صدیوں کا عکس ہے۔ ہمیں اپنی تاریخ کو اپنانا چاہئے۔ جہاں تنقید ضروری ہے۔ کریں۔لیکن جہاں تحسین ناگزیر ہے وہ بھی کریں۔ صرف اپنی خامیوں کو اچھا لیں گے تو دوسری قومیں آپ کو ایک خام مال کہیں گی۔
ہمارے اس منفی رویےکی وجہ سے ہی ہماری نئی نسل میں اپنے ماضی سے بیزاری پیدا ہوئی ہے۔ وہ ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتے۔ لیکن جب باہر جاتے ہیں تو وہاں بھی انہیں اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ آئیے! ہم اپنے وطن کو ہی محفوظ اور مستحکم بنائیں۔ غور کریں کہ کیا روزانہ منفی تنقید اور الزامات سے معاملات درست ہوئے ہیں یا بگڑے ہیں۔ سب کو اپنی دستار کی فکر ہے۔
اپنی تاریخ کو قبول کریں۔ ان لیڈروں حکمرانوں کو ان کے عہد کے مثبت واقعات کے ساتھ سامنے لائیں۔ ہر ایک کا احترام کریں تو آپ کا بھی احترام ہوگا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ