تینوں ہالوں میں حال ماضی سے پ±ر جوش انداز میں دونوں ہاتھ ملارہا ہے۔
مستقبل دونوں کو ملتے دیکھ کر مسکرارہاہے۔
حضور اکرم ﷺ کے عشق۔ صحابہ کرام کی تعظیم۔ آئمہ عظام کی تکریم۔ اولیائے اللہ کی تسلیم کے قابلِ رشک مناظر قدم قدم پر ہیں۔
سقراط۔ ارسطو۔ افلاطون۔ غزالی۔ بوسینا۔ فارابی۔ رازی واقبال کی فکر سے ہم آہنگی کے مظاہر ہر گام ہیں۔ حافظ شیرازی۔ سعدی شیرازی۔ نظیری۔ بیدل سے عقیدتیں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔
میر۔غالب۔مومن۔ داغ۔ ذوق۔ فیض۔ فراق۔ مجاز کے دلدادگان اوراقِ گم گشتہ تلاش کررہے ہیں۔
بلھے شاہ۔ باہو۔ میاں محمد بخش۔ شاہ لطیف۔ سچل سرمست۔ رحمان بابا کی سچائیوں کے مشتاق آنکھوں میں تجسس لیے اسٹال اسٹال گھوم رہے ہیں۔
حرف مطبوعہ صدائے انالحق بلند کررہا ہے۔
شیر خوار بچوں کو گود میں اٹھائے۔ بچہ گاڑیوں میں لیے۔ بزرگوں کو پہیہ لگی کرسیوں پر لاتے۔ پورے حجاب میں صرف سر چادروں سے ڈھکے۔ شرٹ اور جینز میں۔ سیاہ برقعوں میں۔ تھری پیس سوٹ۔ شرٹ پینٹ۔ سفاری شیروانی۔ مگر سب کی منزل اوراق مطبوعہ۔ ایک کتاب جس کی آرزو سال بھر آزردہ رکھتی ہے۔ اب جب اس سے وصال کے امکانات ہیں تو کس قدر۔ دیوانہ وار ایک سے دوسرے ہال میں جارہے ہیں۔
مولانا مودودی۔ شوکت صدیقی۔ شیخ ایاز۔ عبداللہ حسین۔ قدرت اللہ شہاب۔ ممتاز مفتی۔ پیر حسام الدین راشدی۔ اشفاق احمد۔ ابراہیم جلیس۔ ماہر القادری۔ فاطمہ ثریا سب کی روحیں خوش ہیں کہ وقت کے فاصلے انہیں نئی نسل سے دور نہیں کرسکے۔
یہ روح پرور مناظر دیکھنے والوں میں سید خورشید شاہ۔ قمر الزماں کائرہ۔ گورنر عمران اسماعیل۔ خالد مقبول صدیقی۔ فیصل سبزواری۔ سید سردار احمد۔ خواجہ اظہار الحسن۔ عامر خان۔ معراج الہدیٰ اور بہت سے شامل ہیں۔ موجودہ صوبائی وزیر تعلیم سید سردار علی شاہ نے حرف مطبوعہ کی خوشبو کو دل کی گہرائی تک اترتا محسوس کیا ہے۔ پہلے دن تو وہ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے آئے تھے۔ مختصر سی تقریر میں ان کی کتاب ادب۔ دانش سے محبت۔ ہر حرف واضح ہورہی تھی۔ ان کے اپنے اشعار میں تازگی تھی۔ مگر آج وہ ایک عام کتاب دوست کی حیثیت سے آئے ہیں۔ اور کتابوں میں گم ہوگئے ہیں اس روز کتابیں انہیں اعزازی مل رہی تھیں۔ آج وہ خرید رہے ہیں۔ سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کئی سال مہمان خصوصی کی حیثیت سے آتے رہے۔ سابق وزیر تعلیم ہونے کے بعد بھی باقاعدگی سے آرہے ہیں۔ کچھ دیر گفتگو رہتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پیر صاحب نئی وتازہ بین الاقوامی کتابیں بھی پڑھ رہے ہیں۔ پی پی پی کی شخصیتوں میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ باپ بیٹی کی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے کتابیں پڑھتے ہیں۔بھائی بہن کی پی پی پی سے وابستہ صرف بھائی بہن کے چہرے پڑھتے ہیں۔
کوئی مقامی ادارہ۔ کوئی عالمی ایجنسی یقیناًان پانچ دنوں پر نظر رکھتی ہوگی۔ کون آرہا ہے۔ کیا رجحانات ہیں۔ کس قسم کی کتابیں خریدی جارہی ہیں۔ کس قسم کی زیادہ پڑھی جائیںگی۔ اس کے نتیجے میں کیسی قوم ظہور میں آئے گی۔ 2018میں دس سال سے کم عمر کی بچے بچیاں۔ 2025میں کیسا پاکستان بنائیں گے۔ گیارہ سے اٹھارہ سال کے پاکستانی جو یہاں آرہے ہیں ان کے ہاتھوں میں کتابیں بتاسکتی ہیں 2025میں پاکستان کیسا ہوگا۔ مجھے تو ا±مید کی کرنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ بچوں بچیوں کو میں اپنی بچوں کے لیے نظمیں ’ ایاں ایاں یو یو‘ تحفے کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ معصوم چہروں پر مسکراہٹ مجھے بشارتیں دے جاتی ہے۔یہاں صرف کراچی والے ہی نہیں۔ صوبے کے دوسرے شہروں سے بھی خاندان آئے ہیں۔ بلکہ دوسرے صوبوں سے بھی باپ بیٹوں بیٹیوں کی انگلیاں تھامے کتاب کی محبت میں گھوم رہے ہیں۔ کچھ اہل دل۔ اہل ذوق۔ جو اہل زر بھی ہیں۔ وہ تو گاڑیاں بھر بھر کے لے جارہے ہیں۔ دینی کتابوں کی مانگ زیادہ ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ دیکھ رہا ہوں کہ کراچی اور دوسرے شہروں کے دینی مدارس کے طلبہ اپنے مخصوص لباس شلوار قمیص۔ ٹوپی۔ اور کاندھے پر رومال ڈالے شاعری اور نثر کی کتابیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ شرٹ جینز میں ملبوس نوجوان دین اور شریعت پر مطبوعات تلاش کررہے ہیں۔
عام طور پر کہتے ہیں کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ یہاں سب سے زیادہ جستجو تاریخ کی کتابوں کی ہے۔ نوجوان ایسی تاریخ پڑھنا چاہتے ہیں جو حقائق پر مبنی ہو۔ کسی ایک مخصوص عینک سے نہ لکھی گئی ہو۔
سچ جانیے۔ سب سے زیادہ تسکین مجھے اس وقت ہورہی ہے جب نوجوان عام یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹ۔ اور دینی مدارس کے طلبہ۔ ’جنگ‘ کے کالم ”مملکت اے مملکت“کے حوالے سے آکر ملتے ہیں۔ بات کرتے ہیں۔ انہیں میرے کالموں میں سے کئی جملے یاد ہیں۔ ہمیں تو محسوس کروایا جاتا ہے کہ نوجوان اخبار نہیں پڑھتے۔دلچسپی کم ہورہی ہے۔یہاں 1950کی دہائی سے مسلسل ’جنگ‘ پڑھنے والے بھی ہیں کسی نے چوتھی کلاس سے کسی نے چھٹی کلاس سے جنگ پڑھنا شروع کیا تھا اور ابھی تک جاری ہے۔ یہاں بیسیوں بزرگ خواتین و حضرات۔ نوجوان۔ کالج یونیورسٹی۔ بعض اسکولوں کے طلبہ نے بھی کہا کہ آپ نے اپنے کالم میں کہا تھا کہ کتاب میلے میں ملیں گے۔ آپ ہمیں ڈھونڈتے رہے۔ ہم حاضر ہیں۔ یہ سوال بھی ہورہا ہے جو میں 1960سے سن رہا ہوں۔ پاکستان کا کیا ہوگا۔ موجودہ حکومت کیسی ہے۔ تشویش بھی ہے۔ لیکن میں انہیں یقین دلارہا ہوں کہ کتاب سے یہ محبت یقیناً پاکستان کو اپنی منزل کی طرف لے جائے گی۔
نوجوانوں میں بعض خود مضمون نگار ہیں۔ بلاگر ہیں۔ کالم لکھنا چاہتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی یلغار۔ گوگل کی بھرمار۔ اسمارٹ فون کی بے گار۔ چینل قطار اندر قطار نے بھی پرنٹ کی دلداری نہیں چھینی ہے۔وہ جو کہتے تھے۔ ڈیجیٹل دنیا آگئی ہے کمپیوٹر چھاگیا ہے۔ کتاب کی موت واقع ہوگئی ہے۔ ایسا نہیں ہوا ہے۔ کتابیں اپنے حسن فراواں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ مختلف رنگوں۔ مختلف لباسوں میں اپنے عشاق کا خیر مقدم کررہی ہیں۔ الماریوں سے۔ اسٹورز سے باہر نکل آئی ہیں۔ پاکستان کی مختلف نسلوں کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔
یہاں پی پی پی والے نظر آرہے ہیں۔ ایم کیو ایم والے بھی۔ جماعت اسلامی والے بھی۔تحریک منہاج القرآن والے بھی۔ ان کا اپنا اسٹال بھی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے بڑے رہنما تو نہیں لیکن کارکن دکھائی دے رہے ہیں۔ سندھی۔ بلوچ قوم پرست بھی۔ ٹریڈ یونین رہنما بھی۔ موجودہ اور سابق بیورو کریٹ بھی۔ لیکن پاکستان مسلم لیگ(ن) سے کوئی نہیں دکھائی دے رہا۔ نہ ہی تحریک انصاف کے ایم این اے۔ ایم پی اے۔ حالانکہ اس شہر پر دعویٰ اب ان کا ہے۔ حکمران مثلث میں سے مجھے تو کوئی نظر نہیں آیا۔ کیا یہ حاکمانِ وقت خلق خدا کے جذبات و رجحانات سے با خبر نہیں ہونا چاہتے یا صرف فدویوں کی رپورٹوں پر انحصار کرنا چاہتے ہیں۔ غیر ملکی سفارت کار یہاں آرہے ہیں۔ وہ اپنی حکومتوں کو رپورٹیں بھیج رہے ہیں کہ پاکستانی انتہا پسند نہیں۔ علم و دانش کے رسیا ہیں۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہیں ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
مجھے تو ان پانچ دنوں سے یہ سبق مل رہا ہے کہ پرنٹ بھی زندہ ہے۔ اور قوم بھی۔ کاش قیادت کے دعویدار بھی زندہ ہوجائیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ