ڈاکٹر نجیب جمال صاحب.. کلاسِکی شاعری پڑھانے والے کلاسیک لہجے اور شخصیت کے مالک.. کلاسیک لفظ تو ان کی شخصیت کا لازم حصہ ہے۔ میرے اُستاد کمال است۔۔۔۔جمال است۔۔۔۔سر نجیب جمال صاحب۔۔۔۔
میری ایم اے اردو کی ڈگری پر کلاس ٹیچر کے نام کے دستخط ایک موتی کی طرح جھلملاتے ہیں۔ ۔۔۔میرے لئے یہ دستاویز بے حد قیمتی ہے۔۔۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ میری ایم اے اردو کی ڈگری کے تعمیرساز بھی ہیں اور میرے علمی رہبر بھی۔۔۔ اُستاد اور شاگرد کا رشتہ ایک الوہی تقدس بھر رشتہ ہے اور زندگی کے لازوال رشتوں میں سرِفہرست بھی۔۔۔
سرنجیب جمال صاحب تو "صوتی ّ اثرات” کے "سامری جادوگر” ہیں۔۔۔ شاعری پڑھاتے تو کلاسیکی شعراءشعبہ اُردو میں "خیمہ زن” ہوجایا کرتے تھے۔ ایسے لگتا تھا۔۔۔ کسی خیمے سے میر درد۔۔۔ درد کی راہدریوں کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں اور خود سے ہمکلام ہیں۔
غالب اپنے حقے اور پان کی گلوریاں سجائے محفل برپا کئے بیٹھے ہیں۔۔۔ آتش تشریف فرما ہوتے تو لگتا آج دل بے تاب بلبل کو پیامبر کی عدم دستیابی کے بعد تو "فلسفہ آرزو” سمجھا کر ہی دم لے گا۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی تک بات آئی۔۔۔ تو پیتل کی سُرخ و سبز منقش سُنہری صراحیوں سے پانی کے قطروں کی چھن چھناہٹ ہمارے ماتھے تک محسوس ہوتی۔۔۔ کبھی ہاتھ سینے پر رکھ کر درد کو روکنے کی آخری حد تک سعی کی جاتی تو کبھی ۔۔۔۔ باور کروایا جاتا۔ شُکر ہے سرنجیب جمال صاحب نے منٹو نہیں پڑھایا ورنہ پرویز مشرف تو ہمارے شعبہ اردو کی "گاچی” بنوا کر طالبعلموں کو اساتذہ سمیت عجائب گھر میں رکھوا دیتا۔
نجیب جمال صاحب تو ولی دکنی کے ولی ہیں۔ ولی دکنی پڑھاتے سمے ان کے لہجے کی کھنک رادھا کے کتھک میں بدل جاتی۔۔۔ سرنجیب جمال تو اسی خوش فہمی میں رہتے کہ بس رادھا تو اِن کی ہی سہیلی ہے۔۔۔۔ حالانکہ ہم سب نجیب جمال صاحب کی آنکھوں سے ہی رادھا کے پائل کی چھن چھن کا نظارہ کررہے ہوتے۔
سرنجیب جمال صاحب نے پہلے صاحبِ طرز غزل گو شاعر ولی دکنی سے ہمارا تعارف کروایا۔ سیاحت پسند ولی دکنی کی شاعری لہجوں کے منظر نامے کی عکاس ہے۔صوفیانہ لگاﺅ کی چاشنی نجیب جمال صاحب کے آفاقی لہجے کی دستک سے ہمکنار ہوتی تو کبھی ولی دکنی نٹ کھٹ بن جاتے تو کبھی عشق حقیقی میں ڈوب ڈوب جاتے۔ کبھی سعد اللہ شاہ کی رفاقت منعکس ہوتی تو کبھی فارسی ادب کی تازگی ۔ ۔۔۔ بے حد منفرد ولی دکنی بے حد منفرد سر نجیب جمال صاحب "واردات پہ واردات”۔
زکریا یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں ہمارے زمانہ طالب علمی میں سرنجیب جمال صاحب کا "قیام و مقام”ضربِ مومن کی مشق کی طرح مضطرب و مشکل اور طویل تھا۔۔۔ ہم سادہ لوح طالب علم تھے۔ جو سیاست نہ سمجھتے تھے۔۔۔۔ نہ گھر کی ۔۔۔۔ نہ دُنیا کی۔۔۔۔ نہ شعبہ کی۔۔۔۔ نہ یونیورسٹی کی۔۔۔ بحیثیت طالبعلم ہم سب پر تمام اساتذہ کا احترام لازم ہے۔۔۔ کہ ان کو یکساں احترام کی مسند پر بٹھایا جائے ۔۔۔ بحیثیت طالب علم ہمیں "قاضی” بننے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
ہم نے بھانپ لیا تھا کہ محترم سرنجیب جمال صاحب کسی بھی حمیت کی حمیت کے حامی نہیں۔۔۔ بلکہ ایک فرض شناس اُستاد کی انفرادی حیثیت کے حامل ہیں۔ جذباتی لگاﺅ۔۔۔ قلبی لگاﺅ تو روحانی سرشاری ہے۔۔۔ یہ تو عطیہ خداوندی ہے۔۔۔
شعبہ اردو میں سر نجیب جمال کا اختلاف ” حُسنِ اختلاف ” بن چُکا تھا۔۔۔ میرے لئے اِختلاف کا یہ عالم ملتان کمپنی باغ کے جھولے کے ہنڈولے کی طرح محسوس ہوتا تھا۔۔۔ کبھی اوپر کبھی نیچے۔۔۔ کبھی نہ اوپر ، نہ نیچے۔۔۔ معلق ہی معلق۔۔۔ سرنجیب صاحب کا حسنِ اختلاف کا یہ جھولا عالم برزخ کی طرح رُک سا گیا تھا۔ ۔۔ ٹھہر سا گیا تھا۔۔۔ تھم سا گیا تھا۔۔۔ لیکن مجال ہے ۔۔۔۔ کبھی اُستادِ محترم نے اپنے منصب کی منصب شکنی کی ہو۔۔۔ موسم کیسا بھی ۔۔۔۔ مزاج کیسا بھی ہو۔۔۔۔ تناﺅ جتنا بھی ہو۔۔۔ سرنجیب جمال صاحب ایک روشن "آفتابی ذہن” لے کر پڑھاتے اور سارے دن کے لئے اُجالا چھوڑ کر چلے جاتے۔۔۔
اِختلافِ زندگی کا ازلی و ابدی حصہ ہے۔۔۔ اختلاف دراصل گندم کے کھیت کے کھلیان کی تیز دھار درانتی سے فصل کے کٹنے کا نام ہے۔۔۔ بظاہر لگتا ہے۔۔۔ اب کھیت اور کھلیان میں "لاتعلقی” ہوگئی۔۔۔ جڑ کا زمین سے رشتہ ٹوٹ کیا۔۔۔ حالانکہ یہ تو ایک اعلامیہ ہوتا ہے۔۔۔ فصل اب پک چکی ۔۔۔ "دانہ الگ” ۔۔۔۔”بھوسہ الگ” ۔۔۔۔ آگ الگ۔۔۔ راکھ الگ۔۔۔ چنگاری الگ۔۔۔ اب اس پھل پھول کے ثمرات دیکھو۔۔۔۔
زندگی میں محترم سرنجیب جمال صاحب کے نپے تُلے قدم اور صبر کے اوصاف کے ثمرات آج ان کے دامن میں تروتازہ مہکتے پھولوں کی طرح مہک رہے ہیں۔ ۔۔ جو تمغہ حسن امتیاز کی صورت میں ہوں یا ۔۔۔۔ کتابوں کی تخلیقات کی شکل میں ۔۔۔۔ یا ان کے طالب علموں کے دلوں میں "موجزن” احترام کے انداز میں۔۔۔۔
1995 ءمیں سُنا کہ محترم سرنجیب جما ل صاحب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چلے گئے ہیں یا انہیں جانا پڑا۔۔۔ یقینا وہاں کے صحرائی ریتلے میدانوں کو بھی محترم سرنجیب جمال کے علم و ادب کے گلابوں کی پنیری کی "اشد ضرورت ” تھی۔ اور ایسا ہی ہوا۔۔۔۔ اِن کے ہونہار شاگرد علم کی روشنی میں پھیلانے میں مگن ہیں۔
پھر میں نے سُنا کہ "اردو شاعری کی ملکہ ” پروین شاکر ہمارے شعبہ اُردو میں تشریف لائی ہیں۔ 1989-90 ءمیں جب ہم سرنجیب جمال صاحب سے پڑھا کرتے تھے۔۔۔ جوان تھے۔۔۔۔ جذبات بھی تھے۔۔۔۔ احساسات بھی عیاں تھے۔۔۔۔ رواں بھی تھے۔۔۔۔ پروین شاکر کی شاعری کی ساحری کے اثرات کی بدولت ہر لڑکی خودکو کچھ نہ کچھ ” پروین شاکر ” تصور کرتی تھی۔۔۔ طالبات اپنی گفتگو میں پروین شاکر کی شاعری کے سُنہرے ٹانکے لگا کر اپنے آنچل کو اور سُنہرا کیا کرتیں تھیں۔ ۔۔ یقینا نجیب جمال صاحب کی جمالیات میں اور پروین شاکر کی چھب میں کوئی نہ کوئی قدر مشترک تھی۔۔۔ ہماری کلاس کے ہماری ہی طرح کے ، ہماری ہی عمر کے طالب علم اس فرضی پروین شاکر کا مقابلہ کرنے کیلئے سرنجیب جمال صاحب کا "شخصی تاثر ” اُدھار لیتے۔۔۔۔ ان کا لہجہ اپناتے۔۔۔۔ ان کا تاثر نبھاتے مگر فرضی کردار کی طرح ناکام بلکہ۔۔۔ ناکام ترین۔
یقینا علم و ادب کے اِس اساطیری شہزادے جیسا شہزادہ بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اردو کو دوبارہ میسر نہ ہوا۔۔۔ شعبہ اردو میں اس اساطیری شہزادے کی ” تلاشِ گمشدگی ” کے اشتہار کی گونج آج تک گونجتی ہے اور گونجتی ہی رہے گی۔۔۔
یونیورسٹی ہوسٹل کی طالبات اور Day Scholarکی زندگی یکسر مختلف ہوتی ہے۔۔۔ خیر اب تو Privacy Lockکی وجہ سے سب کی زندگی ذاتی ذاتی سی ہوگئی ہے۔۔۔ اب تو گھریلو خاتون خانہ کے ایک ہاتھ میں ماچس اور دوسرے ہاتھ میں What’s App۔۔۔ کام تو دونوں کا ایک ہی ہے۔۔۔ چنگاری۔۔۔چنگاری۔۔۔چنگاری۔۔۔ اِس یکسر مختلف زندگی میں ہوسٹل کی لڑکیاں شعبہ بلکہ اپنے شعبہ کی ساری بلڈنگ کا "اجتماعی پن ” اپنے ہمراہ کاغذوں ۔۔۔ کتابوں میں سمیٹ کر لے آتی تھیں۔۔۔ پھر ہوسٹل میں خوب ہوم ورک ہوتا۔۔۔ اِس طرح ایک دِن ہمارے ” ہمسایہ ونگ” کی ایجوکیشن والیوں نے ” ہوم ورک ” کے دوران اردو والیوں سے محترم سر نجیب جمال صاحب کو ” اُچک ” لیا۔ ہم اُردو والیاں جذبات میں بھی کثیر تھیں اور تعداد میں بھی۔۔۔ ہم نے احتجاجی زوردار نعرہ لگایا۔۔۔ "سر نجیب جمال صاحب ہمارے ہیں۔” اِن کا جوش و ولولہ کم نہ ہوا۔۔۔۔ باقاعدہ محترم سرفاروق مشہدی صاحب جو اُن کے اُستاد تھے۔۔۔۔ قافلہ روانہ ہوا۔۔۔۔ درخواست گُزار ہوئیں۔۔۔ محترم سرفاروق مشہدی صاحب۔۔۔ مودبانہ گُزارش ہے کہ آپ بحیثیت اُستاد ناصر کاظمی کی تدریس کے لئے مُحترم سر انوار صاحب کی دعوت پرشعبہ اُردو تشریف لے جاسکتے ہیں تو اُردو ہماری قومی زبان ہے۔۔۔۔ ہم اُردو زبان کی قومی حیثیت کا قومی حق استعمال کرتے ہوئے سرنجیب جمال صاحب سے تدریس کے طلبگار ہیں۔۔۔ اور کچھ نہیں تو ولی دکنی کی چند غزلوں کی وضاحت و تشریح سے فیض یاب کروایا جائے۔۔۔ ایسا نہ ہوسکا۔۔۔
کبھی کبھی جوق در جوق آتی لڑکیوں کے قدموں کی چاپ اور باتوں کی کلاکاریوں سے اندازہ ہوجاتا کہ صبح صبح پریڈ کرتا تازہ دم دستہ شعبہ اُردو کے چبوترے کی طرف بڑھتا محترم سرنجیب جمال صاحب کی سلامی کے لئے آیا ہے۔۔۔ محترم سرنجیب جمال صاحب۔۔۔ ایسی ” سائنس بھری” باتوں سے ہمیشہ گُریز کرتے رہے۔۔۔ آج بھی What’s Appکے گروپس میں ایجوکیشن والیاں اور اردو والیوں کو Message – Forwardکرتی ہیں کہ سُنا ہے تُم لوگوں کے سرنجیب جمال صاحب F.C.کالج لاہور میں ہوتے ہیں۔۔۔ہم بھی "ہمارے ” سر نجیب جمال صاحب کی فتح یابی پہ انہیں Smiley Face Replyکرتے ہیں۔
اِسی سال مارچ 2017 ءمیں ایف سی کالج میں جوش ملیح آبادی کی یادمیں تقریب کا دعوت نامہ نظر سے گُزرا۔۔۔ محترم سر کی اِجازت سے مجھے اور میرے کلاس فیلو نذر بھٹی کو F.C.کالج کی بہترین ادبی تقریب میں جانے کا موقع میسر آیا۔۔۔ ہمارے دِل پر کسی درگاہ پہ جانے کی سی سرشاری اور مسرت طاری تھی۔۔۔ کونکہ ہم اپنے محترم اُستاد ولی دکنی کے ولی سے 28سال بعد ملاقات کرنے والے تھے۔۔۔۔ جوش ملیح آبادی کی یاد کی تقریب میں مُحترم سر نجیب جمال صاحب کا لیکچر سُنا۔۔۔ دِل جھوم اُٹھا۔۔۔ ان کے بیان میں رسمی پن نہ تھا۔۔۔ جوش ملیح آبادی سے عقیدت احترام اور قلبی لگاﺅ اجاگر تھا۔۔۔ ان کا علمی وجدان بھی عروج پر تھا۔۔۔ جوش ملیح آبادی کے بارے میں ڈاکٹر صغریٰ صاحبہ نے اپنی یادوں کی وابستگی سے جوش کی کتاب یادوں کی برات سے "لگاﺅ” کا اظہار نہایت عقیدت و احترام سے کیا۔ مجھے لگا کہ سارا پنڈال باراتی ہے اور محترم سرنجیب جمال صاحب "مطلوبہ دُلہن” کیونکہ سرنجیب جمال صاحب۔۔۔ ہمیشہ مطلوب ہی تو رہتے ہیں اپنے عشاق کو ۔۔۔۔ اپنے ناقدین کو ۔۔۔ اپنے مخالفین کو۔۔۔ اپنے شائقین کو اور آنے والی صدی میں مورخین کو۔۔۔
دورانِ تقریب سرنجیب جمال صاحب کو چابی سے چلنے والے جاپانی گُڈے کی طرح کمپئرنگ کی کاروائی کرتے دیکھا۔۔۔ آنکھیں مسکراہٹ سے مزین۔۔۔ چہرے پر اپنے منصب کی رعنائی۔۔۔ وُہی متناسب قدم۔۔۔ وُہی متوازن روپ۔۔۔ 28سال بعد جوش کی رباعیوں کے لہجے کی حق ادائیگی کے کمالات سے بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ اُردو کی اپنی کلاس میں جابسی۔ ۔۔ وُہ لمحہ غنیمت لگا۔۔۔ جب میری یادوں کی تطہیر ہوگئی ان کے شاگرد ہونے سے میری تکریم ہوگئی۔۔۔
F.Cکالج لاہور میں سرنجیب جمال صاحب کا ذہنی لگاﺅ شاگردوں کے جذباتی لگاﺅسے منسلک دِکھائی دیا۔۔ اُن کے اِس روپ سے مجھے اور میرے کلاس فیلو کو BZUوالی کلاس کی طلب میں بھی افاقہ مل گیا ۔۔ یونیورسٹی کی زندگی میں سب سے قیمتی یاد”لانگ ٹرپ” ہوتا ہے۔ بعد ازاں ہنی مون ٹرپ کی دستیابی کے تقابل میں "لونگ” ٹرپ زیادہ لاڈلا بن جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ ٹرپ کوئی بھی ہو۔۔۔ سب تھانہ کچہری کے چکر کی طرح شمالی علاقہ جات تک ہی تو جاتے ہیں۔ ہنی مون ٹرپ حاکم و محکوم کی "زنجیر زنی ” کی پہلی تقریب ہوتی ہے دِل خوش و خرم اور مطمئن مگر لاشعور ۔۔۔ لاشعور "متوقع خرم” کی آمد کے خوف سے مضطرب مضطرب ۔۔۔۔ اور یونیورسٹی کا ٹرپ۔ آزاد اور البیلی زندگی کی آخری البیلی یاد۔۔۔ محترم سر نجیب جمال صاحب کی سرپرستی میں ٹرپ کی بخیریت واپسی پر۔۔۔ ہمارے شریفانہ بلکہ غریبانہ رویے کی وجہ سے اظہار ِ تشکر کے طور پر کہاگیا۔۔۔ پہلی غیر جذباتی کلاس ہے۔ جس نے ٹرپ سکون سے ہی رہنے دیا۔۔۔ ورنہ لانگ ٹرپ اپنے سرپرست کو ناکوں چنے چبوائے بغیر واپس ہو۔۔۔ ناممکن ہے۔۔۔ یہ "سکون” صرف اور صرف” مکتب کی کرامت تھی”ورنہ تو ابھی تک F.Bپہ انگارے جلتے بجھتے دِکھائی دیتے ہیں۔۔۔
محترم اُستاد 17کتابوں کے تخلیق کار ہیں۔ عربی زبان اور اُردوزبان کی تفہیم اور باہم ترویج کیلئے اِن کی تخلیقی خدمات قابلِ ستائش ہیں۔ اُستاد ہمیشہ ہی اُستاد تو شاگرد بھی اپنی ازلی سستی اور لاپرواہی کے لباس میں ملبوس رہتا ہے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں محترم سر نجیب جما ل کی یگانہ پر تحقیقی کتاب نے ادبی حلقوں میں دھوم مچا دی تھی۔۔۔ اِن کی کتاب کے عنوان کی "دھار” کا اندازہ لگائیں۔۔۔ "غالب شکن یگانہ”۔ اِن کی تحقیقی کتاب پر کئی سیمینار بھی منعقد ہوئے۔ پھر اِن کی دوسری کتاب "یگانہ” ، "تحقیقی، تنقیدی مطالعہ”،”نان فکشن کیٹگری” میں سال 2014میں بہترین کتاب کے طور پر UBL”ایکسیلنس ایوارڈ”دینے کی خبر آئی مگر ۔۔۔۔ میں بحیثیت شاگرد اسی کسلمندی کے باعث یگانہ سے بے گانہ ہی رہی۔ گُزشتہ سال اُردو بازارلاہور کی ایک بک شاپ پر محترم سرنجیب جمال صاحب کی کتاب "ہمارا اقبال ” نظر آئی تو اپنے اُستاد محترم کا۔۔۔۔ہمارے قومی شاعر علامہ اقبا ل سے "اپنے پن” کے اظہار کو فوری خرید کر ان کی ایک "نکمی” شاگرد کو تحفت ً ہدیتہ پیش کردیا۔ سر وُہ نکمی شاگرد آپ سے مخاطب ہے۔۔۔
فیس بک کمینٹ