پھل اور پھول انسانی زندگی میں خوشیوں کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ پھول اپنے رنگ و خوشبو اور پھل اپنے ذائقے کی وجہ سے مقبول و مشہور ہیں۔ جیسے گلاب کو پھولوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے بالکل اسی طرح رسیلے روپہلے آم کو پھلوں کا بادشاہ مانا جاتا ہے، آم کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جن ممالک میں اس کی فصل نہیں ہوتی یا کم ہوتی وہاں پاکستان سے بڑی تعداد میں آم درآمد کیا جاتا ہے، اور وہاں لوگ لائن میں لگ کر اپنی آم کی پیٹیاں وصول کرتے ہیں، جبکہ ہم پاکستانیوں پر اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ عمدہ سے عمدہ آم عام بازاروں میں با آسانی مل جاتا ہے۔
ایک غیر ملکی جریدے کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے سندھ میں آم کی فصل کو نظر لگ گئی ہے اور اس بار وہ تازہ آموں کی مہک جو ہر سال مشام جاں کو معطر کردیا کرتی تھی شاید اتنی گہری نہیں جیسی کہ ہمیشہ ہوا کرتی تھی۔ لوگ سارا سال آموں کے موسم کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں، اور جب یہ موسم آتا ہے تو لگتا ہے جیسے روپہلی دھوپ نکل آئی ہے اور ہر طرف سونا بکھرا ہوا ہے ، مگر اس بار شاید ایسا نہ ہو، کیونکہ اس بار سندھ میں آم کی فصل کے سر پر انتہائی خطرناک بیماری کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ جو بڑی تیزی سے سندھ میں آم کی فصلوں پر حملہ آور ہو رہی ہے جسے mango death syndrome کہتے ہیں جو کئی متعدی بیماریوں کا مجموعہ ہوتی ہے ، ان میں سب سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماری مرگ ناگہاں یا اچانک موت ہے جسے sudden death disease بھی کہا جاتا ہے۔ اس بیماری میں آم کے درخت کے پتے اور پھول اچانک سوکھ کر جھڑنا شروع ہوجاتے ہیں، ساتھ ساتھ ٹہنیاں بھی سیاہی مائل ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ سندھ کے کاشتکار اس مصیبت سے خاصے پریشان ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے آم کے درختوں پر کبھی ایسی شدیدی بیماری پھیلتی نہیں دیکھی، جس سے بچنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ۔ کاشتکار کہتے ہیں کہ ماہرین اسے مرگ ناگہاں sudden death disease کہتے ہیں جو اچانک درختوں میں پھیلنا شروع ہوجاتی ہے اور اس کا واحد علاج متاثرہ ڈالیوں یا ٹہنیوں کو کاٹ دینا ہے ۔
کاشتکاروں یا باغبانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہوشیار رہیں کیونکہ یہ بیماری Sudden Death Disease ایک درخت سے دوسرے درخت اور ایک باغ سے دوسرے باغ تک نہایت تیزی سے پھیلتی ہے، اور باغبانوں کو سنبھلنے کا موقع تک نہیں دیتی ہے۔
باغبانوں کے مطابق اب تک اس وباء Sudden Death Disease سے سندھ کے 20 سے 30 فیصد آم کے باغات کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ زیریں سندھ کے علاقے میرپورخاص، سانگھڑ، حیدرآباد، ٹنڈو جام، ٹنڈو الہ یار سندھ میں آم کی پیداوار کیلئے خاص شہرت رکھتے ہیں، یہاں کے آم اور ان کی پیداوار بے مثال ہے۔ مگر اس وقت یہاں کے کاشتکار باغبان اس وباء Sudden Death Disease کی وجہ سے شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ میرپورخاص کے ایک بڑے کاشتکار نے بتایا کہ وہ اس وباء کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کی 20 سے 30 فیصد فصل وباء کا شکار ہوکر برباد ہوچکی ہے اور وہ شدید نقصان کا خدشہ محسوس کررہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ صرف سندھڑی آم کی کاشت کرتے ہیں جو کئی ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح کے حالات عموماً ہو جاتے ہیں مگر اس بار وباء کی شدت بہت زیادہ ہے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بہت ممکن ہے کہ اس کی وجہ فروری کے مہینے میں درجہ حرارات میں غیر معمولی اضافہ ہو، کیونکہ اس بار فروری میں درجہ حررارت 30 سے 40 ڈگری تک جا پہنچا تھا جو کہ بہت ہی غیر معمولی تھا جو آم کے پھولوں جنہیں بور بھی کہا جاتا ہے پر بہت بری طرح اثر انداز ہوا، اس کی دوسری وجہ پانی کی قلت ہے جو درختوں کو کمزور کردیتی ہے جو وباء کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ آم کے درختوں پر پوری قوت سے حملہ آور ہوکر انہیں نقصان پہنچا سکے ۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یہی حالات رہے تو سندھ میں آم کی پیداوار تباہ ہو کر رہ جائے گی۔
اس ضمن میں سندھ کے مینگو کنگ فیصل کاچیلو نے بتایا کہ ہمارے اجداد آم کی بہت سی اقسام لکھنؤ ، اندور اور مدراس سے لائے تھے، انہوں نے دوسروں کی بہ نسبت کافی امید افزا باتیں کیں انہوں نے کہا کہ یہ وبائی امراض بہت پرانے ہیں جن پر ریسرچ جاری ہے اور امید ہے کہ حالات بہتر ہوجائیں گے، انہوں نے بتایا کہ وباء کی کئی اقسام ہیں جیسے dieback, quick dieback, and sudden death، جو مختلف رفتار سے حملہ آور ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ وباء کی اقسام کو اس کی رفتار کے ذریعے شناخت کیا جاسکتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں چوتھا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے، جبکہ ملک میں آم کی پیداوار کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر اور سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سالانہ آم کی پیداوار
1.6 ملین ٹن سے لیکر 1.8 ملین ٹن تک ہوتی ہے، جس کا 40 فیصد سندھ میں پیدا ہوتا ہے۔
ہمارے لذیذ اور اعلی اقسام کے آم پوری دنیا میں ہمارے لئے وجہ افتخار بھی ہیں اور آمدنی کا ذریعہ بھی، لہذا ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اس جانب فوری توجہ دیں اور تحقیق و توجہ کے ذریعے فوری اور ٹھوس اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والی آم کی فصلوں کو تباہی سے بچایا جاسکے۔