کوئٹہ : بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ سمیت 17 افراد کو ہفتے کے روز صبح پانچ بجے گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ کوئٹہ کے کمشنر کی جانب سے جاری بیان میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے خلاف ’متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی، سول ہسپتال پر حملے اور عوام کو پُر تشدد احتجاج پر اکسانے سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کرنے‘ کی تصدیق کی گئی ہے۔تاہم کمشنر کی جانب سے جاری اعلامیے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے گرفتار رہنماؤں کی شناخت اور تعداد نہیں بتائی گئی ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ انھیں اس وقت کہاں رکھا گیا ہے۔
خیال رہے کہ آج صبح بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت اِن متعدد لوگوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے جو سریاب روڈ پر دھرنا دے رہے تھے۔اس بارے میں کوئٹہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ ماہ رنگ بلوچ سمیت 17 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور انھیں ہدہ جیل منتقل کیا گیا ہے۔
کوئٹہ کے کمشنر کی جانب سے جاری اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’جمعے کو جعفر ایکسپریس کے ہلاک شدہ دہشت گردوں کے حق میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران پُرتشدد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔’بی وائے سی قائدین کے ساتھ موجود مسلح غنڈوں کی فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہوئے تاہم ان کی قیادت نے ان لاشوں کو ہسپتال سے اٹھا کر احتجاجی دھرنا دے دیا تاکہ ان لاشوں کا طبی معائنہ نہ ہو سکے۔‘
کمشنر کے پریس نوٹ کے مطابق ’سول حکام اور پولیس نے بی وائے سی کے رہنماؤں سے کہا کہ ان لاشوں کا طبی معائنہ مروجہ قوانین کے تحت ہونا قانونی طور پر ضروری ہے تاہم انھوں نے انکار کر دیا۔‘کمشنر کوئٹہ کے مطابق ’ہلاک ہونے والے تین افراد میں دو مزدور اور ایک افغان شہری شامل تھے جن کے ورثا نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس سے درخواست کی کہ ان کے پیاروں کی لاشیں بی وائے سی سے چھڑوا کر برآمد کروائی جائیں تاکہ وہ آخری رسومات ادا کر سکیں۔’جس کے بعد ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے واقعے میں ملوث بی وائے سی رہنمائوں کو گرفتار کر لیا۔‘
کوئٹہ میں موبائل فون سروسز 16 گھنٹے بعد بحال کی گئی ہے تاہم تاحال موبائل انٹرنیٹ کی بندش جاری ہے۔خیال رہے کہ گذشتہ روز بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کوئٹہ میں تین میتوں کے ساتھ دھرنا دیا تھا اور اس کا دعویٰ تھا کہ پولیس نے اس کے پُرامن احتجاج پر فائرنگ کی تھی۔ تاہم بلوچستان حکومت نے اس الزام کی تردید کی تھی۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا تھا اور ان کے خلاف ’قانون کے مطابق‘ کارروائی کی گئی تھی۔
سنیچر کو صبح سے ہی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بی وائے سی کے متعدد رہنماؤں اور کارکنوں کو پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا ہے۔پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بیبو بلوچ اور گلزادی بلوچ بھی شامل ہیں۔پولیس اہلکار نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر خواتین کو پہلے بجلی گھر تھانہ منتقل کیا گیا تھا تاہم دوپہر کے بعد ان کو تھانے سے ہدہ جیل منتقل کیا گیا۔پولیس اہلکار نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے جن تین افراد کے ہمراہ دھرنا دیا جا رہا تھا ان کی لاشوں کو ان کے رشتہ داروں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک روز پہلے سے سریاب روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی کے قریب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور مرنے والے افراد کی لاشیں لواحقین کے حوالے نہ کرنے اور شناخت کے لیے نہ لے جانے کے خلاف دھرنا دیا جا رہا تھا۔خیال رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر بلوچستان بھر میں آج شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔اس سے قبل سریاب روڈ پر دھرنے کے مقام سے ایک ویڈیو بیان میں ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت میں سریاب روڈ پر دھرنا جاری تھا کہ پولیس کی بھاری نفری نے آج صبح پانچ بجے کریک ڈاؤن کر کے ڈاکٹر ماہ رنگ اور متعدد لوگوں کو حراست میں لیا۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’پولیس کی مبینہ فائرنگ سے ہلاک ہونے والے تین افراد کی لاشیں بھی کریک ڈاؤن کرنے والے اہلکار اٹھا کر لے گئے۔‘
حکومت بلوچستان کے ترجمان اور پولیس حکام سے ڈاکٹر ماہ رنگ کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کے لیے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن موبائل فون نیٹ ورک کی بندش کے باعث ان سے رابطہ نہیں ہو سکا جبکہ سرکاری سطح پر بھی تاحال اس حوالے سے نہیں بتایا گیا۔جس علاقے میں ڈاکٹر ماہ رنگ کی قیادت میں دھرنے پر مبینہ کریک ڈاؤن کیا گیا وہ سریاب پولیس کی حدود میں آتا ہے۔
فیس بک کمینٹ