کیا آپ اسے گڈ گورننس کہتے ہیں جہاں کوئی شعبہ زندگی اپنے وضع کردہ قواعد و ضوابط کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے کام کر رہا ہو یا کوئی ایسا شعبہ جس کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے کہ یہ اپنے قواعد و ضوابط اور حدود و قیود کے اندر رہ کر فرائض سے عہدہ برآ ہو رہا ہے۔ تعلیمی شعبے کو لے لیجئے ، صحت کے شعبے کو دیکھ لیجئے ، قانون پر عملداری کے محکمے کو سامنے رکھیئے ، ریٹائرڈ معمر پنشنر کو لے لیجئے ، گیس اور بجلی کی فراہمی ، تقسیم اور ریونیو اکٹھا کرنے والوں کی کارکردگی سامنے رکھ لیجئے ، سب کا دھڑن تختہ ہے۔ ماضی قریب میں سرکاری محکموں میں چٹھیوں کا جواب دینے کا ایک طریقہ کار ہوا کرتا تھا ۔ کسی کو کوئی شکایت ہوتی ، وہ متعلقہ محکمے کے سربراہ کو درخواست بھیجتا اور وہاں سے جواب آ جاتا تھا ۔ لیکن اب یہ بھی نظام دم توڑ چکا ہے۔ اسلام آباد میں کم آمدنی والے افراد خاندانوں کیلئے وزیراعظم ہاؤسنگ سکیم کی حالت دیکھئے ، تعلیمی شعبے کو سامنے رکھئے ، دور نہیں جاتے ، زکریایونیورسٹی پر نظر ڈالتے ہیں جہاں آئے روز جعلی اور مسروقہ مقالوں کی بنیاد پر پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کی تقسیم کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ بی زیڈیو میں سرائیکی شعبے کی عدم فعالیت بھی اب ایک سوال بن کر رہ گئی ہے۔ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر اب ایک بھوت بنگلہ بن گیا ہے ، ایک ویرانی سی ویرانی ہے جو سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر پر چھائی ہوئی ہے ۔ ہزاروں کتب گرد و غبار کی نذر کر دی گئی ہیں ۔ سٹڈی سنٹر کو مکمل کمپیوٹرائز ڈ کرنے کا منصوبہ محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ سرائیکی شعبے کا سربراہ بننے کی دوڑ نے شعبے کو اس مقام تک آ پہنچایا ہے کہ وہاں سرائیکی تعلیم کے فروغ کے لئے کئے جانے والے تمام کے تمام اقدامات ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوششوں کی نذر ہو گئے ہیں ۔ کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ سنٹر کیلئے مستقل بنیادوں پر ڈائریکٹر کی تقرری کی الجھنوں سے نکل ہی نہیں پا رہی ۔ اس لئے وہاں کلاسوں کا اجراء خواب بن کر رہ گیا ہے۔
اعلان ہوتے رہے کہ ریسرچ جرنل باقاعدگی کے ساتھ شائع کیا جاتا رہے گا لیکن یہ اعلانات بھی سیاسی جماعتوں کے اعلانات کی طرح محض اعلان ہی ثابت ہوئے ۔ سرائیکی عجائب گھر اور لائبریری کو فعال کرنے کا عمل یونیورسٹی کی اندرونی سیاست کی نذر ہو کر رہ گیا ۔ ڈاکٹر مہر عبدالحق اور ممتاز سومرو کے نام سے منسوب لائبریری میں 14 ہزار کتب کا خزانہ اپنی کسمپرسی پر نوحہ خواں ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سرائیکی میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ و طالبات اسلام آباد اور اوپن یونیورسٹی سے ایم فل اور ڈاکٹریٹ کرنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں ، حالانکہ وسیب میں سرائیکی کے پی ایچ ڈی ماہرین سرائیکی میں تدریس کے لئے کافی تعداد میں دستیاب ہیں لیکن یونیورسٹی کی اندرونی سیاست نے پورے شعبے کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ اس طرح تاریخ ،ادب اور فنونِ لطیفہ کے بار ے میں ریسرچ کو فروغ دینے پر سرے سے کوئی توجہ ہی نہیں ۔ سرائیکی میں ڈاکٹریٹ کرنے والے ماہرین خدمات انجام دینے کے لئے بے چین ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کے چانسلر صاحب بھی وسیب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ گورنر پنجاب ہیں ، یہ محمد رفیق رجوانہ ہیں ، ان کی یہی شہرت ہے کہ وہ تعلیم کو عام کرنے کے بارے میں کافی صحت مند فکر کے مالک ہیں لیکن انہیں سرائیکی شعبے کی مایوس کن فعالیت سے لا علم رکھا گیا ہے ۔ حالانکہ ان کا تعلق ملتان ہی سے ہے ، یونیورسٹی اس طرح اپنی ساکھ بحال کر سکتی ہے کہ وہ سرائیکی شعبے کو فعال کرے ، حکومت سے فراہم کی گئی گرانٹوں کو استعمال میں لائے ، ہر بار گرانٹیں خرچ نہ ہونے کی وجہ سے واپس حکومت کے خزانوں میں جا پڑتی ہیں ۔ آخر کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
صورتحال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بی زیڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر وسیب سے تعلق رکھنے والے کو ہی بنایا جاتا تو سرائیکی شعبہ فعال ہو جاتا۔ اگر فعال نہیں کیاجاتا تو حکومت یہاں تعینات لاکھوں میں تنخواہیں وصول کرنے والوں کو دوسرے شعبوں میں منتقل کرنے سے کیوں ہچکچا رہی ہے ۔ تنخواہوں کا آخر یہی بدل ہوتا ہے کہ ان سے کام لیا جائے، سرائیکی شعبے کو فعال نہ کرنے میں حکومت کی عدم دلچسپی پر نہ صرف مہر لگ جائے گی بلکہ وسیب کی محرومیوں میں شدت کا اضافہ ہو گا۔ اگر حکومت سرائیکی شعبے کیلئے گرانٹیں فراہم کرتی ہے تو یہ گرانٹیں استعمال میں نہ لانے والوں کے خلاف کاروائی بھی کرے اور حالات کو بہتر بنائے ۔ یہی یونیورسٹی کی شان ہو گی اور اسی طرح حکومت کی ساکھ میں اضافہ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2011ء میں وزیراعظم نے بے گھر کم آمدن والوں کیلئے پرائم منسٹر ہاؤسنگ منصوبہ I-16/3 سیکٹر اسلام آباد میں شروع کیا تھا ۔ اس کے لئے بروشر چھاپے گئے تھے ، درخواستیں طلب کی گئی تھیں ، اس سکیم میں فلیٹ کی زیادہ سے زیادہ قیمت 13 لاکھ روپے رکھی گئی تھی ۔ پاکستان بھر سے لاکھوں بے گھروں نے فارم بھرے ، رکنیت کیلئے 25 ہزار روپے جمع کرائے ۔ مینوئل قرعہ اندازی میں فلیٹ جن کے نام نکلے ان سے ٹوکن منی 2 لاکھ 41 ہزار روپے پی ایچ اے نے اپنے اکاؤنٹ میں وصول کئے ۔ وزارت ہاؤسنگ کے زیر اہتمام کام کرنے والی پی ایچ اے اس سکیم پر 6 سال خاموش بیٹھی رہی ۔ پھر ایک روز ممبران کو لیٹر کے ذریعے آگاہ کیا گیا کہ فلیٹ کی قیمت 41 لاکھ سے زیادہ ہے ۔ ان پانچ برسوں میں مہنگائی اتنی نہیں بڑھی اور نہ ہی سیمنٹ ریٹ اور خشت کی قیمتیں بڑھی ہیں ۔ تعمیراتی مواد کی قیمتوں میں بھی اتنا اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی تنخواہیں چار چار گنا بڑھی ہیں ۔ شرمناک بات یہ ہے کہ پی ایچ اے نے موقع پر منصوبے کیلئے ایک خشت بھی نہیں رکھی ۔ پھر بھی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر کے مزید رقم طلب کی گئی ۔ ماضی میں حکومت اور اس کے ادارے لوگوں کی شکایت کا جواب ضرور دیتے تھے ، اب عالم یہ ہے کہ حکومتی ادارے اورمملکت کے بڑے ستون جواب دینا گوارا بھی نہیں کرتے ۔ صدر مملکت کی طرف سے آئے روز کرپشن کے خاتمے کیلئے بیانات آتے رہتے ہیں ۔ کیا یہ کام کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا؟ اس سلسلے میں قومی اسمبلی ، سینیٹ کی وزارت ہاؤسنگ کے بارے میں مجالس قائمہ کے چیئرمینوں ، سیکرٹری ہاؤسنگ اور صدر مملکت تک کو درخواستیں بھیجی گئیں لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں رہا ۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ پی ایچ اے کے پاس جمع کرائی گئی رقم سات برسوں میں کتنی بڑھ چکی ہو گی ، اب ڈائریکٹر معطل ہیں ، رقم واپسی کی پالیسی نہیں ہے۔ اس طرح لوگوں کی رقم PHA نے سات برسوں سے دبا رکھی ہے ۔ اس رقم سے حاصل ہونیوالا بھاری منافع خود استعمال کر رہی ہے اور بے گھر لوگوں کو مکان فراہم کرنے کا اعلان محض دھوکہ ہی ثابت ہوا۔ حکومت اپنی ساکھ بحال کرنے کیلئے حکام کو ہدایت کرے ، 6 برس پہلے PHAکی رکنیت حاصل کرنے اور ٹوکن رقم جمع کرانے والوں کو بمعہ منافع اور رکنیت کے 25 ہزار روپے بمعہ منافع واپس کئے جائیں ۔ نجی شعبہ بھی ایسی لوٹ مار نہیں کرتا جو حکومتی سطح پر کی گئی ہے۔ غریب لوگوں کو کم آمدن والے افراد جنہوں نے اپنی جمع پونجی پرائم منسٹر ہاؤسنگ پروگرام کیلئے جمع کرائی ان کے ساتھ حکومتی سطح پر کی جانیوالی زیادتی کا فوری ازالہ کیا جائے ۔ ملکی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں ، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مجالس قائمہ بھی اس پر توجہ نہیں دے رہیں ، افسوسناک صورتحال ہے کسی طرف سے کوئی جواب نہیں مل رہا ۔ وزیراعظم محمد نواز شریف سے استدعا ہے کہ وزیراعظم کم آمدن اور بے گھر لوگوں رہائشی سہولتیں فراہم کرنے کے پی ایم کے پروگرام میں رکنیت حاصل کرنے والوں کو رہائشی پلاٹ الاٹ کئے جائیں ۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو بے گھر اور کم آمدن والے لوگوں کو جمع کرائی گئی رقوم بمعہ منافع واپس کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیشنل پریس ٹرسٹ کو آئین پاکستان کا تحفظ حاصل ہے۔ حکومت نے کم از کم پنشن 6 ہزار روپے مقرر کی ہوئی ہے لیکن نیشنل پریس ٹرسٹ کے پنشنرز کو پنشن کی مد میں ہزار 15 سو روپے ماہوار پنشن دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں پنشنر ز کو 26 برسوں سے این پی ٹی انتظامیہ نے عدالتوں میں الجھایا ہوا ہے۔ NPT کے دو چیئرمین عدالت عالیہ میں یقین دہانی کرا کے اپنی گلہ خلاصی کرا چکے ہیں کہ قوانین کے مطابق مکمل پنشن دی جائے گی ۔ لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ۔ ان 26 برسوں میں انتظامیہ کیسوں کی پیروئی کیلئے TA/DA ، وکلاء کو فیسوں ، رہائش کے انتظامات ، سفر کے اخراجات کی مد میں بھاری رقوم خرچ کر چکی ہے۔ یہ رقوم اگر قوانین کے مطابق پنشن کی مد میں ادا کی جاتیں تو مسائل حل ہو چکے ہوتے ۔ پورے NPT کو کیسوں میں الجھانے والے شخص کا محاسبہ کیا جائے جو NPT اور NPT کے پنشنرز کو بھاری نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں ۔ وزارت اطلاعات کی کئی بار توجہ دلائی گئی لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف خود توجہ دیں ، پنشنرز کو حالات ، قوانین اور مہنگائی کے مطابق پنشن دلانے کے احکامات جاری کریں تاکہ NPT اور پنشنرز کو عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات سے نجات مل سکے اور NPT کے اربوں کے اثاثوں اور آمدن کا تحفظ ہو سکے ۔ یہی گڈ گورننس ہو گی ۔
فیس بک کمینٹ