آج ہی کا دن تھا اور سہ پہر پونے پانچ بجے کاوقت ۔ایمبسیڈر ہوٹل لاہور کے ایک کمرے میں مَیں تنہا ٹی وی دیکھتاتھا۔انتخابی سرگرمیاں آخری مراحل میں تھیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف دونوں راولپنڈی میں انتخابی مہم پرتھے۔شاکر حسین شاکر بھی اسی ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھے ۔وہ کچھ دیرپہلے ہی اردو بازار سے واپس آئے تھے اورمجھے یہ بتا کرگئے تھے کہ میرا ایک مہمان مجھے ملنے آرہاہے میں اس کے ساتھ کچھ دیر گفتگو کرلوں پھر تمہارے پاس واپس آتا ہوں۔اور میںوقت گزارنے کے لیے ٹی وی چینل گھمارہاتھا پھراچانک ٹی وی کی سکرین سرخ ہوگئی۔مجھے اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ سکرین بے نظیر بھٹو کے لہو سے سرخ ہوئی ہے۔پھربریکنگ نیوز کاشور مچا۔اطلاع ملی کہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف پر فائرنگ ہوگئی ہے۔دونوں واقعات الگ الگ مقامات پر ہوئے لیکن شہر ایک ہی تھا۔لیاقت باغ کے قریب بی بی کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ان کے زخمی ہونے کی خبریںآئیں اور رپورٹرز کی بھاگ ڈور شروع ہوگئی۔پھرکچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ آصف زرداری نے قوم سے دعا کی اپیل کی ہے۔اسلام آباد میں مقیم کچھ صحافی دوستوں سے رابطہ کیا مگر ان کے نمبر مصروف تھے۔آصف زرداری کی جانب سے دعا کی اپیل بتارہی تھی ۔۔۔۔لیکن دل یقین کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔کچھ ہی دیر بعد تصدیق ہوگئی کہ دعا کی اپیل لوگوں کو ذہنی طورپر تیارکرنے کے لئے کی گئی تھی۔ اور بریکنگ نیوز کی جس سلائیڈ سے ٹی وی سکرین سرخ ہوئی تھی وہ سرخی دراصل بے نظیر کے لہو کی تھی۔
ہم دنیا ٹی وی کے آغاز کے موقع پر اس کی ٹیم کا حصہ بننے کے لئے لاہور گئے تھے
۔ اصغر زیدی ،ارشد چوہدری بھی وہیں موجودتھے۔ملتان سے جب ہم لاہور روانہ ہوئے تو ہمیں گمان بھی نہیں تھا کہ ہم بے نظیر بھٹو کی شہادت کا لمحہ تنہا جھیلنے کے لئے لاہور جارہے ہیںبالکل اسی طرح جیسے اس واقعہ کے چند برس بعد بظاہرتو میں عمرہ کرنے کے لئے سعودی عرب گیاتھا لیکن وہاں جا کر معلوم ہواکہ میں عمرہ کرنے نہیں راشد نثار جعفری کی موت کا دکھ تنہا جھیلنے کے لیے دیارمقدس میں آیا ہوں۔کسی کی موت کا دکھ اپنے شہر میں اور اپنوں کے درمیان بیٹھ کر جھیلنا بھی کوئی آسان کام تو نہیں لیکن اتنا تو ہوتا ہے کہ ہمیں اپنوں کے درمیان آنسو بہانے کے لئے کوئی شانہ میسر آجاتا ہے۔ہم جب مل کر روتے ہیں تو ایک دوسرے کے حصے کے آنسو بھی بہا رہے ہوتے ہیں۔لیکن تنہا رونا یا رونے کی کوشش کرنا ایسا اذیت ناک عمل ہے جس کاتجربہ پہلی بار 27دسمبر2007ءکو ایمبسیڈر ہوٹل لاہور اور دوسری مرتبہ 24اپریل 2012ءکو مدینہ منورہ میں ہواتھا۔ایک سناٹا تھا جس نے ہم سب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ٹیلی فون مسلسل بجتا تھا اورہم خوف کے مارے اسے اٹینڈ نہیں کرتے تھے کہ جب بھی کوئی فون کال ریسیو کی دوسری جانب کوئی پیارا ،کوئی دوست دھاڑیں مارتا سنائی دیا۔سو ہمیں دور بیٹھ کر اسے پرسہ دینا ہوتاتھا اور اس کے ساتھ رونا ہوتاتھا۔سو ہم روتے رہے ۔آنکھیں مزید دھندلا گئیں۔ہچکی بندھ گئی۔ہمت اور حوصلہ جواب دے گیا۔پھرمعلوم ہوا کہ بلیک آﺅٹ ہوگیا ہے۔ہوٹل کی لائٹیں بند کردی گئیں۔باہرجلاﺅ گھیراﺅ شروع ہوگیاتھا۔ وہ دن کراچی اورسندھ کے مختلف شہروں میں بھی بہت دردناک تھا۔جلاﺅ گھیراﺅ ،اغوا ،لوٹ مارکے بے شمارواقعات رونما ہوئے لیکن ہم ایمبسیڈرہوٹل کے ایک کمرے میں بلیک آﺅٹ کی کیفیت میں ہرچیز سے بے خبر تھے۔کیا بنے گا پاکستان کا؟کیوں ہم اپنے لیڈروں کو اس طرح قتل کردیتے ہیں؟امید،یقین اور روشنی کو قتل کرتے ہیں۔کیوں کرتے ہیں ایسا؟اور اسی ہوٹل میں خیبر پختونخواہ سے آئے ہوئے محسود قبیلے کے کچھ لوگ قہقہے مارتے تھے۔وہ بھی اسی ٹی وی چینل کی ٹریننگ لینے آئے تھے۔اورجب ابتدائی طورپر یہ خبر آئی کہ اس واردات میں بیت اللہ محسود کاہاتھ ہے تو ان لوگوں نے ایک دوسرے کے گلے لگ کر فخر کے ساتھ کہا کہ مبارک ہو،ہم کامیاب ہوگئے۔یہ کیسے لوگ تھے جو کسی کے قتل پر جشن مناتے تھے۔جو کسی کی موت پر رقصاں تھے۔اورہم کیسے لوگ ہیں جو بے بسی کے عالم میں ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ہم میں سے جوبھی طیش میں آکر انہیں جواب دینے کی کوشش کرتاباقی سب اسے روک دیتے۔پاگل ہیں یہ لوگ۔تم تو پاگل نہ بنو۔اور ذہن میں بے شمار منظر تھے۔بے شمارواقعات تھے۔بھٹو صاحب کی پھانسی کادن 4اپریل 1979ء،محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کادن 10اپریل 1986ء،بے شمارجلسے،بے شمارجلوس اور ان جلوسوں میں لگائے جانے والا نعرہ ”بھٹو ہم شرمندہ ہیں۔۔تیرے قاتل زندہ ہیں“ ۔یہ نعرہ لگاتے لگاتے کئی لوگ رخصت ہوگئے۔کئی لوگ قتل ہو گئے۔مگر قاتلوں کوکچھ نہ ہوا۔ہم میں سے بہت سے لو گ مارے گئے اور ہم بھی مارے جائیں گے۔مگر قاتل آج بھی زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گے۔”بھٹو ہم شرمندہ ہیں“ کانعرہ گزشتہ 9برس کے دوران ”بی بی ہم شرمندہ ہیں “ میں تبدیل ہوچکاہے۔بارہا بی بی کے قاتلوں کو تلاش کرنے کی بات ہوئی ۔بارہا پیپلزپارٹی نے دعویٰ کیا کہ بی بی کے قاتلوں کاکھوج لگایا جائے گا۔لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔جیسے بی بی نے بھٹو کے قاتلوں سے سمجھوتہ کرلیاتھا۔ان سب کو اپنے ساتھ اقتدار میں شریک کرلیاتھا۔انہیں وزارتیں اورگورنریاں عطا کی تھیںاورضیاءکی باقیات پیپلزپارٹی کے شانہ بشانہ چلتی رہی تھی۔پھربھٹو ہم شرمندہ ہیں کانعرہ شوروغل میں دب کررہ گیا۔اقتدار کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔سیاستدانوں کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔بندوق کی اپنی زبان ہوتی ہے۔سو بندوق کے سامنے کوئی آواز بلند نہیں کی جاسکتی ۔بندوق سے کوئی حساب نہیں لیا جاسکتا کہ آواز بلند ہو تو خاموش کرادی جاتی ہے۔زندہ رہنے کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی بندوق سے سمجھوتہ کیاگیا۔اور پھر جیسے بی بی کو اپنے والد کے قاتلوں سے سمجھوتہ کرنا پڑا تھا بالکل اسی طرح آصف زرداری کوبھی قاتل لیگ کے ساتھ سمجھوتہ کرناپڑا۔بی بی ہم شرمندہ ہیں کانعرہ بھی اب ماضی کاحصہ بنتا جارہاہے۔اورشاید آئندہ چند برسوں کے دوران ہم یہ نعرہ بھی بھول جائیں جیسے ہم” بھٹو ہم شرمندہ ہیں“ کا نعرہ کم وبیش بھلا چکے ہیں کہ آنے والے برسوں کے دوران شاید ہمارے لیے شرمندگی کا کوئی نیا سامان مہیا کردیا جائے گا۔بندوق کے ساتھ کون مقابلہ کرسکتا ہے۔بندوق سے کون حساب لے سکتا ہے۔بس ہم شرمندہ رہنے کے لئے اس جہان میں ا ٓئے۔اور ہماری آنے والی نسلیں بھی شرمندہ ہی رہیں گی۔
فیس بک کمینٹ