ملتان کی مشہور علمی ادبی تنظیم ” شامِ دوستاں آباد “ کے زیر اہتمام ” ہیپی برتھ ڈے “ کی تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی ۔ تنظیم کے روح رواں جناب طارق عمر چوہدری اور جناب طارق قادری کی رفاقت نے تنظیم میں رنگ بھر دیئے ۔ 8 جنوری کو ہونے والی تقریب میں ماہرین تعلیم جناب حنیف چوہدری ، ڈاکٹر مختار ظفر ، مشہور کالم نگار شاکر حسین شاکر ،دانشور زاہد حسین گردیزی ، ملتان کے روشن ستارے عامر شہزاد صدیقی ، محترمہ یاسمین خاکوانی ، ہاشم خان ، معروف سماجی رہنما افتخار مغل، معززین اور ماہرین نے شرکت کی ۔ اس تقریب میں پڑھا جانے والا مقالہ پیش خدمت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق عمر چودھری صاحب نے فون پر ارشاد فرمایا آپ سے بات کرنی ہے۔ میں نے عرض کیا 6 بجے ٹی ہاﺅس آجاﺅں گا۔ فرمایا کہ 8 جنوری کو آپ کی سالگرہ ہے تقریب کرنی ہے۔ عرض کیا میں ان معاملوں پر یقین نہیں رکھتا۔ بولے مکالمہ ہو جائے گا۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میں تو اَمرِ ربی ہوں اور اَمرِ ربی کی نہ ہی پیدائش ہے اور نہ ہی موت‘ اسی یقین پر میں بولا تھا کہ میں ایسی تقریب میں نہ شرکت کرتا ہوں نہ ہی مناتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میں تو ہر زمانے میں موجود ہوں اور ہر زمانے میں موجود رہوں گا۔ اس لئے میرے نزدیک سالگرہ تقریب اضاقت ہے۔ چودھری صاحب بولے آپ کی کہانی ہے جو زندگانی ہے اس پر بات ہو سکتی ہے، میں سوچتا رہ گیا ہر شخص کی ایک ہی کہانی ہے، حروف ابجد کے گنے چنے الفاظ میں یہ محض عربی، فارسی، سرائیکی ہی نہیں دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے حروف ابجد ایسے ہی ہیں اُن میں سے گنے چنے لفظوں سے آپ اپنی کہانی بنا لیتے ہیں اور اپنی مرضی کا اظہار کر دیتے ہیں۔
دنیا میں حرکت پذیر تمام اشیاءکی رفتار کیلئے پیمانے مقرر ہیں لیکن خیال کی رفتار کا کوئی پیمانہ نہیں ہے خیال ،خیال کی ہی رفتار سے آتے ہیں جب سفر خیال کی رفتار پر ٹھہرتا ہے تو پردے ہٹ جاتے ہیں پہرہ اُٹھ جاتا ہے اور خیال کی کیا رفتار ہو گی اس کا کوئی اندازہ اور قیاس نہیں ہے آپ بیٹھے بیٹھے خیال کی رفتار پر سوار سورج کے عقب میں پہنچ سکتے ہیں اور آگے بھی جا سکتے ہیں۔ یہی الفاظ ہیں جن سے سچ اور جھوٹ کے بت تراشے جاتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ تسلسل کی تقسیم ہے۔ جھوٹ کا وجود ہی سرے سے نہیں ہے جس کو بقاء حاصل ہے وہی سچ ہے۔ یہاں بھی ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بقاء کس کو کہتے ہیں؟ خیال سے خیال جنم لیتا ہے شاخ سے شاخیں پھوٹتی چلی جاتی ہیں۔ کسی معاملے کا کوئی انت نہیں کوئی اختتام نہیں۔ زندگی کا بھی کوئی اختتام نہیں، مذہبی حدود و قیود نے مجھے پابند کیا ہو اہے کہ میں یہ نہ کہوں کہ سب کچھ سچ ہے اگر میں ان پابندیوں سے پہلو تہی کروں تو یہ ضرور کہوں گا کہ امرِ ربی تو وجود خالق کائنات کا جزو ہے۔ جب اس کا کوئی انت نہیں تو اس کی تخلیق کا بھی کوئی انت نہیں ہو سکتا۔
وقت اپنی اشکال خود ہی بدلتا رہتا ہے، رب کے بھی کئی لا تعداد اظہاریئے ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں، یہ فرد کی سوچ اور مشاہدات پر منحصر ہے وہ کسے صادق جانتا ہے، اس جملے میں بھی کئی مفاہیم پوشیدہ ہیں کیونکہ ہمارا وجود رب کا ایک جزو ہے جزو کبھی بھی مکمل نہیں ہوتا اس لئے ہم اپنی حیثیت میں مکمل نہیں ہیں۔ اس اظہاریئے میں بھی کئی وضاحت طلب معاملات پنہاں ہیں، فکرو نظر کے تمام ندی نالے ، نہریں ایک ہی سرچشمہ سے نکلتی ہیں۔ ان سب کی منزل بھی ایک ہی ہے۔ وہ سرچشمہ امر ہے، امر ربی روح ہے جو گزشتہ زندگی سے آنے والی زندگی میں انسان کو اس کی منزل تک پہنچانے کیلئے رہنمائی کا کام کرتی ہے۔ منزل تک پہنچنے کیلئے شرط اول یہی ہے کہ یقین اور امید سے لبریز ہونا چاہئے۔ یقین ایک طاقت بے مثال ہے۔ یہاں پوچھا جا سکتا ہے کہ منزل ہے کیا اور کہاں ہے؟ جب ہمیں معلوم ہی نہیں کہ منزل ہے کیا اور کہاں ہے؟ تو اس کے حصول کیلئے آپ کے من میں خوشی کے پودے کو نمو ملنی چاہئے۔ خوشی اور غمی کے پودے آپ کے اندر ہی اُگتے ہیں۔ اسی یقین کی کوکھ سے ہی آپ کے من میں خوشی اور غمی کے بیج جنم لیتے ہیں اور یہی بیج آپ کے اندر خیالات کی نئی نئی بہاریں لاتے ہیں۔
روح آپ کی رہنمائی کرتی ہے۔ ہر انسان کی روحانی اور جسمانی بالیدگی کے ایک ہی اصول ہیں جیسے زمانے کے اپنے اپنے اصول نہیں ہوتے بلکہ زمانے کا ایک ہی اصول ہے جو میں سمجھا ہوں کہ جب ہم زمانوں کی بات کرتے ہیں تو ہم مغالطے کا شکار ہوتے ہیں۔ ارے بابا! وقت تو مسلسل ہے ، وقت کی جڑت ہمیش ہے اور یہ ایک تسلسل ہے جب وقت ٹوٹے گا تو ہم سب کیا سب کچھ ایک ہو جائے گا۔ ہم اس وجود کے ساتھ جڑ جائیں گے جس وجود سے ہم رہنمائی کے طلبگار رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسانی اظہار کیلئے زبان ناکافی ہے۔ آپ اپنے من میں پرورش پانے والے خیالات محسوسات کا کسی طور بھی اُسی طرح اظہار نہیں کر پاتے جب تک آپ لاتعداد جزویات کو اپنے خیالات کے اظہار میں جگہ نہیں دے پاتے۔ کیونکہ زبان ایک ہے حواسِ خمسہ چھ سے زیادہ ہیں تو ایک زبان ان سب کو اس کی جزئیات کے ساتھ اظہار نہیں کر پاتی اس لئے میں جو کچھ عرض کرنے کی کوشش کررہا ہوں وہ میرے اظہار کا من و عن نہیں ہے بس نکات اور اشارے ہیں آپ کو حق حاصل ہے کہ آپ اسے لغو کہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کچھ بھی لغو نہیں ہوتااس لئے اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
غمی خوشی، دکھ، حادثات سب کے سب اظہارِ فطرت ہے ۔ جب آپ غمگین ہوتے ہیں سمجھ لیں کہ آپ وہ کچھ نہیں سمجھ رہے ہوتے جو آپ کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہوتی ہے، اگر آپ خوش ہوتے ہیں تو سمجھ لیں آپ نے اپنے من کی مراد پا لی اور کائناتی لمحاتی اشاروں پر فتح پا لی۔ میں بنیادی طور پر جاندار ہوں ، میں ان سب احساسات کو یعنی خوشی، غمی کو زندگی کے نغمے سمجھتا ہوں کیونکہ زندگی زمانے کا جزو ہے، زمانہ مسلسل ہے اگر اس میں کہیں وقفہ آتا ہے ، سُر ٹوٹتا ہے یا زمانے کا تسلسل ٹوٹتا ہے تو جڑے ہوئے آنے والا وقت گزشتہ زمانوں کی نکیل تھام لیتا ہے اور یہ تسلسل اس طرح برقرار رہتا ہے، اشیاءکی شکلیں تبدیل ہو جاتی ہیں ان کو بھی کبھی زوال نہیں آتا یہ بھی زمانے کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہ بھی اپنی شکلیں بدلتا رہتا ہے جیسے زندگی کے بے شمار رنگ و روپ ہیں اسی طرح ہمارے احاطے احساس میں آنے والی ہر چیز کے کئی رنگ و روپ ہیں۔
میں یہ سمجھتا ہوں اظہار کیلئے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ ہمارے اندرونی جذبات کے اظہار سے معذور ہے جو کچھ بھی کہنا چاہتے ہیں وہ نہیں کہہ پاتے۔ اظہار کے عدم ابلاغ کی یہی وجہ ہے یہی نقطہ ہے جہاں اختلاف جنم لیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں زندگی کو ریزہ ریزہ کرنے کی سعی کی جاتی ہے پھر ہم آپ سچ جھوٹ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کائنات کیا کائناتوں سے جڑے اجسام ایک نا مکمل زندگی اور بھرپور زندگی ہے۔ ان میں ایک زندگی میری ہے ایسے ہی ایک زندگی آپ کی ہے، ہر ایک زندگی کی اپنی کہانی اور اپنی زندگانی ہے۔
بس یہی ہے میری کہانی
بس یہی ہے میری زندگانی
فیس بک کمینٹ