میں نے گھڑی پلٹا کے میز پر رکھ دی ہے۔ یہی بہتر تھا۔ ہر دم آگے بڑھتی ہوئی سوئیاں کل شام سے مجھے ٹہوکے دے رہی تھیں۔ پرسوں ایک طویل سفر درپیش ہے۔ اِدھر سے ایک لمحے کی مہلت نہیں ملی کہ کچھ زادِ راہ کا اہتمام کرتا۔ شاید ڈیڑھ سال پہلے میں نے آپ سے کہا تھا کہ مجھے چند دن کے لیے چھٹی دے دیجیے۔ برسوں سے میں نے اماں کو اور انہوں نے مجھے نہیں دیکھا ہے۔ خط لکھتی ہیں، کیا تیرا خون سفید ہوگیا، تیرے دیدے پتھر ہوگئے، ہر خط میں ایک بہانہ کرتا ہے، اس مہینے آ رہا ہوں۔ اس ہفتے بس طے ہے۔ ڈیڑھ سال تو بہ قول ان کے میں نے بہانہ سازی میں کاٹ دیا۔ میں انہیں کیا سمجھاتا، کیوں بار بار لکھتی ہو اور کلپتی ہو۔ تمہارا بیٹا سودائی ہوگیا ہے۔ رشتے ناتوں سے اب اسے کوئی علاقہ نہیں۔ سمجھ لو، تمھارے لیے وہ مر گیا۔ مر جاتا تو کیا کر لیتیں۔ سوچتا تھا، جاؤں گا تو کچھ اور وقت ہاتھ سے نکل جائے گا، مگر آخر پروانہ راہداری نصیب ہو ہی گیا۔ بیس کو پروگرام تھا، پھر پچیس ہوئی، پھر یکم ٹھہری، اب سات کو ارادہ ہے۔ تمام مرحلے نمٹ چکے ہیں۔ اب آپ کے سامنے آنے کی یہ نازکی ہے کہ رگوں میں ایک فشار برپا کیے ہوئے ہے۔ ہزاروں لفظ لکھنے کا حوصلہ ہے، پر جب اس مرحلے کا وقت آتا ہے تو قلم میں سنسناہٹ سی ہونے لگتی ہے۔ کئی بار کی طرح اس بار بھی یہی جی میں آیا کہ کاغذ سفید ہی رہنے دوں، زبان کھولنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ خامشی بھی ایک مدعا ہے۔ نہ آپ سوال کریں، نہ میں جواب دوں، آپ کے سوال کا جواب سب رنگ ہے۔ میرے پاس اس سے بڑی سفارش کوئی نہیں ہے۔
قلم سنبھالے دیر تک بیٹھا رہا اور جی امڈتا رہا۔ اتنا ہجوم کہ سمیٹے نہیں سمٹتا تھا۔ کبھی وقت ملا تو ایک بار سارے صفحوں پر اپنی ذات کا یہ احوال ہی لکھوں گا، کچھ اور نہیں۔ یہ بھی کوئی کم کہانی نہیں، ایک خوں رنگ سرگزشت ہے۔ ہر دفعہ سوچتا کچھ ہوں، لکھ کچھ جاتا ہوں۔ دل میں ٹھانی تھی کہ اس مرتبہ اپنا وتیرہ بدلیں گے۔ شکایت کرنے کا حق صرف آپ کو نہیں، اسی نسبت سے کچھ مجھے بھی ہے۔ بتائیے کیا آپ نے اس سے بڑا کوئی کرب محسوس کیا ہے کہ آپ کی فگار انگلیاں اور سوختہ سینہ کسی ایسے چارہ ساز کی مشق کا ہدف بنے جو ہاتھ میں ایک نسخہ تھما دے کہ صبح و شام یہ مرہم استعمال کیا کرو اور روغنِ قاز کی مالش کیا کرو۔ رات میں کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ رہا تھا۔ گیارہ بجے کا عمل ہوگا۔ ناگہاں ایک فون آیا۔ وہی سوال، جواب مجھے ازبر تھے۔ شکوہ کناں نے مجھے شرمندہ کیا، ناحق میری باتوں سے خود بھی آزردہ ہوا۔ مشورہ دیا کہ ساتھی کیوں نہیں بڑھاتے۔ میں نے کہا، عزیز از جاں، تمھی کسی کی رہبری کر دو، اس خرابے کے در سبھی بلاکشوں کے لیے کھلے ہیں، کس نے دروازے پر پاسبان بٹھایا ہے، کون راستہ روکے کھڑا ہے، جس کے سر میں سودا سمائے دیوانہ وار آئے۔ یہ جہانِ بےخبراں ہے، آکے ہم خود گزیدگاں کے ساتھ بے خبرانہ رقص کرے، شعلہ و شانہ رقص کرے۔ آدمی بہت ملتے ہیں، پر خالی ہاتھ اور گریباں سلامت۔ شرط تو صرف دیوانگی کی ہے۔ ایک آئینہ میرے نہاں خانے میں بھی تو ہے۔ کیا میں اس میں اپنی صورت نہیں دیکھتا! کیا میری سماعت میری آواز سے بے بہرہ ہے! سوال میں خود سے بھی کرتا رہوں گا کہ اے بے ہنر! آخر کیا سبب ہے، تیری بساط تمام ہوئی یا تیری نگاہ ایک ذرا سے اعتبار کا ظرف نہ سہہ سکی؟ اب رات دن کی تمیز آ گئی ہے کیا؟ یہ بچھڑے وقت کے راگ کہاں لے بیٹھا۔ ابھی تک ہاتھ میں تیشہ لیے ہوئے ہے، کمپیوٹر رکھ، کیلکولیٹر سنبھال… عاشقی کا مدعی ہے مگر کون سی عدالت میں! خیال و خواب کا جادو جگانے پر کس کے لیے بہ ضد ہے۔ اے غافل! گھڑیال منادی دے رہا ہے، ایک ساعت اور بیت گئی۔ خواب دیکھنے کی مشین ایجاد ہوا چاہتی ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ آگے جا کے عاشقی کا بھی کوئی آلہ تخلیق ہو۔ زمین دیکھ کے چل، ہر سو پیمانوں کی بھرمار ہے۔ دنیا اعداد و شمار کی ہے، کسے فرصت ہے کہ تیری جان پر موسم کیسے گزرتے ہیں۔ تیرا سچ تسلیم مگر کسے کچھ ٹھہرنے کا یارا ہے، نئے عہد کا فن یہ ہے کہ آدمی نے انتظار پر قابو پا لیا ہے۔ ایک دن ایسا آئے گا کہ سارے انتظار ختم ہو جائیں گے۔ آدمی کی رسائی آسمان تک ہے۔ سوچنے اور اشارہ کرنے کی دیر ہوگی کہ ہر پردہ چاک ہو جایا کرے گا۔ آدمی کی سب سے بڑی میزان وہ خود ہے۔ کیا میں خود سے شکایت نہیں کرتا ہوں گا! لیکن میرا زمانہ شناس ہم زاد مجھے قائل نہیں کر پاتا۔ اس کا کہا بھی سچ ہے۔ پر میرا کہا اس سے بڑا سچ ہے۔ اس دل کو کہاں رکھ کے آئیں۔ یہ بہت وحشی ہے۔ ہم اپنے سچن کے ساتھ رہیں گے، اپنے وجود کے ساتھ۔ ہمارا وجود جو عناصر کا آمیزہ ہے اور اس کا تو نے کھوج لگا لیا ہے لیکن اس کے ماسوا جو ایک چیز ہے، وہ تیری دید و دریافت سے باہر ہے، وہ ابدی ہے۔ دیکھ تیری کھٹ پٹ کھڑ کھڑ کی دنیا میں ہم نے اپنی خُو نہیں چھوڑی۔ ہماری وضع کا تماشا تیرے سامنے ہے۔ تیرے کہنے سے سکوں کی گنتی میں اضافہ ہو جائےگا لیکن پھر ہم کہاں رہیں گے۔ متاع جان تمام سکوں سے قیمتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ تیری متاعِ جاں کا بدل چند سکے ہیں۔ اتنا تو لوگ ایک پہر میں دھویں میں اڑا دیتے ہیں۔ بے شک چند سکے ہیں، پر وہ ایک خزانہ جو ہمارے سینے میں چھپا ہے، لوگ اپنے پیار کے سکوں سے جسے بھرتے رہتے ہیں! ہم نے اس نسرین و ناز آفریں کو کمایا ہے جس کی آواز دھڑکتی، لفظ بہکتے ہیں۔ یہاں کون کسی کی خبر رکھتا ہے۔ ایک وہ ہے کہ سمندر پار سے روز ایک نامہ بھیجتی ہے۔ نہ ہم نے اس کا چہرہ دیکھا ہے، نہ اس نے ہمارا۔ ہمارے پاس اس متاعِ جاں کے سوا کیا تھا جو اس کی نذر کرتے اور ہم اسے پہلے ہی تقسیم کر چکے تھے لیکن اسے بدل میں کچھ درکار بھی نہیں۔ صرف حرفِ آشنا ہی اس کے لیے بہت ہے۔
سب رنگ ایک موڈ ہے، ایک لہر، ایک موج ہے… اٹھے اٹھے، نہ اٹھے نہ اٹھے، سمندر کو چاندنی ڈسے گی تب ہی ہلچل مچے گی۔ سب رنگ ایک فرد ہے، ایک آدمی۔ آدمی کے عالم ہوتے ہیں، سب رنگ کے بھی عالم ہیں۔ یہ بلائے جاں تو دَم کے ساتھ ہے۔ میرا دم چلا تو یہ بھی چلا، میرا دم قابو میں ہے تو یہ بھی قابو میں ہے۔ شاید یہ کبھی ادارہ نہ بنے۔ اس کی عمر اتنی ہی ہے جتنی میری اور میری عمر…!
یہ شمارہ تقریباً بیس دن قبل آپ کے پاس ہونا چاہیے تھا لیکن اُدھر انعام راجا کی چھوٹی بہن بیمار ہوئی اور وہ لکیریں تخلیق نہ کر سکا، اِدھر پریس کا بیئرنگ ناکارہ ہوا۔ بیئرنگ کی درآمد بند ہے، سالم مشین کی اجازت ہے۔ نئے پریس کی دوڑ دھوپ میں کچھ وقت نکلا، باقی تمام اس خسروِ شیریں دَہَناں، شاہ ِشمشاد قداں کی زلفیں تراشنے میں۔ بہرحال پہلے کی نسبت رفتارمیں چستی ہے، دو چار پھیروں میں اور حجاب دور ہو جائے گا۔ امبر بیل کا غم سبھی کو ہے۔ آیندہ شمارے سے یہ سلسلہ بھی جاری ہو جائے گا۔
میں مسودے، قلم، کاغذ ساتھ لیے جا رہا ہوں اور سب سے بڑھ کر خواب و خیال۔ کچھ دنوں میرا چہرہ اماں کے سامنے رہے گا، انہیں قرار آ جائے گا۔ میں ان کے سامنے ہی رہوں گا اور چپکے چپکے اپنا کام کرتا رہوں گا ۔ اماں کو میں نے پہلے سے خبردار کر دیا ہے کہ ہفتے ڈیڑھ ہفتے تک میری دید کے عیش کر لو، پھر میں کہاں! اپنی ذات کا دریچہ بند کرتا ہوں۔ چلیں سب بھول کے اس رنگ زار، لالہ زار کی سیر کریں۔ پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم بادو باراں ہے، خاطر جمع رہے، میرے غیاب میں یہ تو موجود رہے گا، میرا سایہ۔
(سب رنگ ڈائجسٹ ۔ جولائی 1978 ء)
ہ