اچھا تو نہیں لگتا یہ کہنا کہ ’’یہ تو ہونا ہی تھا‘‘ مگر ہم ایک عرصے سے شدت پسندی اور سیاسی مخاصمت کے جو بیج بوتے چلے آ رہے ہیں ایک دن ان کی فصل بہرحال پکنا تھی۔ اور وہ پک گئی۔ اور یہی نتیجہ سامنے آنا تھا جو اب نظر آ رہا ہے۔ جامعہ نعیمیہ میں میاں نواز شریف پر جو تا پھینکا گیا۔ اس سے پہلے خواجہ آصف اور احسن اقبال کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جا چکا ہے۔ کہتے ہیں فیصل آباد میں بھی کوئی آدمی عمران خاں پر ہاتھ اٹھا رہا تھا مگر پکڑا گیا۔ اب ہماری تمام جماعتیں اور تمام افراد اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ بلاشبہ یہ انتہائی مذمت کی بات ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچئے کہ یہ آپ کا اپنا ہی کیا دھرا تو ہے۔ جب آپ کے لیڈر بھرے جلسوں میں بدزبانی کریں گے اور ایک دوسرے کو مرنے مارنے کی دھمکیاں دیں گے تو اس کے بعد ان کے ماننے والے کیا سچ مچ یہ حرکت نہیں کریں گے؟ کسی کی مو نچھیں پکڑ کر اسے جیل میں ڈالنے کی دھمکی، یا خبردار ہماری حکومت آئی تو تمہاری خیر نہیں ہے، تمہیں وہ مزہ چکھائیں گے کہ تمہاری نسلیں یاد رکھیں گی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ پھر ان لیڈروں کے متوالے سوشل میڈیا پر جو زبان استعمال کرتے ہیں، بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو گندی گالیاں دیتے ہیں اس کے بعد کوئی کیسے یہ توقع کر سکتا ہے کہ اس کے بعد جوتے بھی چلنا نہیں شروع ہو جائیں گے۔ چلئے، یہ تو ہمارے سیاسی رہنما ہیں۔ ان کے بارے میں تو کہا جا سکتا ہے کہ ان کا اخلاق و آداب سے کوئی واسطہ نہیں ہے لیکن فیض آباد کے دھرنے میں ہمارے ایک دینی رہنمانے جو گالیاں دیں، اور جس طرح انہوں نے لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انتہائی خطرناک اور خوفناک بات یہ ہے کہ آپ سیاسی لیڈروں کو برا بھلا کہہ کر ان کا منہ تو بند کر سکتے ہیں، لیکن فیض آباد والے رہنماؤں کو آپ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ان کے پاس اس ہجوم کی طاقت ہے جو کسی دلیل یا کسی منطق کو نہیں مانتا۔ اور آپ جانتے ہیں کہ یہ طاقت انہیں ایک دن میں نہیں ملی۔ آپ اپنی تاریخ پر نظر ڈال لیجئے، یہ طاقت اور قوت بتدریج انہیں فراہم کی گئی ہے۔ آپ اگر سلمان تاثیر کے واقعے کو بھول بھی جائیں تو ذرا کل کے واقعے پر ہی غور کر لیجئے۔ ذرا سوچئے، نواز شریف پر جوتا پھینکنے والے جب حوالات میں لے جائے گئے تو انہیں موبائل فون کس نے فراہم کئے؟ ہم حوالات کی سلاخوں کے پیچھے انہیں فون پر بات کرتے دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر ہمارے منہ پر جوتے نہیں مارے جائیں گے تو اور کیا ہو گا۔
اب آ جایئے سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کی طرف۔ معلوم ہوا کہ اپنے دماغ سے سوچنے والا اور بلا روک ٹوک سچی بات کہنے والا آدمی ہمیں پسند نہیں آتا۔ رضا ربانی ایسا ہی آدمی تو ہے۔ اس نے سینیٹ کو جس تدبر اور جس سیاسی بصیرت کے ساتھ چلایا وہ ہماری پارلیمانی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ اب یہ کہنا کہ انہوں نے نواز شریف کے ساتھ نرمی برتی، اپنا اور اپنی پارٹی کا مذاق اڑانا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے رضا ربانی نے کیا کیا؟ وہ تو سب کے سامنے ہے۔ لیکن اسی رضا ربانی نے سینیٹر بننے کے بعد 2014 میں کسانوں، محنت کشوں، ہنرمندوں، فن کاروں، دکان داروں، کلرکوں، طالب علموں، استادوں، دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں، سیاسی کارکنوں، نوجوانوں، پیشہ وروں اور مردوں اور عورتوں کے نام جو کھلا خط لکھا تھا آپ اسے پڑھ لیجئے۔ یہ پانچ چھ صفحے کا خط ایک ایسا سیاسی کارکن ہی لکھ سکتا ہے جو اپنے دماغ سے سوچتا ہے۔ اور اپنے دل میں اپنے وطن اور وطن والوں کا درد رکھتا ہے۔ یہ خط نہیں ایک دستاویز ہے جس میں پاکستان کی سیاسی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اور موجودہ انتشار سے نکلنے کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ اور یہ جو کہا جا رہا ہے کہ آصف زرداری نے کسی خاص وجہ سے رضا ربانی کی حمایت نہیں کی تو اسی خط میں رضا ربانی نے سول ملٹری تعلقات کے لئے بھی ایک صاف ستھرا راستہ دکھایا ہے۔ اگر ہمارے پاس جگہ ہوتی تو ہم وہ پورا خط یہاں پیش کر دیتے لیکن ہمیں یہاں کچھ اور باتیں بھی کرنا ہیں، کہ ہفتے میں ہمیں ایک بار ہی بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔ رضا ربانی کا یہ خط آپ کو سینیٹ کے دفتر سے مل سکتا ہے۔ اور ہاں، ہم فرحت اللہ بابر کو کیوں بھولے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے آخری اجلاس میں جو باتیں کی ہیں انہی باتوں پر تو مرحوم پیپلز پارٹی کبھی فخر کیا کرتی تھی۔ مرحوم ہم نے یہ جتانے کے لئے لکھا ہے کہ صرف پس ماندہ طبقے کی ایک خاتون کو سینیٹر بنا دینے سے اس پارٹی کا ماضی واپس نہیں آ سکتا۔
کیا کوئی ہمیں بتا سکتا ہے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے کیا جرم کیا ہے کہ ہم وہ نہیں دیکھ سکتے جو دیکھنا چاہتے ہیں؟ وہ نہیں سن سکتے جو سننا چاہتے ہیں؟ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم لاہور کے ڈیفنس میں رہتے ہیں؟ کیا ڈیفنس یا چھاؤنی کے علاقوں میں رہنے والوں کے حقوق دوسرے علاقوں کے رہنے والوں کے حقوق کے برابر نہیں ہیں؟ کیا ہم ان سے اتنے کم تر ہیں کہ ہمیں بنیادی انسانی حقوق سے ہی محروم کیا جا رہا ہے؟ پچھلے کئی ہفتے سے ہمارے علاقے میں جیو نیوز نہیں آ رہا ہے۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ شاید کوئی فنی خرابی ہو گئی ہو گی کہ ایسی خرابیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ کئی دن جب اس چینل پر اندھیرا چھایا رہا تو سوچا کہ کہیں سے کوئی آواز اٹھے گی اور کوئی احتجاج کرے گا۔ جب کہیں سے بھی آواز نہیں اٹھی تو ہم پریشان ہوئے۔ اصل میں ہم احتجاج وحتجاج سے دور ہی رہنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ اس لئے اب تک یہی انتظار کرتے رہے کہ شاید آج اس چینل کا اندھیرا دور ہو جائے، کل دور ہو جائے۔ آخر جب وہ اندھیرا اسی طرح ہمارا منہ چڑاتا رہا، اور ہمارے ٹیلی وژن پر کھڑی تاریکی کی دیوار اسی طرح ہمیں ٹکریں مارنے پر مجبور کرتی رہی تو گھبرا کر آج ہم یہ چند سطریں لکھ رہے ہیں۔ دیوار سے ہمیں ظفر اقبال کی تازہ ترین اور گرما گرم غزل کایہ شعر یاد آ رہا ہے
سمجھا ہے تو کتنا بے اندازہ سمجھا ہے
میں دیوار تھا اور اس نے دروازہ سمجھا ہے
اس شعر نے ہمیں سمجھایا کہ ہم جسے جیو چینل کی کالی سیاہ دیوار سمجھ رہے ہیں وہ دراصل دروازہ ہے۔ یہ دروازہ ہمیں وہ راستہ دکھاتا ہے جو کسی اور ہی سمت نکل جاتا ہے۔ ہمارے’’مربی‘‘ ہمیں یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ
راستے بند ہیں سب کو چۂ قاتل کے سوا
چھائونی کے علاقے میں روزنامہ جنگ کا انگریزی اخبار ’’ دی نیوز’’ بھی تقسیم نہیں ہو رہا ہے۔ اس سے زیادہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
(بشکریہ : روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ