ایک تھا چڑا‘ ایک تھی چڑیا۔ دونوں کی شادی ہو گئی۔ چڑچڑے ہو گئے۔ یہ لطیفہ بہت پہلے کسی نے بھیجا تھا‘ لیکن ہمارے دماغ پر یہ کچھ ایسا اٹک گیا ہے کہ بار بار یاد آتا رہتا ہے۔ اب شادی یا نا شادی‘ ہم سب ہر وقت چڑچڑے رہتے ہیں۔ اپنی رائے‘ اپنی مرضی یا اپنے فیصلے کے خلاف کسی نے کچھ کہا نہیں کہ ہم ہتھے سے اکھڑ گئے۔ بھڑک اٹھے شعلہ جوالہ بن کر۔ ہم اپنی رائے اور اپنے فیصلے ٹھونسنے پر اتنے بضد رہتے ہیں کہ کوئی کتنا ہی عدل و انصاف کی دُہائی دیتا رہے‘ ہم اس کی نہیں سنتے۔ اس پر ہمیں ایک بہت ہی پرانے کارٹونسٹ وائی ایل یاد آ گئے۔ یہ ذوالفقارعلی بھٹو کے زمانے کی بات ہے۔ ان دنوں ولی خاں کو غدار کہا جا رہا تھا۔ اس سے پہلے کچھ اور سیاست داں غدار بنا دئیے گئے تھے‘ لیکن ہوتا یہ تھا کہ آج اگر کو ئی غدار ہے تو کل وہ محب وطن بن جا تا تھا۔ ولی خاں کو غداری سے نکال کر محب وطن بنایا گیا تو وائی ایل نے کارٹون بنایا‘ اور لکھا ”اگلے حکم تک آپ کو محب وطن قرار دیا جاتا ہے‘‘۔ یہ کارٹون ہمارے لیے تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اب یاد آیا کہ کسی نے اپنے آپ کو افغان کہہ دیا تو اس پر بھی اعتراض وارد ہو گیا۔ اسفند یار خاں اور افراسیاب خاں کو کہنا پڑا کہ ”ہم افغان ہیں‘‘۔ یہ معاملہ نسل کا ہے۔ نسلاً ہم کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ کشمیری ہو سکتے ہیں‘ اعوان ہو سکتے ہیں‘ صدیقی اور فاروقی ہو سکتے ہیں‘ لیکن ہیں تو پاکستانی۔ اب نسل کی بات ہو رہی ہے تو ہم یہ بھی بتا دیں کہ نسلاً ہم بھی افغان ہیں۔ ہمارے بزرگ بھی قندہار سے پہلے سوات اور بنیر آئے تھے۔ وہاں سے گنگا جمنا کے دوآبے کی طرف نکل گئے۔ انہوں نے ہمالیہ کی ترائی میں اپنی ریاستیں قائم کیں۔ انہوں نے انگریزوں سے جنگ بھی کی۔ اس جنگ میں کیا ہوا؟ یہ الگ تاریخ ہے۔ کس نے انگریزوں سے مل کر غداری کی؟ اس کا ذکر نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہے۔ ہاں‘ اتنا بتانا ضروری ہے کہ ہمارے دادا تک پشتو بولی جاتی تھی‘ پھر مقامی زبان کی ضرورت نے پشتو بھلا دی۔ ہمارے والد کے ماموں (جو عمر میں ان سے چھوٹے تھے) امتیاز علی خاں عرشی نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے ”اردو میں پشتو کے الفاظ‘‘۔ یہ کتاب پشتو اکیڈمی پشاور نے شائع کی ہے۔
اصل میں یہ جو بر صغیر یا جنوبی ایشیا ہے‘ یہ بے شمار نسلوں کا ملغوبہ ہے۔ یہاں افغان بھی آئے‘ ایرانی بھی آئے‘ منگول بھی آئے‘ ہن بھی آئے؛ حتیٰ کہ یونانی بھی آئے۔ ان سب سے مل کو آج کی نسل بنی ہے اور تو اور عالمی شہرت کی معتبر اور ثقہ مورخ رومیلا تھاپر‘ یوں تو پنجابی ہیں‘ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان افغانستان سے آیا تھا۔ اس کے لیے ان کے انٹرویو پر مشتمل نئی کتاب TALKING پڑھ لیجئے۔ رومیلا تھاپر سے یہ بات چیت ایرانی فلسفی رامین بیگ لو اور نیلادری بھٹا چاریہ نے کی ہے۔ یہ رومیلا تھاپر ہی ہیں‘ جو نسلوں کے امتزاج کی بات کرتی ہیں۔ نسل کی بنا پر کسی پر شک کرنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ وجہ وہی ہے کہ دوسروں کی رائے اور دوسروں کا موقف ہم سامنے لانا نہیں چاہتے۔ ہمیں کوئی نہ کوئی جواز چاہیے۔ اس صورت میں‘ اگر پارلیمانی یا عدالتی تحقیق کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو غلط نہیں ہے۔ اس بات کی تحقیق بھی ہونا چاہیے کہ یہاں جن دو آدمیوں کی بات ہو رہی ہے‘ وہ الیکشن جیت کر قومی اسمبلی میں کیسے پہنچے؟ الیکشن کمیشن نے انہیں اجازت ہی کیوں دی؟ اب نیب کے چیئرمین اور اس ویڈیو کی بات بھی ہو جائے‘ جو آج کل سوشل میڈیا پر چل رہی ہے۔ یہ تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ ویڈیو ان میاں بیوی نے بنائی ہے ‘جو بلیک میلر ہیں۔ بدمعاش ہیں اور کتنے ہی لوگوں کو بلیک میل کر چکے ہیں۔ ہمیں یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ان میاں بیوی پر مقدمے بھی چل رہے ہیں‘ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ ویڈیو کیسے بنائی گئی؟ اور کیا یہ ویڈیو صحیح ہے یا غلط؟ اگر غلط ہے تو اس کی تحقیق کیوں نہیں کرا لی جاتی؟ اپوزیشن یہی تو کہہ رہی ہے کہ اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے‘ جو حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ عدالتی تحقیقات کی بات بھی کی جا رہی ہے‘ لیکن یہ بات کوئی نہیں سنتا۔ وہی بات کہ صرف یک طرفہ موقف ہی سامنے آ رہا ہے۔ ان میاں بیوی کو بھی تو سامنے لاؤ ‘جنہوں نے یہ حرکت کی ہے اور پھر وہی ویڈیو والا سوال کہ یہ کیسے بنائی گئی؟کیا اس میں نیب کے چیئرمین کی تصویر اور آواز جعلی ہے۔ کیا یہ فوٹو شاپ کی گئی ہے؟ اگر یہ فوٹو شاپ کی گئی ہے تو کس نے کی ہے؟ اسے پکڑو۔ ان میاں بیوی پر جو مقدے چل رہے ہیں‘ وہ بلیک میلنگ اور دوسرے لوگوں کو لوٹنے کے ہیں۔ چیئرمین کی ویڈیو کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
دو دن قبل ایٹمی دھماکوں کی یاد میں یومِ تکبیر منایا گیا۔ ہم نے بڑے فخر سے یاد کیا کہ کیسے ایٹم بم کا دھماکہ کر کے ہم نے ہندوستان کو جواب دیا‘ لیکن اب یہاں اختر مینگل بھی سامنے آ گئے ہیں۔ اول تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جب یہ دھماکہ کیا گیا اس وقت انہیں کانوں کان خبر نہیں ہونے دی گئی۔ حالانکہ اس وقت وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ تھے۔ دوسرے وہ سوال کر رہے ہیں کہ چاغی میں‘ جہاں یہ دھماکہ کیا گیا تھا‘کیا کسی نے دھماکے کے بعد اس علاقے کو جا کر دیکھا؟ کسی نے یہ دیکھا کہ اس علاقے پر اب تک اس دھماکے کے اثرات کیوں موجود ہیں؟ اب انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ اثرات کیسے ہیں؟ لیکن ظاہر ہے ‘ان اثرات سے وہ خوش نہیں ہوں گے۔ ہمیں یک طرفہ سبق ہی پڑھایا جاتا ہے۔ بات کرو تو چڑچڑا پن شروع ہو جاتا ہے۔ چڑچڑا انسان دوسروں کی نہیں سنتا۔ اپنی ہی کہے جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ایک ایسی جگہ ہے ‘جہاں تحمل اور سکون سے بات کرنا ہی بھلا لگتا ہے۔ وہاں سائونڈ سسٹم بھی اتنا برا نہیں ہے کہ ایوان کے آخری کونے تک اپنی بات نہ پہنچائی جا سکے۔ وہاں تو آواز زیادہ سے زیادہ اتنی بلند ہونا چاہیے کہ سننے والے کی سماعت پر گراں نہ گزرے‘ لیکن ہماری قومی اسمبلی میں ایک صاحب زادے جب بولنے پر آتے ہیں تو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ ان کی زبان ایسی تڑتڑ چلتی ہے کہ شاید بلٹ ٹرین بھی اتنی تیز نہ چلے۔ صرف ان کی زبان ہی نہیں بولتی‘ ان کا سارا جسم بھی بولتا ہے۔ جب وہ دھواں دھار بول رہے ہوتے ہیں تو ہمارا جی چاہتا ہے۔ انہیں پشتو میں سمجھائیں۔ ”الکا‘ رو رو خبرے کوا‘‘۔ زیادہ چیخنے سے اپنا ہی گلا خراب ہوتا ہے۔ آپ کی چیخم دہاڑ سے آپ کے موقف کا قائل ہونا تو کجا آپ سے کوئی مرعوب بھی نہیں ہوتا۔ ہمیں ان پر رحم آتا ہے‘ لیکن چیخنا اور گلا پھاڑ کر اپنی بات دوسروں تک پہنچانا یا اپنی بات منوانے کی کوشش کرنا ہماری فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔ ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم ہر وقت چڑچڑے کیوں رہتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ہماری عام زندگی میں یہ چڑچڑا پن ناکامیوں‘ محرومیوں اور ذہنی الجھنوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے‘ لیکن ان لوگوں میں یہ چڑچڑا پن کیوں پیدا ہوتا ہے‘ جن کے ہاتھ میں ہماری زندگی کی باگ ڈور ہے؟ عام آدمی اتنا بھی کند ذہن نہیں ہے کہ کسی کی کہی ہوئی ہر بات مان لے۔ وہ بھی دماغ رکھتا ہے اور پھر اب صرف اخبار اور ٹیلی وژن ہی نہیں ہیں‘ سوشل میڈیا بھی ہے اور اس سوشل میڈیا تک عام آ دمی کی بھی رسائی ہے۔ عام آدمی کی ذہنی ساخت اب اس میڈیا سے تشکیل پا رہی ہے۔ بس‘ اس سے آگے ہم اور کچھ کہنا نہیں چاہتے۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)