سوشل میڈیا نے مذہب اور اس کے ٹھیکداروں کو بیچ چوک میں لا کے کھڑا کر دیا ہے ۔۔ مذہب کے بارے میں کل جو بات ایک خاص گروہ تک محدد تھی ، آج وہ سوشل میڈیا کی بدولت گھر گھر تک پہنچ گئی ہے ، خاص طور پہ مذہب کا عورت کے بارے میں رویہ والاموضوع سوشل میڈیا کا پاپولر موضوع ہے ۔۔۔ تاریخ کے صفحے کھنگال کھنگال کے دکھایا جا رہا ہے کہ مذہب عورت کے بارے میں کیا کیا احکامات دیتا ہے ، عورت کی کم عقلی ، آدھی گواہی ، اپنے شوہرکی ہر حالت میں فرمانبرداری جس میں خاص طور پہ جنسی فرائض ۔ غیر محرم کی آواز سننے سے بھی اجتناب اور مرد کو مادر پدر آزادی کی سند سوشل میڈیا پہ سکین کر کے دکھائی جا رہی ہیں اور اس دور سے آج تک مذہبی شخصیات کی اپنی عورتوں سے سلوک کی روایات بمع ثبوت کے پیش کی جا رہی ہیں۔۔اور اب خاص طور پہ مسلم ممالک میں عورت کی موجودہ صورت حال پہ لمبے لمبے مضمون لکھے جا رہے ہیں اور جو اتنے غلط بھی نہیں ہوتے ویڈیو میں عورتوں کو مارتے دکھایا جاتا ہے ، عورتوں پہ ٹی وی دیکھنے پہ پابندیوں کی خبریں لیک کی جاتی ہیں ، عورت کے کار چلانے پہ پابندی پہ احتجاج کیا جا رہا ہوتا ہے۔۔۔پاکستان کا سوشل میڈیا اس کام میں سب سے بڑ ھ چڑھ کر حصہ لے رہا اور ان مذہبی لوگوں کے ہاتھوں عورت پہ ہوتا ہوا وہ وہ ظلم و تشدد دکھاتے ہیں کہ نارمل انسان دیکھ نہیں سکتا ۔۔ عورت کو بازار میں بالوں سے گھسیٹے دکھایا جاتا ہے عدالت کے باہر عورت کو اینٹوں سے سنگسار ہوتے دکھایا جاتا ہے اور عورت کو ریپ کر کے اس کو پھٹے کپڑوں سمیت گلیوں میں ننگا بھگاتے دکھایا جاتا ہے ، سوشل میڈیا تو ان مذہبی لوگوں کے ہاتھوں جو کچھ گھروں کے اندر ہو رہا ہے وہ بھی سب کہانیاں میڈیا پہ لا رہا ہے ،
اب آپ اس جملے پہ غور کریں جو میں لکھ رہا ہوں
یہ تمام مذہبی لوگ جو عورت کے ساتھ یہ سب کرتے ہیں وہ مذہب کے حوالے سے اس پہ یقین رکھتے ہیں ، یہ صیحح ہے یا غلط یہ ایک دوسرا سوال ہے اور کیا وہ مذہب کو صیحح سمجھ کر ایسا کر رہے ہیں یہ بھی ایک الگ سوال ہے مگر وہ سب اس کو صیحح اور جائز سمجھ کر رہے ہیں ۔۔
ایک دوسرا گروہ ہے جو اس تمام صورت حال کے خلاف جدوجہد کرتا رہتا ہے ، عورت کو مرد کی ہر قسم کی قید سے آزادی دلوانے کی جد و جہد کرتا رہتا ہے معاشی غلامی سے لے کر جنسی غلامی تک عورت کو مرد کی قید سے آزادی دلوانا چاہتا ہے ، اس کے لیے یہ جلوس نکالتا ہے جلسے کرتاہے بھوک ہڑتالیں کرتا ہے ، لا ٹھیاں کھاتا ہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا رہتا ، ڈرامے لکھتا ہے آرٹ فلمیں بناتا ہے ،8 مارچ کو عورت کا دن منا نے میں پیش پیش ہوتا ہے ۔۔
اس گروہ میں کچھ لوگ خود کو کمیونسٹ کہلاتے ہیں کچھ لبرل کچھ دہریے اور کچھ سیکولر ۔۔۔۔ اور ان میں کچھ نسل در نسل ان نظریات پہ یقین کرتے اور اس کے لیے جد و جہد کرتےچلے آ رہے ہیں ۔ کیا آپ کے یہ علم میں ہے کہ اس گروہ کی اکثریت اپنی عورت کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے تو میں کہوں گا مذہبی مردوں سے بھی سو گنا بد تر ۔۔ ان میں کچھ تو مذہبی لوگوں سے بھی زیادہ عورتوں پہ جسمانی تشدد کرتے ہیں ، ان کے گھروں میں عورت کسی بھی سیاسی معاملے پہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتی ، اگر ان کی بیٹی اور اور بہن کسی سے محبت کا اظہار کر دے تو یہ ویسا ہی رد ِ عمل دکھاتے ہیں جیسا مذہبی لوگ دکھاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو بہت ہی بھیانک ، یہ اپنی بیویوں سے مسی کا کام لیتے ہیں اور وہ بھی ان عورتوں سے جو انتہائی تعلیم یافتہ ہوتی ہیں ، جو پہلے نوکریاں کر چکی ہوتی ہیں ۔۔یہ ایک حسین جملہ کہہ کر کہ مجھے تمہارے ہاتھوں کا کھانا پسند ہے، گھر میں کسی کھانے بنانے والی کی چھٹی کرا دیتے ہیں مگر اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ ریستو رانوں میں کھانا کھاتے ہیں ، یہ لبرل پروگریسو لوگ عورت کو گھر میں ایک سیاسی کارکن کی طرح لیتے ہیں کہ وہ اپنے قائد کی ہر بات چوں چرا کیے بغیر تسلیم کرتی رہے ۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جنھوں نے شادی سے پہلے اپنی اس بیوی کے ساتھ ایک ہی پارٹی میں کام کیا ہوتا ہے دور دراز علاقوں میں اکٹھے جا کر یا الگ الگ گروپ میں جا کر کام کیا ہوتا ہے ۔ مگر جیسے ہی یہ شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں کچھ دیر بعد ہی ان کا رویہ مختلف ہوجاتا ہے ، سب سے پہلے تو یہ مختلف دلائل سے اس کی نوکری کرنے پہ پابندی لگاتے ہیں جس کی وجہ سے عورت ان کی معاشی غلام تو بنتی ہی ہے وہ باہر کی فضا سے بھی محروم ہو جاتی ہے اب اس عورت کا کام بچے جننا ، بچوں کی دیکھ بھال کرنا گھر کی صفائی کرنا شوہر کے کپڑے استری کرنا ، گھر میں آئے شوہر کے دوستوں کےلیے کھانے
بنانا اور رات کو شوہر کے بستر کا خیال رکھنا رہ گیا ہوتا ہے ۔ اب وہ جملہ جو میں پہلے لکھ چکا ہوں اس کو دوبارہ ذہن میں لائیں جب میں نے کہا تھا ، کہ مذہبی لوگ یہ سب صیحح اور جائز سمجھ کر کر رہے ہوتے ہیں اور یہ لبرل سیکولر کمیونسٹ اس سب کو غلط سمجھتے ہوئے اس کے ظلم کے خلاف جدو جہد کرتے وہی کر رہے ہیں جو مذہبی لوگ کرتے ہیں
بدنام مذہبی لوگ اور خود صاف و شفاف
جتنے زخم تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشان اے چارہ گر دیکھے گا کون ؟
احمد فراز
فیس بک کمینٹ