بی بی سی اردو سروس نے پاکستان کے آج نیوز ٹیلی ویژن کے ساتھ سیربین نیوز میگزین نشر کرنے کا معاہدہ ختم کردیا ہے۔ دو خود مختار اداروں کے درمیان طے پانے والے معاملات ’خبر‘ نہیں ہوتے لیکن اگر ان معاملات میں سرکار کی مداخلت دکھائی دے اور اس کا تعلق آزادانہ رائے کی ترسیل سے ہو تو وہ معاملہ عام دلچسپی کا اہم ترین موضوع بن جاتا ہے۔ ایک پاکستانی ٹیلی ویژن چینل سے پروگرام نشر نہ کرنے کا فیصلہ بھی ایک ایسا ہی معاملہ ہے۔ ملک کے وزیر اعظم کا دعویٰ رہتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کو جو آزادی ہے، وہ پاکستان کی تاریخ تو کیا ، دنیا کے متعدد ممالک میں بھی نصیب نہیں ہے۔ اگر ایسا کہتے ہوئے پاکستان کا مقابلہ شمالی کوریا یا ایران و چین جیسے سخت گیر آمرانہ نظام والے ممالک سے مطلوب ہے تو یقیناً عمران خان کے اس دعوے کو تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کسی مناسب اور متوازن جمہوری ملک کے ساتھ پاکستانی میڈیا کی صورت حال کا مقابلہ کیا جائے تو یہ دعویٰ بے بنیاد اور زمینی حقائق سے متصادم ہے۔ آج نیوز ٹی وی سے سیربین کی نشریات پر پابندی پاکستان میں میڈیا کی آزادی و خود مختاری کے بارے میں دعوؤں کا پول کھولتی ہے۔
حکومت کے نمائیندے پورے یقین سے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ یہ پابندی پاکستانی حکومت یا اس کے اداروں نے عائد نہیں کی بلکہ یہ تو دو خود مختار نیوز اداروں کا باہمی تنازعہ ہے۔ لیکن اگر صورت حال کو بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈائریکٹر جیمی اینگس کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو حقیقت حال سامنے آتی ہے۔ انہوں نے یہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارے پروگراموں میں کسی قسم کی مداخلت ہمارے اور ہمارے ناظرین کے درمیان اعتماد کی خلاف ورزی ہے، جس کی ہم اجازت نہیں دے سکتے‘۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ سیربین پروگرام کی پاکستان میں نشریات میں گزشتہ سال اکتوبر سے مسائل پیش آرہے تھے۔ پروگرام کی کاٹ چھانٹ کا سلسلہ شروع کیا گیا جو بی بی سی کے لئے قابل قبول نہیں تھا۔ بی بی سی اگرچہ غیر ملکی ٹی وی چینلز سے اپنے پروگرام نشر کرنے کے معاہدے کرتا ہے لیکن وہ کسی کو انہیں ایڈٹ کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔ یہ اختیار بی بی سی کے مدیران کے پاس ہی رہتا ہے۔ ’آج نیوز ‘معاہدہ کے مطابق اس اصول کا احترام کرنے سے قاصر رہا ہے۔
یہ معاملہ یوں بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس طریقہ سے پاکستان میں آزادی رائے پر حملوں کے نئے طریقہ کار کا پول کھلتا ہے۔ اس معاملہ میں آج نیوز چینل پر بوجھ ڈال کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ کیا وجہ ہے کہ ایک نجی چینل ایک مقبول پروگرام کو معاہدے کے مطابق ہو بہو نشر کرنے سے قاصر ہے۔ اس کی ایک وجہ پیمرا کی بڑھتی ہوئی مداخلت ہے۔ یہ ادارہ اگرچہ خود مختار حیثیت رکھتا ہے لیکن اس وقت براہ راست وفاقی حکومت کی نگرانی میں کام کررہا ہے۔ یوں تو پیمرا کا کام بنیادی طور پر الیکٹرانک میڈیا کی آزادی و خود مختاری کو یقینی بنانا ہے لیکن جو ادارہ خود اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت میں ناکام ہو ، وہ میڈیا پر آزادانہ رائے کے اظہار کی ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں ایک طرف غیر ملکی نشریاتی اداروں کا مواد سنسر کرنے کی روایت راسخ کی گئی ہے تو دوسری طرف مقامی ٹیلی ویژن اسٹیشنوں کو سرکاری رہنما اصولوں بلکہ حکومت وقت کی خواہشات کا پابند کرنے کا کام زور شور سے کیا جارہا ہے۔ سیربین میگزین کی نشریات پر پابندی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔
ملک میں اس وقت سنسر شپ کی جو نئی قسم متعارف کروائی گئی ہے ، اس کا آغاز جولائی 2018 سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ یعنی میڈیا کو نئے سیاسی حالات میں اہم ترین مورچہ بنانے کا منصوبہ رو بہ عمل آچکا تھا۔ یوں تو اس منصوبہ کے ابتدائی خد و خال عمران خان اور طاہر القادری کے مشہور عالم دھرنا 2014 میں بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ اس وقت کنٹینر پر چڑھے عمران خان چند سو یا چند ہزار لوگوں سے خطاب کرتے تھے لیکن ملک بھر کے سارے ٹی وی چینل ان ارشادات کو گھر گھر پہنچا کر بدعنوانی کے اس بیانیہ کو قومی منشور بنانے میں اپنا حصہ ڈال رہے تھے۔ پاکستانی میڈیا کی اس گرمجوشی کی صرف ایک ہی دوسری مثال ملتی ہے۔ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی رہنما الطاف حسین کے لندن سے ٹیلی فونک خطابات کی براہ راست نشریات ہیں۔ اگست 2016 میں ’پاکستان دشمن‘ قرار دیے جانے سے پہلے کوئی ٹیلی ویژن اسٹیشن الطاف حسین کا خطاب براہ راست نشر نہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ پاکستانی میڈیا نے ان دو شخصیات سے قطع نظر کبھی ایسی فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے جلسوں اور تقریروں کی سکروٹنی سے میڈیا پر حکومتی کنٹرول کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ میڈیا پر خبر یا رائے کا گلا گھونٹنے کے اس نئے طریقہ کو ’سیلف سنسر شپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی سرکار یا اس کے ہرکاروں نے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ اگر مقررہ حدود پر ازخود عمل کرنے کا طریقہ اختیار نہ کیا گیا تو ایسے چینلز کا جینا حرام کردیا جائے گا۔ پاکستان میں جیو اور جنگ گروپ کے علاوہ ڈان میڈیا گروپ نے اپنی نیم خود مختاری کے لئے سرکاری ناراضی مول لے کر بھاری قیمت ادا کی ہے۔ پاکستانی میڈیا ہاؤسز چونکہ سرمایہ دار گروپس کی ملکیت ہیں، اس لئے مالکان کو یہ باور کروانا مشکل نہیں تھا کہ کون سی خبر اور رائے شائع یا نشر ہوسکتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کی عجیب و غریب روایت کے مطابق میڈیا ہاؤسز کے مالکان ہی اپنی تمام مطبوعات و نشریات کے ایڈیٹر کے منصب پر بھی فائز ہوتے ہیں۔ اس کاعملی نتیجہ یہ ہے کہ جب حکومت کی طرف سے میڈیا ہاؤسز پر دباؤ ڈالا گیا تو مالکان نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ’ایڈیٹر کی ٹوپی‘ پہنی اور ناپسندیدہ مواد پر قینچی چلانا شروع کردی۔
پاکستانی میڈیا میں عملی طور سے صحافتی آزادی کا قلع قمع کیا جاچکا ہے۔ کسی کارکن کو اپنی مرضی کے مطابق خبر فائل کرنے یا رائے دینے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ اسی لئے سوشل میڈیا پر نامور کالم نگاروں کے ایسے متعدد کالم دکھائی دینے لگے ہیں جنہیں ان کے اخبار شائع کرنے سے انکارکرتے ہیں۔ متعدد پروگرام اعلان ہونے کے بعد ٹیلی ویژن پر نشر نہیں ہوپاتے کیوں کہ کہیں نہ کہیں سے ان پر اعتراض اٹھا دیا جاتا ہے۔ اس معاملہ کی گونج تو نواز شریف کے معاملہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی سنی گئی ہے کہ کسی ’سزا یافتہ‘ سیاسی لیڈر کی تقریرنشر کرنا کس حد تک آزادی رائے کا معاملہ ہے یا قومی مفاد سے کھلواڑ ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت پاکستانی میڈیا کو ایڈیٹر کے اختیار اور کنٹرول سے محروم کیا گیا ہے۔ مالکان کے مدیرانہ اختیار سے قطع نظر سرکشی دکھانے والے میڈیا کو کیبل آپریٹرز کے ذریعے سبق سکھانے کے علاوہ متبادل ٹی وی چینل مارکیٹ کئے گئے تاکہ ’قابل قبول بیانیہ ‘ کے مطابق پروگرام پیش کئے جاسکیں۔ رائے عامہ کو سلیبس، سیاسی بیان بازی اور سماجی و مذہبی دباؤ کے ذریعے پہلے ہی ایک خاص قومی و دینی سوچ قائم کرنے پر مائل کرلیا گیا ہے۔
اسی تصویر کا ایک بھیانک پہلو یہ بھی ہے کہ مین اسٹریم میڈیا سے دھتکارے گئے متعدد اہم صحافیوں نے جب روٹی روزی کے لئے یو ٹیوب چینلز شروع کرنے کی کوشش کی تو ان کے مقابلے میں درجنوں ایسے چینلز لا کھڑے کئے گئے جو قوم پرستی اور ملکی مفاد سے لبریز اس عام فہم زبان میں گفتگو کرتے ہیں جس کی قبولیت کا مزاج دہائیوں کی محنت سے ملک میں استوار کیا گیا ہے۔ حالانکہ ملک کی عالمی ساکھ بحال کرنے اور انتہاپسندی و مسلکی تعصبات سے نجات پانے کے لئے اس مزاج کو تبدیل کرنے اور اس کے خلاف کام کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن قلیل المدت سیاسی دست برد کے منصوبہ میں اس پہلو پر غور کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ سوشل میڈیا پر اگر متبادل رائے سامنے لانے کی کوئی لولی لنگڑی کوشش کی گئی تو ’ ففتھ جنریشن یاہائبر ڈ وارفئیر‘ کا خوف پیدا کرکے ایسی آوازوں کو ابھرنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔ سیاسی حکومت اور مصدقہ قومی اداروں کی سرکردگی میں ہر قسم کے اختلاف کوبراہ راست ملکی مفاد کے لئےخطرہ اور بھارتی پروپیگنڈا عام کرنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے۔
عمران خان نے بطور کرکٹر برطانیہ میں چند برس صرف کئے تھے اور اس قلیل قیام کی بنیاد پر وہ خود کو مغربی جمہوریت، سماجی رویوں اور تصور آزادی کا مستند ماہر قرار دیتے ہیں۔ لیکن اب اسی ملک کے قومی نشریاتی ادارے کے ایک پروگرام کو صرف اس لئے پاکستان میں بند کرویا گیا ہے کہ اس کے مدیر اپنے ایڈٹ کرنے کے حق سے دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وزیر اعظم اسلاموفوبیا کی وجوہات کی طرح اس طریقہ کار کے لئے بھی مغربی جمہوریت کی کسی کمزوری کی نشاندہی کرسکتے ہوں گے۔ ملک میں رائے کی آزادی پر اصرار کرنے والے ایک صحافی مطیع اللہ جان کو گزشتہ برس جولائی میں اسلام آباد سے اغوا کیا گیا اور وزیر اعظم نے اسے اکا دکا واقعہ شمار کیا جبکہ ان کے منہ زور ترجمان اس کی وجہ کسی ذاتی جھگڑے کو بتاتے رہے۔ اب اسلام آباد کے ایک معتبر صحافی اعزاز سید نے ’ہم سب‘ پر لکھے گئے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم کے باوجود سینیٹر فرحت اللہ بابر کی اس درخواست کو پذیرائی نصیب نہیں ہوئی کہ اس اغوا کے وقت اسلام آباد میں سیف سیٹی کیمروں کی ویڈیو فوٹیج فراہم کی جائے۔ صرف وہی حکومت اور ریاستی انتظام خود مختارانہ رائے کو روکنے اور جرم کے شواہد چھپانے کے لئے آخری حد تک جاتا ہے جو ناانصافی اور ظلم پر استوار ہو۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی اور سیاسی آزادی کے لئے اٹھنے والی آوازیں، اب میڈیا کنٹرول کرنے کے ہتھکنڈوں سے دبائی نہیں جاسکیں گی۔ بلکہ یہ طریقے اپوزیشن کے مؤقف کے لئے ٹھوس دلیل ثابت ہورہے ہیں۔
( بشکریہ :کاروان ۔۔ ناروے )