مجھے معلوم ہے کہ سپہ سالار کا لفظ رضی صاحب کے شایان شان نہیں اور وہ خود بھی شاید اس لفظ کو نا پسند کریں لیکن میں کیا کروں میں انہیں ادب و صحافت کا سپہ سالار ہی سمجھتا ہوں ، رضی الدین رضی شعبہ صحافت میں میرے پہلے باقاعدہ استاد ہیں غالباً1990کی دہائی میں قائم ہونے والا یہ رشتہ آج 2023میں بھی نہایت ادب، محبت، عزت و احترام کے ساتھ نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ صحافتی امور کی انجام دہی میں مجھے آج بھی جب کبھی کوئی مشکل پیش آئی ، کسی لفظ فقرے یا محاورہ نے کسی وسوسے میں ڈالا تو رضی صاحب نے انتہائی کمال محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تفصیل اور سیاق و سباق کے ساتھ رہنمائی کی ۔ پھر رضی صاحب کا پہلا تعارف بھی شعبہ صحافت ہی ہے گوکہ اب ان کا شمار ادب کے سپہ سالاروں میں ہوتا ہے مگر ان کی اصل پہچان صحافت ہی ہے ۔ ہمارے ہاں اکثر مثال دی جاتی ہے کہ کچھ لوگ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں مگر صحافت اور ادب سے لگاؤ دیکھ کر بعض اوقات مجھے یوں گمان ہوتا ہے کہ رضی صاحب نے ہاتھ میں قلم اور کاغذ لے کر اس دنیا میں آنکھ کھولی۔
صحافت اور ادب گوکہ ملتے جلتے شعبے ہیں اور دونوں میں کام ایک جیسا ہے مگر بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہیں ادب اور صحافت پر یکساں عبور حاصل ہو کیونکہ عموماً جو بڑا صحافی ہوتا ہے اس کا ادب سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا اور جو ادب کا کھلاڑی ہو اس کا صحافت میں شمار نہ ہونے کے برابر دیکھا گیا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی لکھ تو بہت اچھا لیتا ہو مگر بول کر اس کا اظہار نہیں کر سکتا اور کوئی مقرر بہت اچھا ہوتا ہے مگر لکھنے میں زیرو ۔اسے عطیہ خداوندی سمجھیں یا رضی صاحب کی اپنی محنت اور لگن کا کمال کہ انہیں صحافت ،ادب اور بولنے پر ملکہ حاصل ہے صحافت اور ادب کی بھی کئی اصناف ہیں مگر رضی صاحب قلم اور کاغذ کا آل راؤنڈر کھلاڑی ہے جسے صحافت اور ادب کی ہر صنف پر دسترس حاصل ہے صحافت میں ان کا بنیادی شعبہ نیوز ڈیسک ہے مگر وہ صحافت کی ہر صنف کے گرو ہیں ۔ کالم نگاری ہو تبصرہ نگاری، تجزیہ نگاری، مضمون نویسی ، رپورٹنگ ،ادارتی پالیسی ،فیچر نویسی یا اخبار کی پروڈکشن کے دیگر معاملات ہوں رضی صاحب ہر شعبے کی کمان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اخباری صنعت میں کتابت، کاپی پیسٹنگ ، چھپائی اور پھر مارکیٹنگ تک کوئی شعبہ ایسا نہیں جو رضی صاحب کی پہنچ سے دور ہو یہ ایسے صحافی ہیں جنہوں نے صحافت میں قلم اور لیتھو کا دور بھی دیکھا تصاویر کے نیگٹو پازیٹو بھی بنوائے بٹر پیپر، مستر ،نبوں، ہولڈروں سے بھی اخبار تیار کروائے اور اب جدید ترین ٹیکنالوجی کمپیوٹر سکین انٹرنیٹ کے دور میں بھی اپنی صحافتی مہارت دکھا رہے ہیں ۔
شعبہ صحافت کی طرح شعبہ ادب میں رضی صاحب نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں شاعری ہو ، مضمون نویسی، انشائیہ، اختصاریہ، افسانہ نگاری ہو یا تاریخ رضی صاحب نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور خوب اٹھایا کم و بیش چوبیس کتابوں کے مصنف ہونے کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں شعبہ ادب میں ان کی ادبی خدمات کے پیش نظر کئی طالب علموں نے ان کی شخصیت اور ادبی زندگی پر مکالے لکھے اور لکھ رہے ہیں کئی یونیورسٹیوں کے کورس میں رضی صاحب کے بارے مضامین نصاب کا حصہ ہیں رضی صاحب ایک طرف تو نہ صرف خود ادب ،تخلیق کررہے ہیں بلکہ ادب کی ترویج و فروغ کیلئے انہوں نے ”گردوپیش” پبلی کیشنر کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کر رکھا ہے جس کے زیر اہتمام اب تک مختلف ادیبوں اور شعرا کرام کی بہت سی کتب شائع ہو کر مارکیٹ میں آچکی ہیں اور کئی زیر طبع ہیں لکھاریوں کے بارے عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ کسی دوسرے ہم عصر کا وجود برداشت نہیں کرتے مگر رضی صاحب اس کے بالکل برعکس ہیں رضی صاحب نئے لکھاریوں کی بھرپور اور مکمل رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے نظر آئے کئی لکھاریوں کی کتب اپنے ادارے سے بلا معاوضہ شائع کر چکے ہیں ان کی خواہش ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والا ہر لکھاری صاحب کتاب ہورضی صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنے کئی ایسے دوستوں اور ملنے والوں کی کتابیں بھی شائع کرنے والے ہیں جو صاحب کتاب ہونے کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے کیونکہ ان کے پاس وسائل نہ تھے یا انہیں زندگی نے مہلت نہ دی ۔ ان میں اطہر ناسک اور طفیل ابن گل کا نام قابل ذکر ہے جن کی کتابیں رضی صاحب شائع کر رہے ہی ۔
جنوبی پنجاب سے شائع ہونے والے ہر قومی و علاقائی اخبار اور جریدہ کی بانی ٹیم کے ممبر رہے اور شاید ہی کوئی ایسا اخبار یا جریدہ ہوگا جس کی اشاعت اور پھر بام و عروج تک پہنچانے میں آپ کی قلم کی سیاہی شامل نہ ہو ۔ خاص طور پر روزنامہ جنگ ملتان ، روزنامہ نیا دن ، قومی آواز ، اعلان حق ، روزنامہ دنیا ملتان کے پہلے شمارے رضی صاحب نے ہی شائع کئے اور اس موقع پر ایسے خاص ایدیشن شائع ئے جو د ستاویزی اہمیت کے حامل ہیں ۔
وہ نہ صرف اخبارات کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں بلکہ جب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا آیا تو آپ نے اس میں بھی سب کو پچھاڑ دیا کئی نجی ٹی وی چینلز کے پروگراموں کی میزبانی کرتے نظر آتے ہیں سرکاری پی ٹی وی پر ادبی اور حالات حاضرہ کے پروگراموں میں بطور میزبان اور تجزیہ و تبصرہ نگار اپنی صحافتی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں ریڈیو پاکستان ایف ایم ریڈیو کے متعدد پروگرام بھی آپ کی شرکت کے بغیر بے معنی اور پھیکے سنائی دیتے ہیں سوشل میڈیا پر حالات حاضرہ کے کئی وی لاگ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور آپ کے فالورز کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔
”گردوپیش” کے نام سے ایک نیوز اور ادبی ویب سائٹ بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں جن سے ملک کے نامور کالم نگاروں کے نت نئے کالم اور مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں اور خبروں سے سوشل میڈیا کے صارفین کو تازہ ترین حالات سے فوری آگاہی حاصل ہوتی ہے رضی صاحب کئی ادبی تنظیموں سے بانی سرپرست اور اعلیٰ عہدے دار بھی ہیں جن کے اجلاس مسلسل اور باقاعدگی سے ہوتے ہیں اور ان تنظیموں کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ کتابوں کی تقریب رونمائی ادیبوں اور شعرا کرام کے اعزاز میں تقریب پذیرائی باقاعدگی اور مسلسل سے کراکر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ادب سے محبت اور دلچسپی رکھنے والوں کو تفریح کے بہترین مواقع میسر آتے ہیں ملتان ٹی ہاؤس کے قیام اور اس کی رونقیں دوبالا کرنے اور برقرار رکھنے میں آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں شعبہ ادب ہو یا صحافت اس کی ترویج فروغ کا کام رضی صاحب کسی معاوضہ کیلئے نہیں بلکہ بے لوث جذبہ کے تحت کررہے ہیں لفظوں اور کتابوں سے ان کا انس دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ادب اور صحافت ہی ان کا پہلا اور آخری عشق ہے ایک بار ان کے آفس میں کتابوں ،اخبارات اور رسالوں کے ڈھیر دیکھ کر میں نے سوال کیا کہ سر آپ کو جب ان کا کوئی مالی فائدہ ہی نہیں تو پھر یہ سب کچھ کیوں کررہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ کہ روحانی اور ذہنی سکون کیلئے یہ میرا عشق ہے اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو میرا دم گھٹتا ہے رضی صاحب صحافت اور ادب کی ایک مکمل تاریخ ہیں ان کے پاس ملک سے شائع ہونے والے تقریباً ہر اخبار کا کوئی نہ کوئی ایڈیشن یا شمارہ موجود ہے یہاں تک کہ تاریخی اخبار ”چٹان” اور لیل و نہار کے شمارے بھی ان کی لائبریری کا حصہ ہے رضی صاحب کی ادبی و صحافتی خدمات کے اعتراف میں ملک بھر میں وقتاً فوقتاً تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے چند دن پہلے لاہور پریس کلب نے ان کے اعزاز میں ایک پروقار تقریب منعقد کی اور ان کی ادبی و صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا رضی صاحب شعبہ صحافت اور ادب میں کئی ایوارڈز اور میڈلز بھی حاصل کر چکے ہیں شعبہ ادب اور تاریخ کے طالب علموں کیلئے رضی صاحب کی ذات ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتی ہے ۔رضی صاحب کی صحافت ،ادب اور شعری طاغوتی قوتوں کیخلاف مزاحمت کا استعارہ ہے ۔میرے ذاتی خیال میں رضی صاحب کو اب تک جتنے ایوارڈ اور میڈلز ملے وہ ان کی ادبی خدمات کا عشر عشیر بھی نہیں صاحب کو ان اعزازات کی ضرورت بھی نہی کہ ان کو اعزاز دینے والوں نے یہ اعزازات شاید اپنی یا اس اعزاز کی توقیر میں اضافے کے لئے دیے ۔میں ان کی صحت اور سلامتی کے لیے دعا گو ہوں ۔