(گزشتہ سے پیوستہ )
انہی دنوں بتدریج تعلیم نے کاروبار کی شکل اختیار کر لی۔ جب میں نے روزنامہ’’ جنگ‘‘ میں ایجوکیشن رپورٹر کے طور پر کام شروع کیا تو مجھے تعلیمی بورڈوں کے قصے معلوم ہوئے۔ ملتان کا ایک طالب علم لاہور کے ایک میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا، اس کے ایک دوست نے صدر بازار لاہور کے رہائشی ایک شخص کو صرف 25 ہزار روپیہ دے کر ایڈیشنل میتھ کا امتحان دیا اور اپنے دوست میڈیکل کالج کے طالب علم کے نام اور ولدیت کو استعمال کرکے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لے کر نہ صرف الیکٹریکل انجینئر بنا بلکہ چیف انجینئر کے طور پر ریٹائر ہوا مگر اس نے احتیاط یہ کی کہ نوکری سندھ اور بلوچستان میں ہی کی تاکہ پردہ رہے۔ اس دور میں ملتان بورڈ امتحانی سنٹروں کی فروخت کے حوالے سے بدنام تھا۔ ہر سال ملتان بورڈ کے زیر انتظام شہروں سے کسی ایک شہر کا انتخاب کرکے اس میں خفیہ امتحانی سنٹر بنتا جہاں 50 کے قریب طالب علم امتحان دیتے اور اتنے نمبر لے جاتے کہ باآسانی میڈیکل کالج یا انجینئرنگ یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہو جاتا تھا۔
ایک مرتبہ بورے والا سنٹر فروخت ہوا ایک مرتبہ چیچہ وطنی شہر کا قرعہ نکلا ایک مرتبہ لیہ کی باری آئی۔اس طرح روٹیشن میں ہر سال ایک سنٹر ایسا بنتا جہاں بھاری رشوت کے عوض امتحان دینے والے مخصوص طلبہ کو تمام تر سہولیات فراہم ہوتیں اور پھر اس مخصوص سنٹر کے 90 فیصد طالب علم میڈیکل کالجوں اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں باآسانی داخل ہو جاتے۔ میں ایک میڈیکل کالج کے پرنسپل کو جانتا ہوں جنہوں نے چیچہ وطنی سنٹر سے ہی اعلیٰ نمبروں سے ایف ایس سی کی تھی چونکہ اب وہ دنیا میں نہیں رہے لہٰذا میں بھی پردہ رکھتے ہوئے ان کا نام نہیں لکھ رہا ۔
اس دور میں ملتان بورڈ بدنام ترین بورڈ تھا اور بعض زمینداروں کے نالائق بچے اسی طرح اعلیٰ نمبر لے جاتے تھے ۔ جو سنٹر ان نقل کرنے والے طلبہ کے لئے بک کیا جاتا اس کا فاصلہ ملتان سے اتنا رکھا جاتا کہ علی الصبح طلبہ کو لے کر گاڑیاں پہنچ سکیں۔بعض اوقات اس شہر میں گھر بھی کرائے پر لے لئے جاتے ۔ اس وقت بھی ایسے حضرات اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن کی ایف ایس سی اسی فروخت شدہ امتحانی سنٹروں والے منصوبے کے تحت ہوئی اور وہ اس قوم کی موجودہ اور آنے والی نسلوں سے اپنی نقل کی بدولت حاصل کی گئی ڈگریوں اور اس ڈگری کی بنیاد پر "خریدی” گئی پوسٹوں پر بیٹھ کر عوام سے خراج وصول کر رہے ہیں۔ ان میں سے دو تو وائس چانسلر کے عہدوں تک پہنچے جن کے نام لکھ سکتا ہوں مگر ان میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے لہذا ان کا نام لکھنا مناسب نہیں کہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہو چکا ہے اور دوسرے کا نام اس لئے نہیں لکھ رہا کہ جب ایک نام پر پردہ ڈالا ہے تو دوسرے پر بھی ڈلا ہی رہے۔
اسی طرح ملتان کی زکریا یونیورسٹی جنسی ہراسمنٹ سکینڈل کا ایک مرکزی کردار بھی موت کے منہ میں جا چکا ہے اس لئے اس کا نام نہیں لکھ رہا البتہ اس یونیورسٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر جو ایک طالبہ کو اپنی برہنہ تصاویر بھیجتے تھے یونیورسٹی سے نکالے جا چکے ہیں۔ بہاول پور کی اسلامیہ یونیورسٹی میں جو ہوا اور جس طرح اس پر پردہ ڈالا گیا بہت سی آگاہی رکھتا ہوں کہ کس طرح ایک انکوائری آفیسر نے بہاولپور جاتے ہی اعلانیہ طور پر کہا کہ وہ معاملے پر صرف مٹی ڈالنے آئے ہیں اور پھر انہوں نے ٹوکرے بھر بھر کر مٹی ڈال بھی دی۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر انجینئر تھے اور انجینئروں کا ایک اصول ہوتا ہے کہ کھاتے ہیں تو لگاتے اور تقسیم بھی کرتے ہیں۔
انجینئرنگ کے تمام شعبوں میں رشوت کو کمیشن کا برقعہ تو انگریز دور میں قیام پاکستان سے قبل ہی پہنا دیا گیا تھا اور جس طرح جنرل ضیاء الحق نے رشوت کو فروغ دینے کے بعد کرنسی نوٹوں پر لکھوا دیا تھا ۔ "رزق حلال عین عبادت ہے” اسی طرح انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ لوگوں نے کمیشن کو رزق حلال کا درجہ دے رکھا ہے لہٰذا کام کا کام اور ’’عبادت‘‘ کی ’’عبادت‘‘ شعبہ انجینئرنگ میں ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب بھی کھاؤ بانٹو اور تھوڑا سا لگا بھی دو کی تھیوری پر عمل پیرا ہو کر دنیاوی زندگی بھی انتہائی "کامیابی‘‘ سے گزار رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے منہ سے ایک مقولہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔’’ آگے کس نے دیکھا ہے” آج تک کون یہ بتانے واپس آیا کہ آگے کیا معاملہ ہوا ۔ نعوذ با اللہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ کاش ایسا سوچنے والے ترجمے کے ساتھ قرآن مجید ہی پڑھ لیتے سب آشکار ہو جاتا۔
صحافتی زندگی میں ایسے ایسے واقعات سے آگاہ اور مشاہدات سے گزرا ہوں کہ عینی شاہد بھی ہوں مگر لکھ نہیں سکتا۔ جن دنوں زکریا یونیورسٹی کے علی رضا قریشی نامی بدقماش کا سکینڈل منظر عام پر آیا تو کچھ مزید نام بھی سامنے آنے لگے جنہیں دانستہ طور پر اشاعت سے روک لیا گیا کہ بات پردہ میں رہے مگر ہر طرح سے پردہ رکھنے کے باوجود وہ خاندان بدنامی کے خوف سے شہر ہی چھوڑ گئے اللہ کا شکر ہے کہ بہت کچھ جاننے کے باوجود اللہ نے ہمت دی کہ برقرار رہا۔
نوائے وقت ملتان کی ایڈیٹری کے ایام میں مجھے ڈاکٹر اختر علی ملک کالرو نے کہا کہ نوائے وقت کے میگزین میں میرا انٹرویو شائع کرا دیں میں نے این ایف سی یونیورسٹی میں دس سال میں ریکارڈ کام کئے ہیں۔ بار بار اصرار پر میں توقیر بخاری اور میگزین ایڈیٹر گلناز نواب صاحبہ کے ہمراہ زندگی میں پہلی بار دو سال قبل این ایف سی یونیورسٹی گیا۔ 2 گھنٹے ڈاکٹر صاحب کی بے ربط اور غیر علمی باتیں سنیں۔ (جاری ہے)
فیس بک کمینٹ