(گزشتہ سے پیوستہ )
اپنے سکول کے زمانے کے پرنسپل کا نام تو مجھے یاد نہیں مگر میں انہیں کبھی بھی بھلا نہ پایا اور وہ میری یادوں میں زندہ ہیں ۔ میں کلاس روم کے باہر برآمدے سے گزر رہا تھا۔ مجھے روکا اور کہنے لگے یہ آپ کے بوٹوں کے تسموں کی پتیاں برابر کیوں نہیں؟ پھولوں کی پتیاں تو ایک جیسی ہوتی ہیں تو یہ آپ کے تسموں کی دونوں پتیاں بڑی چھوٹی کیوں ہیں؟
پھر انہوں نے ایک بینچ پر اپنا پاؤں رکھا اپنے بوٹ کے تسمے کھول کر دوبارہ بند کیے اور فرمانے لگے دیکھو اس کی پتیاں برابر ہیں چلو آپ بھی اس طرح تسمے باندھو۔ کیا ہی باریک بین اور نفیس اساتذہ کرام تھے ۔
ہماری کلاس میں تین جڑواں بھائی تھے جن کی شکلیں ایک جیسی تھیں ویسے جڑواں کا لفظ دو کیلئے استعمال ہوتا ہے اور اگر تین بچے اکٹھے پیدا ہوں تو ان کے لیے اردو میں کون سا لفظ ہے، میرے علم میں نہیں اور اپنی کم علمی کی معافی چاہتا ہوں تو ہوا یوں کہ چھٹی جماعت میں داخلے کیلئے ٹیسٹ ہوا تو ان تینوں میں سے دو پاس ہوگئے اور ایک فیل ہو گیا جو پاس ہوئے انہیں داخل کر لیا گیا اور جو فیل ہوا اس کا دوبارہ امتحان لیا گیا مگر وہ پھر فیل ہوگیا ۔ اگلی صبح ہمارے سکول کے وہی پرنسپل صاحب اسمبلی میں آئے انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سکول میں ایک ہی شکل اور ایک ہی عمر کے تین بھائی ہیں دو بھائی داخل ہو گئے ہیں اور تیسرا فیل ہو گیا ہے میں تیسرے بھائی کو داخل کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے سکول کی نعت خوانی اور قومی ترانہ پڑھنے کی ان تینوں ہم شکل بھائیوں پر مشتمل منفرد ٹیم تیار ہوجائے گی جو ہمارے سکول کی بہترین شناخت ہوگی اس لئے اس وقت اسمبلی میں سارے سکول کے طلبہ اور تمام اساتذہ موجود ہیں کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں ان دونوں کے تیسرے بھائی کو بھی داخلہ دے دوں کیونکہ اس کا میرٹ نہیں بنتا اس لیے مجھے سارے سٹاف اور تمام طالب علموں کی اجازت درکار ہے۔
مجھے یاد ہے کہ تمام طالب علموں نے ہاتھ کھڑے کر دیئے اور تمام اساتذہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے اس طرح اس طالبعلم جس کا نام صغیر تھا، کو داخل کر لیا گیا کیا ہی عظیم اساتذہ تھے اور کیا ہی عظیم سربراہ۔ آج کے تعلیمی اداروں کے سربراہوں میں اکثریت تو ان عظیم اساتذہ کی جوتیوں کے تلوئوں کی گرد کے برابر بھی نہیں۔
پنجاب یونیورسٹی سے میں نے ابلاغیات میں ایم اے کرکے روزنامہ جنگ میں رپورٹنگ سیکشن جوائن کیا جناب خوشنود علی خان کی شاگردی میں ایجوکیشن کی بیٹ رپورٹنگ شروع کی اس سے قبل میں روزنامہ جنگ کے الیکشن سیل میں روزنامہ پاکستان ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر جناب شوکت اشفاق صاحب کے سایہ شفقت میں تھا ان دنوں روزنامہ جنگ لاہور میں میگزین سیکشن کے انچارج تھے ایک دن مجھے ڈاکٹر مسکین علی حجازی صاحب ( اللہ انہیں غریق رحمت کرے) ہمارے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ تھے، بہت ہی سادہ و شفیق انسان تھے ڈاکٹر حجازی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ کل 11 بجے اولڈ کیمپس پنجاب یونیورسٹی آ جانا تمہیں وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر منیر الدین چغتائی صاحب سے ملوانا ہے ۔ ڈاکٹر رفیق احمد صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر منیر الدین چغتائی وائس چانسلر تعینات ہوئے تھے میں اپنی عادت کے برخلاف عین وقت پر 11 بجے وی سی آفس کے باہر پہنچا تو ڈاکٹر مسکین علی حجازی برآمدے میں کھڑے تھے مجھے لے کر ڈاکٹر چغتائی صاحب کے کمرے میں گئے ڈاکٹر چغتائی نے میری طرف دیکھا پھر ڈاکٹر حجازی کی طرف دیکھا اور خاموش ہو گئے ڈاکٹر حجازی نے کہا چغتائی صاحب آپ کھل کر بات کریں انشاءاللہ آپ مطمئن ہوں گے۔ ڈاکٹر چغتائی کہنے لگے میرا ایک سوال ہے لاہور میں دو بڑی یونیورسٹیاں ہیں پنجاب یونیورسٹی اور انجینئرنگ یونیورسٹی میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تمام اخبارات میں پنجاب یونیورسٹی کی خبر ہی نظر آتی ہیں حالانکہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے حالات پنجاب یونیورسٹی کے مقابلے میں بہت زیادہ خراب ہیں مگر اس کی طرف اخبارات کا دھیان ہی نہیں۔ تب صرف اخبارات ہی ہوا کرتے تھے ۔ الیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کا رواج نہ تھا۔ میں نے ڈاکٹر چغتائی صاحب کے سوال پر جواب دیا ۔ سر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس مال روڈ پر ہے جبکہ انجینئرنگ یونیورسٹی مغل پورہ ہر رپورٹر مال روڈ کے ارد گرد ہی پھرتا رہتا ہے اور اخبارات کے دفاتر بھی زیادہ تر ادھر ہی ہیں رپورٹر ضلع کچہری، کارپوریشن اور سیکرٹریٹ سے نکلتے ہیں اور اولڈ کیمپس کا چکر لگاتے ہی انہیں کچھ نہ کچھ مواد مل ہی جاتا ہے۔ آپ پنجاب یونیورسٹی کا شعبہ امتحانات اور ایڈمنسٹریشن نیو کیمپس شفٹ کر لیں تو راوی چین ہی لکھے گا ڈاکٹر چغتائی اپنی کرسی سے اٹھے اور مجھے گلے لگا کر کہنے لگے آپ نے تو ایک ہی جملے میں کمال حل بتا دیا۔ پھر دو ہی سالوں میں وی سی آفس، ایڈمنسٹریشن اور شعبہ امتحانات نیو کیمپس منتقل ہوگئے اور روای چین لکھنے لگا جو آج تک لکھ رہا ہے ( جاری ہے)
فیس بک کمینٹ