مغربی ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق سعودی عرب ،اسرائیل، بھارت اورامریکہ میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ یہ چاروں ممالک گزشتہ چند ما ہ کے دوران فو جی اور معاشی تعاون کے شعبوں میں اتحادی بنتے نظرآرہےہیں ۔یہ سب اسرائیل کی انتہائی محتاط سفارت کاری کی بدولت ممکن ہورہا ہے۔
اسرائیل کی حکومت اور دانش ور اس بات سے خاصے مطمئن نظر آتے ہیں کہ ایران کے خلاف عالمیٰ محاذ کی قیادت سعودی عرب نے بخوشی سنبھال لی ہے۔ یہی نہیں سعودی عرب کے مقتدرحلقے اپنے اس نئے کردار میں سیاسی ،معاشی اور فوجی قیمت چکانے کے لیے مکمل طور پر سرگرم ہیں ۔
آج جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو اسرائیل، سعودی عرب کو اپنا بہترین اتحادی مان رہا ہے۔ جی ہاں ، امریکہ سے بھی بڑھ کر۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے ماضی میں اسرائیل کو ایران کے خلاف جن انتہائی اقدامات سے باز رکھا آج اسرئیل کی ان خواہشات کی تکمیل کے لئے سعودی عرب پیش پیش ہے۔
سعودی عرب حزب اللہ کے خلاف جنگ میں مرکزی کردار ادا کر رہاہے۔اورموجودہ سعودی حکمرانوں نے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کو بھی حزب اللہ کے خلاف اقدامات پر ضمانت کے بعد دوبارہ وزیر اعظم بننے کی اجازت دے دی ہے۔ ماضی میں لبنان کے وزیراعظم سعدالحریری حزب اللہ کی تنظیم کے خلاف عملی اقدامات سے گریز کرتےرہے ہیں ۔
اسرائیل کے حکمران اس بات سے بھی مطمئن ہیں کہ سعودی عرب مشرق وسطی میں ایران کے اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے بھر پور فوجی اقدامات کررہاہے۔ برطانیہ کی ہاورڈ یونیورسٹی کی محتاط تحقیق کے مطابق سعودی عرب روزانہ دوکر وڑ ڈالر جنگ پر خرچ کررہا ہے۔اسی ادارے کی ایک رپوٹ میں یہ بھی بتایا گیاہےکہ فوجی بجٹ کے اعتبار سے سعودی عرب دنیاکی چوتھی بڑی طاقت بن چکا ہے۔
سعودی عرب نے نہ صرف یمن کے خلاف بھی جنگ شروع کر رکھی ہے۔بلکہ روزمرہ کی ضروری اشیاءکی رسد کے تمام راستے بھی مکمل طور پر بند کئے جاچکے ہیں۔ گز شتہ ڈھائی برسوں میں سعودی جہازوں کے فضائی حملوں نے یمن میں حوثی جنگجوؤ ں کے تمام ٹھکانےتباہ کرنے کا دعویٰ کیاہے۔ مگر عالمی ادارے ان فضائی حملوں کی ہولناک منطر کشی کر رہے ہیں۔ ایک مستند رپورٹ کے مطابق امسال یمن میں پچاس ہزار سے زائد بچوں کی اموات ہو چکی ہیں اور روزانہ لگ بھگ 150 بچے بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ہیضہ سے نو لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں جو کہ انسانی تاریخ میں سب سے بڑا بحران ہے۔
سفارتی سطح پر قطر کے خلاف عرب ممالک کا اتحاد بھی مشرق وسطی ٰ میں ایران کو تنہاکرنے کی ایک سعی ہے۔اس بات سے قطع نظر کہ اس بحران سے سعودی عرب مطلوبہ اہداف حاصل کر سکا یانہیں ،قطر کے خلاف عرب ممالک کا اتحاد امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے سعودی عرب کے دورہ کے بعد سب سے بڑی سفارتی پیش رفت ہے۔
گزشتہ دنوں اسرائیلی دفاعی افواج کے سیکرٹری نے ایک سعودی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل ایران سے متعلق انٹیلیجنس کے لئے سعودی عرب سے معلومات کے تبادلے میں مکمل تعاون کرے گا۔
ایک وہ وقت تھا۔جب سعودی عرب میں اسرائیل کو یہودی ریاست کہا جاتا تھا اور سعودی ابلاغ میں اسرائیل کا نام شجرممنوعہ سےکم نہ تھا ۔مگر آج سعودی عرب کے سرکاری اخبارات میں اسرئیل کے متعلق خبریں معمول بنتی جا رہی ہیں ۔ ان اخبارات میں آج فلسطین کی آزادی کی بات نہیں ہوتی بلکہ فلسطین میں امن کی کوششوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کی آزادی کے لئے برسر پیکار تنظیم حزب اللہ کو امن کی راہ میں رکاوٹ کہا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ دفاعی روابط اور انٹیلیجنس میں تعاون کو بہرحال آج بھی خفیہ رکھا جا رہا ہے۔
آج سے چند سال پیشتر یورپی اخبار ات میں شائع ہونے والی خبریں مضحکہ خیزدکھائی دیتی تھیں مگر امریکہ ،اسرائیل اور بھارت سے بڑھتی غیرمعمولی سفارت کا ری نے سعودی حکومت کے اقدامات پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھائے ہیں ۔
یاد رہے اسرایئل سے سعودی روابط کا آغاز 2008 میں شاہ عبداللہ نے کیا ۔ مشرق وسطیٰ کے بعض مبصرین کا خیال ہے کہ 2012 میں پاکستان کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے اسرایئل کے ساتھ شاہ عبداللہ کی پیغام رسانی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔لیکن یہ سب کچھ جو پہلے خفیہ انداز میں ہو رہا تھا اب کھلے عام کیا جا رہا ہے ۔ اس کے نتائج عالمی امن کے لئے کس قدر تباہ کن ہوںگے یہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔
22نومبر کو اسرئیل کے اخبار یروشلم پوسٹ کی خبر کے مطابق سعودی عرب کے دو سابق وزراء نے پیرس میں یہودیوں کی عبادت گاہ میں حاضری دی۔ اخبار کے مطابق مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جرنل ڈاکٹر محمد عبدالکریم العیسیٰ اور سعودی عرب کے فرانس میں سفیر خالد بن محمد فرانس کے شہر پیرس میں یہودی عبادت گاہ میں حاضر ہوئے اور اسرائیل کے سرکاری عہدیداروں سے خفیہ ملاقات کی۔اخبار کا دعویٰ ہے ۔کہ امریکہ میں سعودی سفیر بھی امریکہ ہی میں ایک یہودی عبادت گا پرحاضری دینا چاہتے ہیں ۔یاد رہے امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر شاہ سلمان کے صاحبزادے ہیں ۔خالد بن سلمان کی اسرایئل کے اعلی عہدہ داروں سے ملاقات ابھی طے نہیں مگر ماضی میں کوئی بھی اخبار اس طرح کی بے سروپا خبر شائع کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔یروشلم پوسٹ کا دعویٰ کہ فرانس میں سعودی سفیر خالد بن محمد(جو کہ سابق وزیر تعلیم بھی رہے ہیں) نے اپنی ملاقات میں اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ سعودی سکولوں کی نصابی کتب کو یہودیوں کے خلاف مواد سے پاک کئے جانے کے امکانات پر بھی غور ہو سکتا ہے۔ٹھیک چالیس سال قبل نومبر1977 میں مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کی پارلیمنٹ کنسٹ سے خطاب کیا تو بہت سی آنکھیں بے یقینی کی کیفیت سے گزر رہی تھیں۔ سعودی فرمانروا کے اسرائیل سے براہ راست مصافحہ کے لئے مسافت ابھی طویل ہے مگر یہودی اخبار کے دعویٰ کی صحت سے قطع نظر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربتیں تاریخ کو ایک نئے دھارے پر لے جارہی ہیں۔اسرائیل کے حکومتی حلقوں میں اطمینان بلاوجہ نہیں ۔سعودی دارالحکومت ریاض سے یمن کی جانب داغا جانے والا ہر بیلسٹک میزائل تل ابیب کے لئے باعث مسرت ہے۔لبنان کے وزرعظم سعودی عرب بیٹھ کر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں تو اس کا جشن یروشلم میں منایاجاتا ہے۔قطر کی معیشت پر بڑھتا بوجھ یقینا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو اسرائیل کی نظروں میں سرخرو کر رہا ہے۔مشرق وسطیٰ میں جنگ کا طبل ابھی بجانہیں ۔مگر یہ طے ہوچکاکہ سعودی عرب کی جنگی حکمت عملی سے حاصل ہونے والی تمام ثمرات اسرائیل کی جھولی میں جا گریں گے۔سعودی عرب اور اسرائیل کے ایک مشترکہ دشمن کی موجودگی میں فلسطین کامسئلہ نظر وں سے اوجھل ہونا بعید از قیاس نہیں ہے اور یہ بہر حال ایک المیہ ہو گا ۔
فیس بک کمینٹ