اصحاب دھرنا سے معاہدہ طے پا گیا۔ تین ہفتے پہلے لگایا گیا تنبو قنات سمیٹا جا رہا ہے۔ فیض آباد چوک میں ٹریفک رواں ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ سات لاشے اسی چوک پر کہیں بے آواز اور بے نشان پرچھائیں کی طرح منڈلاتے رہیں گے۔ ان میں سے ایک کو پتھر مار کر ہلاک کیا گیا اور چھ کو نامعلوم گولیوں سے موت نصیب ہوئی۔ صدیوں سے یہی کھیل جاری ہے۔ فاتحین کے لشکر آگے بڑھ جاتے ہیں، مرنے والوں کے استخواں مٹی میں مل جاتے ہیں۔ ادھر حکومت کی ساکھ کا جنازہ نکل گیا ہے۔ پارلیمینٹ دور نہیں تھی مگر فیض آباد چوک میں خانقاہوں اور سجادہ نشینوں کا سکہ چلایا گیا۔ اس معاہدے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جامع تبصرہ کیا ہے جو ہمارے دائرہ لب کشائی میں نہیں آتا۔ یہ سوال بھی پوچھا ہے کہ عدلیہ کو ننگی گالیوں سے نوازنے والوں کے معافی مانگنے کی شق معاہدے میں کیوں شامل نہیں؟ حضور بیس دن تک گالیوں کی باڑھ برس رہی تھی۔ ہراول اور عقب میں، یمین اور یسار میں، ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار، عمران خان، شیخ رشید اور حامد میر تو بڑے لوگ ہیں۔ اپنا حساب بے باق کرنے کے وسائل رکھتے ہیں۔ خاک نشینوں کی درخواست یہ ہے کہ کم از کم قوم کی ان بیٹیوں ہی سے معافی مانگ لی جائے جنہوں نے نرسنگ کی خدمت کو وسیلہ رزق بنا رکھا ہے۔ احسان فراموش گروہ کے بچوں کی پیدائش سے لے کر مرتے ہوئے بزرگوں تک سب کی خدمت کرتی ہیں۔ تقدیس کے سنگھاسن پہ براجمان ہونے والے عمران خان کو گالی دینا چاہتے تھے، گالی کی آنچ شوکت خانم ہسپتال سے ہوتی ہوئی غریب نرسوں پہ جا ٹھہری۔ جاننا چاہئیے کہ اگر غیرت اور حرمت کے قضیے سربازار چکائے جائیں گے تو ایسی اخلاق باختگی ہی حاصل ہو گی۔ پانچ برس پہلے ایک نیک ہستی فروری 2012ءمیں دھرنا لے کر ڈی چوک پہنچی تھی اور اپنے ورود مسعود کے ساتھ ہی انگلی لہرا کر صدر، وزیر اعظم اور وزرا کو برطرف کرنے کا حکم سنا دیا تھا۔ اب فیض آباد میں اخباری نمائندوں کو پریس کانفرنس کی لائیو کوریج نہ دینے پر یرغمالی بنانے کی دھمکی دی گئی ہے۔ کرکٹ تو خیر کافروں کا ایجاد کردہ کھیل ہے، کیا ٹیلی ویژن پر زندہ رونمائی کا کھیل موضع بالکسر ضلع چکوال میں ایجاد کیا گیا تھا۔
دھرنا تو ہماری تاریخ میں “اٹھائے نہ بنے” کی تضمین ہو کر رہ گیا ہے لیکن اس دوران بہت سے خطرناک رجحانات نمودار ہوئے ہیں۔ اب فوری فساد خلق کا اندیشہ نہیں رہا تو نشاندہی کا موقع ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران میڈیا پر ایسی بحث ہوتی رہی جس میں دو واضح فریق نظر آئے۔ ایک کو اسٹیبلشمنٹ اور دوسرے کو سیاست دان کا نام دیا جا رہا ہے۔ مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان کے سیاہ و سفید پر اختیار کی کشمکش میں یہ دو فریق کارفرما ہیں۔ ایک گروہ انگلی اٹھا کے سب مسائل اور کوتاہیوں کا ذمہ دار اسٹیبلیشمنٹ کو ٹھہراتا ہے تو دوسرا گروہ سیاست دان نامی مخلوق کو نااہل اور بدعنوان قرار دیتا ہے۔ یہ نہایت خطرناک سوچ ہے۔ پاکستان ایک آزاد ملک ہے جو ایک پارلیمانی دستور کے تابع ہے۔ دستور میں تین آئینی ادارے بیان کیے گئے ہیں جب کہ دفاعی خدمات کا دائرہ کار آئین کی شق 245 میں متعین کیا گیا ہے۔ آئین میں اسٹیبلیشمنٹ نام کی کوئی اصطلاح موجود نہیں۔ عوام کے منتخب نمائندے سیاست دان ہیں۔ پاکستان سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا۔ اس ملک کو کسی نے فتح نہیں کیا اور یہاں کے رہنے والے کسی کی رعایا نہیں ہیں۔ دوسری طرف فوج ہماری ریاست کا اہم حصہ ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اپنی فوج کا احترام کرتا ہے۔ فوج کو اسٹیبلیشمنٹ کے مترادف قرار دینا غیر آئینی بھی ہے اور وطن دشمنی بھی۔ اسٹیبلشمنٹ ایک منفی اصطلاح ہے جو علم سیاسیات میں کوئی پچاس برس پہلے متعارف ہوئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ سے ایک ایسا چھوٹا گروہ مراد لیا جاتا ہے جو اپنے استحصالی مفادات کے لیے کل پر تسلط قائم کر لیتا ہے۔ پاکستان کی فوج کو اسٹیبلشمنٹ قرار دینا نہایت غیرذمہ دار رویہ ہے۔ آئین کے تابع جمہوری بندوبست میں اسٹیبلیشمنٹ کے تصور یا وجود کی کوئی گنجائش نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ مسلح افواج سے ریٹائر ہونے والے کچھ افراد عسکری تجزیہ کار کے طور پہ میڈیا پر آن بیٹھے ہیں۔ آئین کے مطابق فوج سے ریٹائر ہونے والے ہر اہلکار کو سیاست میں حصہ لینے اور اجتماعی معاملات میں شرکت کا پورا حق حاصل ہے۔ مشکل وہاں پیش آتی ہے جب ایک ان کہی تمثیل میں گویا سیاسی قوتوں اور فوج کو ناجائز طور پہ اقتدار کا متحارب فریق قرار دیا جاتا ہے اور پھر نام نہاد دفاعی تجزیہ کار خود کو گویا فوج کا نمائندہ قرار دے کر غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں۔ فوج کا منصب ملکی سلامتی کا تحفظ ہے۔ اسی طرح سیاست دان کسی جرائم پیشہ گروہ کا نام نہیں۔ پاکستان کے بانی قائد اعظم ایک سیاست دان تھے۔ دوسرے یہ کہ سیاسی مکالمے میں شریک ہر شہری سیاست دان کہلاتا ہے۔ سیاست اور سیاست دان کو مطعون کرنا جمہوریت کی نفی ہے۔ سیاست دان قوم کے محسن ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا چاہئیے اور ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہئیے۔ دقت یہ ہے کہ ایک مخصوص ذہن نے بار بار کی غیر آئینی مداخلت کو گویا جائز معاملہ سمجھ لیا ہے۔ ایسے حضرات میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا اسم گرامی نمایاں ہے۔ تاریخی طور پہ ایوب خان، یحیی خان اور ضیا الحق اقتدار سے ہٹنے کے بعد سیاسی منظر پر موجود نہیں تھے۔ پرویز مشرف کا معاملہ استثنائی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی فوج کے احترام کو سب سے زیادہ نقصان محترم پرویز مشرف نے پہنچایا ہے۔ انہوں نے ملک کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ 18 اگست 2008ءکے بعد سے پرویز مشرف نے جہاں لب کشائی کی ہے، پاکستان اور پاکستان کی افواج کا احترام مجروح کیا ہے۔ اپنے ماضی کو جواز بخشنے کے لئے قوم کا مستقبل دھندلاتے ہیں۔ دو روز قبل لندن میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر سپریم کورٹ نے مداخلت نہ کی تو مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پھر سے برسر اقتدار آ جائیں گی۔ گویا ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہوتے ہوئے پرویز مشرف تسلیم کر رہے ہیں کہ سیاست اور انتخابی میدان میں وہ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو…. اس گھڑی کی آمد کی، آگہی سے ڈرتے ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے عوام ان سیاسی جماعتوں پہ اعتماد کرتے ہیں تو سپریم کورٹ اس دستوری عمل میں مداخلت کیوں کرے۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس کے سربراہ کو آپ نے 2007 میں دو دفعہ گرفتار کیا۔ پرویز مشرف کے کندھوں پر کون سے الوہی کبوتروں نے سایہ کر رکھا ہے کہ ان کے فرمودات کی تعمیل کی جائے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے اپنی مشہور زمانہ تقریر میں امریکی ریاست سے مطالبہ کیا تھا کہ “جو کاغذ پر کہتے ہو، کم از کم اس کا احترام کرو”۔ پاکستان کے رہنے والے بھی عرض پرداز ہیں کہ قوم کا احترام کتاب دستور کے لفظی اور معنوی احترام سے وابستہ ہے۔ پرویز مشرف کہتے ہیں کہ ملک میں چیک اور بیلنس ہونا چاہئیے۔ شاید جنرل مشرف نے آئین نہیں پڑھا اور نہ جمہوری بندوبست کے بنیادی خدوخال سمجھے ہیں۔ ہماری ریاست کے تین آئینی ادارے مقننہ، حکومت اور عدلیہ ہیں۔ دستور میں ان تینوں اداروں کے اختیار اور احتساب کا توازن موجود ہے۔ پرویز مشرف یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں عوام کے حق حکمرانی پہ طالع آزماؤں کے احتساب کی حد لگائی جائے۔ ایسا کرنے سے عوام پر چیک (پابندی) لگتا ہے اور نامعلوم افراد کا بیلنس بڑھتا ہے۔ ایسے بندوبست کی جمہوریت میں گنجائش نہیں۔ پرویز مشرف اپنا کارنامہ بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں تقرریاں میرٹ پہ ہوئیں تھیں۔ بجا فرمایا پیرومرشد، سب تقرریاں میرٹ پہ تھیں۔ سوائے ایک تقرری کے…. اور یہ تقرری صدر پاکستان کے منصب پر ہوئی تھی۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ