خادم اعلیٰ پنجاب کا وہ مطالبہ جو چند ہفتے قبل کنونشن سنٹر اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم نواز شریف سے بر سر ِ عام اور دن دہاڑے کیا گیا تھابالاآخر چھبیس اور ستائیس نومبر 2017ءکی درمیانی شب کی تاریکی میں اِسی کنونشن سنٹر سے چند کلو میٹر دور فیض آباد انٹرچینج کے مقام پر 22روز کے دھرنے کے بعد منظور کر لیا گیا۔ اِس مطالبے کی منظوری کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔مبینہ طور پر اٹھارہ ہزار یونیفارم فورس کی 22دن تک تعیناتی اور اُن کے آنے جانے کھانے پینے کا خرچہ کروڑوں میں۔را ولپنڈی اسلام آباد کے لاکھوں لوگوں کی دن رات کی ذہنی وجسمانی اذیت، منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے کرنے کا عذاب اور پٹرول پر اُٹھنے والے کروڑوں روپے کے اضافی اخراجات کے علاوہ شروع شروع میں صرف فیض آباد پُل پر بیٹھے ہوئے چند درجن افراد کے تحفظ کی خاطر کئی کئی کلو میٹر کے دائرے میں کینٹینر لگائے جانے کے نتیجے میں دوردور تک راستوں کی بندش کا واضح مطلب تو یہی تھا کہ صبح سے شام تک دھرنے کی چکی میں پستی ہوئی خلق ِ خدا کی آہ وبقا سے کچھ اِس قسم کا پریشر بنے کہ جو وزیر قانون کے استعفیٰ کے ساتھ ساتھ عباسی حکومت کی ہزیمت ، شرمندگی اور ناکامی پر منتج ہو۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اِس دھرنے نے موجودہ گورنمنٹ کی ”رِٹ“یعنی قوت ِ نافذہ کو بیچ بازارننگا کرنے کے ساتھ ساتھ شریف خاندان میں پیدا ہوچکی دوریوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔سوال کئے جا رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعدوہ کون صاحب تھے کہ جو فطری اور واقعاتی طور پر وزارت ِ عظمیٰ کے لیے موزوں ترین امید وار تھے اور انہیں وزیر اعظم کیوں نہ بنایا گیایا کس سے بھرے اجلاس میں پارٹی صدارت کا وعدہ کیا گیاتھامگر بعد میں اقرار ہوا اور نہ ہی قرار۔وہ کیا حالات تھے کہ جن کے سبب خادم اعلیٰ پنجاب اور اُن کے صاحبزادے کو قومی اسمبلی کے حلقہ 120 کی انتخابی مہم سے علیحدہ کرنے کے بعد انہیں عملی طور پر جلا وطن کر دیا گیا یااُس پس منظر کو دیکھنے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی جاتی کہ جب کبھی لاہور میں میاں نواز شریف نے اپنی صاحبزادی مریم کی کاوشوں کا ذکر کیا تو انہیں جواباً وہاں ”موجود“ پائے گئے حاضرین کی جانب سے ہراساں کر دینے والے ”حمزہ حمزہ“کے نعروں کا سامنا کس لیے کرنا پڑاہے۔حق ِ حاکمیت کو اگر ”خاندانی اثاثہ جات“ میں شامل کرلیا جائے تو بجا طور پر یہ وجہہ نزاع کہی جا سکتی ہے چاہے کسی کی خاندانی پہچان”اتفاق“ ہی کیوں نہ رہاہو۔مشاہدہ اور تجربہ دونوں یہی کہتے ہیں کہ بھائیوں اور بہنوں کے رشتوں میں پہلی دراڑ اُن کی شادیوں کے بعد آتی ہے اور دوسری جب اُن کے بچے پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں ۔والدین کی عملی اور موثر موجودگی اگرچہ اِن دراڑوں کی لیپا پوتی کرتی رہتی ہے مگرجدائی کا فیصلہ کن موڑ تبھی آتا ہے جب بچوں کے بچے بھی جوان ہونے لگتے ہیں اور والدین اپنی جوانی سمیت ہئیت نافذہ کے سبھی جوہر یعنی خاندانی حاکمیت، فیصلہ سازی کی صلاحیت اور اثر انگیزی کھو چکے ہوتے ہیں اور انہیں روزمرہ کے فیصلوں کے لیے بھی اپنی اپنی ”مریم“ اور اپنے اپنے ”حمزہ“ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔
سوال تو یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ پنجاب کے خادم اعلیٰ کا مطالبہ تو اپنے برادر ِ بزرگ سے تھا کہ کابینہ کے اُس وزیر سے استعفیٰ لیاجائے کہ جس کے سبب امت مسلمہ کے غیر متزلزل عقیدے پر حرف آنے کا امکان پیدا ہوگیا تھامگر یہ مطالبہ عمل درآ مد کے واسطے پہلے علامہ اشرف جلالی اور بعد ازاں مولانا خادم حسین رضوی کو کیوں سونپنا پڑا کہ وہ فیض آباد کوعباسی حکومت کے لیے ”پانی پت“ بنائے رکھیں۔اِس امر واقعہ کا جواب ابھی شاید کوئی بھی دینا پسند نہ کر ے لیکن چوبیس روزہ دھرنے کے ایک ایک دن کی روداد کا کیا کریں گے جو صاف صاف بتا رہی ہے کہ کس کے ساتھ کیا ہوا یا کس کے ساتھ کس کس نے کیا کچھ کیا۔دھرنے کے پہلے سات آٹھ روز کے دوران تو میڈیا نے پیمرا کی زیر ہدایت عمومی طور پراِس کا بلیک آؤ ٹ کئے رکھا اور عوام کا مقدرصرف خواری رہی مگر اُس کے بعد دھیرے دھیرے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں نے جھرجھری لی اور خلق ِ خدا پر بیتنے والے مصائب کو آشکار کرنا شروع کیا۔مگر صوبائی اور وفاقی، دونوں حکومتوں نے اسے اِس طرح لیا کہ جیسے کچھ ہو اہی نہیں تاوقتیکہ اِس کا نوٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نہ لے لیا۔دھرنا دینے یا دلانے والوں نے فیض آباد انٹرچینج کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ وفاقی دارلحکومت اور صوبہ پنجاب کی حد پرواقع ہونے کے سبب تزویراتی لحاظ سے اسے No mans landسمجھا جانا اگرچہ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کے حق میں جاتا تھا مگر پھر بھی مختلف نوعیت کی پولیس کی تعیناتی کے بعد اطمینان کرلیا گیا کہ سب ٹھیک ہے، دھرنے والوں پر کوئی آنچ نہیں آ سکتی، خلق ِ خدا خوار ہوتی ہے تو ہوتی پھرے۔ وفاقی حکومت اپنے تئیں تسلی میں تھی کہ چنددرجن مولوی صاحبان کب تک یہاں بیٹھیں گے اور صوبائی حکومت کو اِس لیے پرواہ نہیں تھی کہ مطالبہ وفاقی حکومت سے تھا اور نشانہ بھی وفاقی وزیر تھا۔حیرت اِس بات پر ہے کہ وزارت داخلہ کو خبر ہی نہیں تھی کہ اُن کے پاس کتنا پتھر اور اسلحہ موجود ہے یا آپریشن کی صورت میں کس کس مدرسے سے کتنے لوگ باہر نکل کر نہ صرف فیض آباد پر تعینات پو لیس کو پیچھے سے آن گھیریں گے بلکہ پورے ملک میں امن امان کی صورت حال فیض آباد سے بھی بدتر ہو جائے گی۔
دھرنا تو گذر چکا مگر عوام سراپا سوال ہیں کہ فیض آباد کے خیمہ نشینوں کے پاس اتنی وافر مقدار میں پتھر کس نے پہنچنے دیا ، اُن کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا اور سیف سٹی پرجیکٹ کے کیمروں کی کیبل کیسے کٹی۔نیزاگر اسلحے کے بارے میں وزارت ِ داخلہ کو معلوم تھا تو پھر آپریشن کو اس بہانے موقوف کرنے کا جواز کیا محض اپنی انٹلیجنس ایجنسیوں کو مطعون کرنے کے لیے بعد ازاں گھڑا گیا۔ سوال تو یہ بھی سامنے آ رہے ہیں کہ راولپنڈی میں کسی ایسے وزیر کے گھر پر حملہ کیوں نہیں ہوتا کہ جو حکومت میں ہے اور ہوتا ہے تو سابقہ وزیر ِ داخلہ کے گھر کہ جس کا موجودہ صورت حال سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔موجودہ وزیر داخلہ اگر سچ کہہ رہے ہیں تو کیا دھرنے والے وہاں صرف ”چار لاشوں “کا سامان پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔اُدھر لاہور اور فیصل آباد میں صورت ِ احوال اِس کے برعکس کہ حملہ ہوتا ہے تو صوبائی وزیر بلال یٰسین کے گھر پر کہ جو بیگم کلثوم نواز شریف کے قریبی عزیزوں میں سے ہیں یا رانا ثنا اللہ کے ڈیرے پر کہ جو اِن دنوں صوبائی حکومت میں ہوتے ہوئے بھی کچھ دوری پر جا چکے ہیں۔سوال تو یہ بھی کیا جارہا ہے کہ اِس سارے قضئیے میں داماد جی کا رول کیا تھا اور کس کے لیے تھا۔ستائیس نومبر کی صبح سویرے ظاہر کئے گئے معاہدے کے چھ نکات ابھی تک صاف صاف بتانے سے قاصر ہیں کہ کس کو کیا کچھ ملا۔ملا بھی یا نہیں۔کون کون آگے بڑھا اور کون کون پیچھے ہٹا۔ عباسی حکومت بضد تھی کہ وزیر قانون استعفیٰ نہیں دے گا مگر دے دیا گیا۔دھرنے والے کہتے تھے کہ استعفیٰ پہلے اور باقی مطالبات اُس کے بعد شروع ہوں گے مگر وہ بھی محض استعفیٰ کے بعد ہی چلتے بنے۔اسلام آباد ہائی کورٹ اپنی جگہ حیران کہ اِن سب کو گھیر گھار کر جوابدہی کی سطح پر عدالت ہی لائی اور وہ پیشی سے پہلے ہی یہ جا وہ جا۔ مقبوضہ فیض آباد چوک کی واگزاری اگر چھ لاشوں سے ہی ممکن تھی تو اُن دو بچوں کا کیا قصور جو محض ہسپتال تک پہنچنے کی تگ ودو میں جاں سے گزر گئے۔اگر قصور وار کے خلاف کوئی فتویٰ نہ دینے کے معاہدے سے کالی کملی والے کی ناموس کی پاسداری ہو سکتی ہے تو یہ دھرنے والے ہی بہتر جان سکتے ہیں کہ کیا وہ ایسی کوئی گارنٹی دینے یا ایسا کوئی معاہدہ کرنے کے شرعی، قانونی یا اخلاقی طور پر مجازتھے بھی کہ نہیں۔اور یہ بھی تو کوئی بتائے کہ علامہ اشرف جلالی کے جلال کے پس منظر میں کون ہے کہ جو رانا ثنا اللہ کو ٹارگٹ کئے ابھی تک دھرنا نشیں ہیں۔
یہ دھرنا کیا تھا، کس لیے تھا اور اِس سے کس کے کیا مقاصد پورے ہوئے، اِن سوالوں کے جواب محض ”گڑدھال“ ہی رہیں گے، تاریخ پاکستان کے اُن بہت سے لاینحل واقعات اور اُن کے اثرات کی طرح، اُن لاشوں کے ساتھ ہی دفن ہو کر کہ جو اِن جیسے واقعات میں رزق خاک ہونے کے بعد بہت سوں کے رزق کا سامان پیدا کرجاتی ہیں۔ ستر برس سے ایک ہی کہانی کب تک دہرائی جاتی رہی گی۔بہت ہو چکی دوستو اب تو کوئی اور ٹریک ہونا چاہئے۔لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے کمرشل سینما کی طرح ہماری سیاست میں بھی ابھی بہت سے پرانے سیاست کار وہی پرانی کہانی پھر سے فلمانے کے منتظر ہیں کہ ابھی جس کی صرف ”مہورت“ ہوئی ہے۔
فیس بک کمینٹ