فیس بک پر بیٹھتے ہوئے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ اپنی جگہ پر لیکن اس کے آنے کے بعد وقت کا ضیاع بہت ہونے لگا ہے۔ یہ رائیگانی اپنی جگہ پر لیکن پھر بھی فیس بک پر بیٹھے بیٹھے اکثر ایسی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ فیس بک سے منہ موڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ مَیں آج اپنے اس کالم کی تمہید طویل نہیں کرنا چاہتا بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ آج کا کالم اس ہستی کے لیے ہے لکھ رہا ہوں کہ جس کے لیے کائنات تخلیق کی گئی۔ اس سے پہلے کہ مَیں اپنے موضوع کی جانب آؤ ں۔ رحمن فارس کی نعت کے چند اشعار دیکھیں اور پھر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ فیس بک پر بیٹھتے ہوئے اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کا فائدہ اپنی جگہ پر لیکن اس کے آنے کے بعد وقت کا ضیاع بہت ہونے لگا ہے۔ یہ رائیگانی اپنی جگہ پر لیکن پھر بھی فیس بک پر بیٹھے بیٹھے اکثر ایسی چیزیں سامنے آ جاتی ہیں کہ فیس بک سے منہ موڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ مَیں آج اپنے اس کالم کی تمہید طویل نہیں کرنا چاہتا بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ آج کا کالم اس ہستی کے لیے ہے لکھ رہا ہوں کہ جس کے لیے کائنات تخلیق کی گئی۔ اس سے پہلے کہ مَیں اپنے موضوع کی جانب آؤ ں۔ رحمن فارس کی نعت کے چند اشعار دیکھیں اور پھر ہم آگے بڑھتے ہیں۔چار حرفوں کی یہ ابجد حمد بھی ہے نعت بھیصاحبو! لفظ محمد حمد بھی ہے نعت بھیربِ کعبہ کی قسم، یہ مسئلہ ہے عشق کابات یہ ہے ذکرِ احمد حمد بھی ہے نعت بھیتو ثنائے مصطفےٰ کی کیفیت پر غور کرکوئی بھی اس کی نہیں حد، حمد بھی ہے نعت بھیچار حروف کی ابجد ”محمد“ کے لفظ کے گرد پوری دنیا کی خوبصورتی قربان۔ اسی لیے فیس بک پر مصروف جب کبھی آپ کی ذاتِ بابرکات کے بارے میں کوئی نعت کا شعر یا لفظ محمد ﷺ کی خطاطی سامنے آتی ہے تو دیر تک نظریں لفظ ”محمد“ کا طواف کرتی ہیں۔ ایسے میں ایک دن جب فیس بک کی ورق گردانی کر رہا تھا تو میرے سامنے علامہ اقبال کا قطعہ آ گیا جس کو مَیں بچپن سے پڑھ رہا تھا۔ یہ قطعہ مَیں نے بہت لوگوں کے گھروں میں خوبصورت خطاطی کے بعد فریم میں آویزاں بھی دیکھا جن میں پہلا نام حکیم یزدانی قریشی (مرحوم و مغفور) کا ہے جنہوں نے اپنے مطب پر حافظ محمد یوسف سدیدی کے ہاتھ کا لکھا ہوا یہ فن پارہ لگایا ہوا تھا۔ دوسری مرتبہ اپنے محبی و مہربان اور سابق رکن قومی اسمبلی پیر ریاض حسین قریشی کی مطالعہ گاہ میں لگا ہوا دیکھا۔ علامہ اقبال کے فارسی کے یہ شعر شروع شروع میں سمجھ نہ آتے تھے۔ پھر مَیں نے اقبال کی مختلف تشریحات میں یہ اشعار تلاش کیے تو معلوم ہوا یہ اشعار تو ان کی کسی کتاب میں شامل نہیں لیکن کالج کے زمانے میں بہت سے اساتذہ کرام نے اس بات کی تصدیق کر دی یہ اشعار علامہ اقبال کے ہی ہیں۔اشعار ملاحظہ فرمائیں:تو غنی از ہر دو عالم من فقیرروزِ محشر عُذر ہائے من پذیروَر حسابم را تو بینی ناگزیراز نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیرترجمہ: ”اے میرے مالک تو دونوں جہانوں سے غنی ہے اور مَیں ایک درماندہ فقیر ہوں۔ تیرا کرم ہو گا تو قیامت کے دن میری معافی قبول کر لے اور مجھے بخش دے اور اگر تو کسی وجہ سے میرا حساب کتاب کرنا اور میرے اعمال نامے کا جائزہ لینا ضروری خیال کرے تو اتنا کرم ضرور کرنا میرے سیاہ اعمال، میری فردِ گناہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نگاہوں سے چھپا کر رکھنا کہ مجھے ان کے سامنے جاتے ہوئے شرمندگی نہ ہو۔“ ان اشعار کی خوبصورت و منفرد انداز کی خطاطی کو مَیں نے 23 نومبر کو اپنے فیس بک پر شیئر کیا۔ اس مرتبہ یہ فن پارہ نصراﷲ مہر کے ہاتھ کا کمال ٹھہرا جنہوں نے اس قطعہ کے تمام لفظوں کو یوں پرویا کہ استاد محمد یوسف سدیدی کا لکھا ہوا یہی قطعہ یاد آ گیا۔ اگرچہ نصراﷲ مہر نے اس خطاطی کے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یوسف سدیدی سے متاثر ہو کر لکھا گیا۔ لیکن نصراﷲ مہر نے بھی لکھ کر قلم توڑ دیا۔ اب جیسے ہی مَیں نے فن پارہ اپنی فیس بک وال پر لگایا تو معروف دانشور و ادیب منیر ابنِ رزمی نے حکم صادر کیا کہ اس قطعہ کے لکھنے کا بھی ایک پس منظر ہے وہ بھی لکھیں۔ ابھی مَیں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ان کو بتاؤ ں کہ اس کے بارے میں تفصیل سے چند سال قبل محبی عرفان صدیقی اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں۔ (اب تو ان کا لکھنا ہی خواب ہو گیا کہ عرفان صدیقی کی نثر کے ہم ہمیشہ سے مداح رہے ہیں کہ ان جیسی نثر لکھنا انہی کا کمال ہے) ابھی مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ اس قطعہ کے کہنے کے پس منظر کے بارے میں قارئین کو بتایا جائے کہ منفرد لب و لہجہ کے شاعر نوازش علی ندیم نے بھی حکم جاری کر دیا کہ مجھے اس قطعہ کے کہنے کا پس منظر معلوم نہ ہے شاکر بھائی لکھیں۔ قارئین کرام! علامہ اقبال کے بارے پڑھنا ہمیشہ سے شوق رہا ہے۔ جب اس قطعہ کے بارے میں تقریباً سات برس قبل عرفان صدیقی نے کالم لکھا تو ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے ہاشم شیر خان کی کتاب ”علامہ اقبال اور ڈیرہ غازی خان“ کی تلاش شروع ہوئی۔ یہ کتاب اتفاق سے میرے پاس موجود تھی تو معلوم ہوا کہ علامہ اقبال کے اس قطعہ کے بارے میں جب سے عرفان صدیقی نے کالم لکھا تو کتاب بازار سے غائب ہوگئی۔ کتاب کی پہلی اشاعت کی تعداد بہت کم تھی۔ پھر ہاشم شیر خان نے اپنے دوستوں اور احباب کو تحفہ میں تقسیم کر دی۔ یہ کتاب آج سے تقریباً دس بارہ برس قبل شائع ہوئی تو تب عرفان صدیقی نے کتاب کے ایک باب میں سے اس قطعہ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں اور اسے اپنے کالم کا حصہ بنا دیا۔ ایک عرصے بعد مَیں نے علامہ اقبال کا یہ قطعہ جب اپنے فیس بک پر پوسٹ کیا تو اس کو پسند کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ گئی۔ ایسے میں منیر ابن رزمی اور نوازش علی ندیم نے اس بات کی فرمائش بھی کر دی کہ اب قطعہ کی کہانی بھی بیان کریں۔ چونکہ اس قطعہ کے بارے میں بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ شاعری علامہ اقبال اپنی زندگی میں کسی کو دے چکے تھے۔ وہ خوش نصیب شخص کون ہے؟ اس کے بارے میں ہاشم شیر خان کی تحقیق بزبان عرفان صدیقی پڑھیں۔ ”دو چار دن قبل مَیں نے علامہ اقبال کی ایک سدا بہار رُباعی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دو اشعار علامہ کی کسی کتاب یا کلیات میں موجود نہیں۔مَیں نے وعدہ کیا تھا کہ بوئے گل کی طرح دل و دماغ کو معطر بیز کر دینے اور رُوح میں گیلی لکڑی جیسی سلگاہٹ پیدا کر دینے والے ان دو اشعار کی مشکبو کہانی کسی دن سناؤ ں گا۔ ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان، اﷲ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔اُس کا نام محمد رمضان رکھا گیا۔رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی۔اے کے بعد بی ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سرکارِ انگلیشیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔چہرہ سنت رسول سے سجا تھا۔ ہمیشہ ہاتھ میں ایک موٹی سوٹی اور کندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اُردو کے شعر کہتے۔ علامہ اقبال کے عشاق میں سے تھے۔ اُن کے کئی اشعار پہ تضمین کہی جو علامہ نے بہت پسند کی۔ مولانا فیض محمد شاہ جمالی کے مرید اور حضرت خواجہ نظام الدین تونسوی کے حلقہ نشین تھے۔ ایک سیاسی خاندان کے نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگاؤ کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔ یہ اُن دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ سکول میں تعینات تھے۔ اُنہی دنوں اُن کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے۔ ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحبِ علم شخصیت تھے۔ آپ انیس ناگی کے والد اور معروف صحافی واصف ناگی کے دادا تھے۔ علامہ اقبال سے گہری محبت رمضان عطائی اور ابراہیم ناگی کے درمیان دوستانہ قرا بت کی قدرِ مشترک تھی۔ مولانا ابراہیم کو علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل ہے۔(جاری ہے)(بشکریہ : رونامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ