گذشتہ ہفتے کراچی میں ایک چھوٹی سی تقریب تھی۔ آئی بی اے کے جرنلزم سکول میں ایک کلاس روم کے باہر رضیہ بھٹی کے نام کی تختی لگا کر صحافت کے لیے اُن کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا رہا تھا۔
رضیہ بھٹی کو دنیا سے گئے تقریباً 22 سال ہو چکے ہیں۔ جو اُن کی وفات کے وقت بچے تھے اب بڑے ہو کر خود جغادری صحافی بن چکے ہیں لیکن ایک زمانہ اب بھی مانتا ہے کہ ہیرالڈ اور نیوز لائن کی ایڈیٹر کے طور پر جس طرح کی صحافت انھوں نے کی وہ پاکستانی صحافت کا یا کم از کم پاکستان میں انگریزی صحافت کا سنہری دور تھا۔جب بھی کوئی ایسی بات کرتا ہے تو میں زور زور سے سر ہلاتا ہوں اور سینے پر ہاتھ رکھ کر گواہی دیتا ہوں کہ میں کچھ سالوں کے لیے ان کا چہیتا تھا اور ان کے جانے کے 22 سال بعد بھی یہ خوش فہمی ہے کہ اگرچہ رضیہ کا دل بہت بڑا تھا اور وہ پیار باٹنے میں بخیل نہیں تھیں لیکن مجھ پر اُن کی خصوصی نظرِ کرم تھی۔
تقریب کے شروع میں اُن کی زندگی پر مبنی ایک مختصر فلم دکھائی گئی۔ میری آنکھوں کے سامنے وہی رضیہ بھٹی ہیں جو منوڑہ سے لانچ میں بیٹھ کر سکول پڑھنے آتی تھیں۔ وہی رضیہ جو کراچی یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے ڈبل گولڈ میڈلسٹ تھیں۔ تب وہ رضیہ بوندرے تھیں۔ پھر وہ لاہور سے آئے ہوئے کرکٹ کے جوان گل حمید سے شادی کر کے رضیہ بھٹی ہو گئیں۔ہیرالڈ کی ایڈیٹر رضیہ جس نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اندرونِ سندھ میں ہونے والےِ قتل عام کی کہانی پہلی مرتبہ چھاپی تھی۔ وہی رضیہ جسے جب جنرل ضیا کے آخری دنوں میں رسالے کا کور بدلنے کو کہا گیا تو اُس نے استعفیٰ دیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی استعفیٰ دیا اور دوستوں کے ساتھ چندہ کر کے اپنا رسالہ نیوز لائن نکالا اور اس جذبے کے ساتھ نکالا کہ ممولے کو شہباز سے لڑا دیا۔میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ دور کے بڑے بڑے میڈیا سیٹھ چیک بک لے کر رضیہ کے دفتر میں بیٹھے ہوتے تھے کہ اپنا رسالہ ہمیں بیچ دو اور وہ سب کو چائے پلا کر لوٹا دیتی تھی۔ پھڈے باز رضیہ، سٹائلش رضیہ، اپنے لال پین کے برکت سے ہم جیسے کئی نیم خواندہ رپورٹروں کو لکھاری بنا دینے والی رضیہ۔وہ کبھی دفتر کے سٹور روم میں گھس کر نماز پڑھ لیتی تھی۔ اگرچہ لبرل ازم کی گرو مانی جاتی تھی لیکن اُس کے گھر میں بڑے سے بڑے بزرگ پیکڑ کو بھی پینے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک دفعہ رسالے کے کور پر جہازی سائز میں لفظ سیکس چھاپ دیا اور پھر کہا کہ اب پورا ہفتہ بھائیوں سے منہ چھپاتی پھروں گی۔رضیہ کی زندگی ایک مسلسل جنگ تھی اور اس میں اُن کے پسندیدہ ہتھیار ایک قینچی، ایک ٹیپ اور ایک لال پین تھا۔ وہ 18 صفحے کی سٹوری کا پرنٹ آؤٹ لیتی تھی اور رپورٹر کو ساتھ بیٹھا کر ایسے ایڈٹ کرتی تھی کہ قینچی سے ایک پیرا صفحہ نمبر 15 سے کاٹا اور اُسے صفحہ نمبر تین پر چپکایا اور پھر لکھنے والے سے پوچھا اب کیسا لگ رہا ہے۔کبھی ایک جملے کو انڈر لائن کر کے رپورٹر سے پوچھنا کہ جملہ تو اچھا لکھا ہے اب یہ بھی بتا دو کہ اس کا مطلب کیا ہے؟میں نیا نیا اُن کی اردل میں آیا تو صحافت پر ایک بار پھر برا وقت آ گیا (صحافت پر اچھا وقت کب تھا یہ آج تک پتہ نہیں چلا)۔ کراچی پر الطاف بھائی کا راج تھا۔ ڈان اخبار کی کاپیاں جلائی جا رہی تھیں۔ میڈیا سیٹھوں کے وفد نائن زیرو پر حاضری دیا کرتے تھے۔ اسی وقت بی بی سی اور ہیرالڈ کے رپورٹر ظفر عباس کے گھر گھس کر اُن کو مارا پیٹا گیا۔ اخباروں میں چھپا کہ انھیں زدوکوب کیا گیا ہے۔ مجھے اس لفظ کی آج تک سمجھ نہیں آئی۔ ظفر کو دیکھا تو پنجابی اصطلاح ’کھنے کھولنا‘ کی زندگی میں پہلی دفعہ سمجھ آئی۔رضیہ کا حکم تھا کہ صحافت پر بڑھتے ہوئے حملوں پر کہانی کی جائے اور ظفر عباس کا انٹرویو بھی کیا جائے۔ ہیرالڈ ہمارا مدِ مقابل تھا اور ہمارے ذہن میں دیہاتی قسم کا دوستی دوشمنی کا سلسلہ موجود تھا لیکن رضیہ کی دوستی دوشمنی کا معیار صرف صحافت تھا۔ ظفر عباس نے سر پر بندھی پٹی کے باوجود متانت سے انٹرویو کے سوالوں کے جواب دیے۔کسی نے ذکر کیا کہ کراچی کی صحافت کے اصل مجاہد تو مولانا صلاح الدین ہیں اور سب سے زیادہ دھمکیاں تو انھیں ملتی ہیں۔ وہی مولانا صلاح الدین جو کچھ عرصے کے بعد اپنی صحافت کی وجہ سے شہید کیے گئے۔ اب رضیہ کو مولانا صلاح الدین کے رسالے تکبیر اور اُس کی صحافت سے شدید اختلاف تھے لیکن انھوں نے کہا کہ مولانا کا انٹرویو ضروری ہے تو ہوا۔
میں نے ذکر کیا کہ کچھ اخبار ایسے بھی ہیں جنھیں کوئی خطرہ نہیں اُس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ سامنے تھی۔ ایک دن جنگ اخبار میں الطاف بھائی کی 18 تصویریں چھپی تھیں۔ رضیہ نے کہا کہ یہ پہلو بھی اجاگر ہونا چاہیے تو میر خلیل الرحمان کا بھی انٹرویو ہوا۔ یار لوگ یہی کہتے رہے کہ یار یہ کیسے کیسے لوگوں کو پروموٹ کر رہے ہو۔اب عمر اتنی ہوا چاہتی ہے۔ جب رضیہ اپنا ہی بنایا ہوا بھریا میلہ چھوڑ کر اس دنیا سے چلی گئی تھیں۔ اب بھی کبھی ذہن میں کوئی صحافتی معمہ آتا ہے تو یہ سوچتے ہیں کہ اگر رضیہ ہوتی تو کیا کرتی؟ایک ایسے ماحول میں جہاں صحافی مورچوں میں بیٹھ کر دن رات چاند ماری کرتے ہیں تو وہ یقیناً کہتی کہ مورچے سے باہر نکلو، سب سے بات کرو پھر آ کر بتاؤ کہ کہانی کیا بنی۔ باقی میں اپنی قینچی، ٹیپ اور لال قلم سے دیکھ لوں گی۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ