قحط زدہ ملتانی اور لاشوں کے منتظر گدھ
اور پھرایک منظر فلیش بیک میں ابھرتا ہے ۔دور دور تک سروں کا ہجوم ،مفلوک الحال اور فاقہ زدہ لوگوں کا ہجوم۔ جو شہر کے مختلف حصوں سے وہاں آئے تھے ۔کوئی دولت گیٹ اورریڑھی دروازے کے جانب سے یہاں پہنچا۔تو کسی کو لوہاری دروازے والا راستہ آسان پڑا۔سب کے ہاتھوں میں کشکول ،سب کے ہاتھ وں میں کوئی کپڑا کہ جس میں وہ اناج حاصل کریں گے ۔ بوڑھے اور جوان، عورتیں اوربچے سب بھاگے چلے آرہے ہیں کہ گودام کھول دیاگیاتھا۔وہ جنہیں کئی روز سے کھانے کو کچھ نہیں ملا۔اور جن کے ڈھورڈنگر بھی مرگئے اور گدھوں کی خوراک بن گئے ۔اور گدھ اب انتظار میں تھے کہ یہ لوگ خود گریں تو وہ ان کی لاشیں نوچیں کہ ڈھورڈنگر ختم ہونے کے بعد یہاں کے عوام ہی نہیں گدھ بھی بھوکے مررہے تھے۔سو وہ لوگ اس قحط سے نجات کے لیے آئے تھے ۔وہ پیٹ کے دوزخ کا ایندھن لینے آئے تھے۔ اوراس کے پاس آئے تھے جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ ان کے پیٹ کادوزخ ہی نہیں بھرے گا انہیں روزِ قیامت دوزخ کاایندھن بننے سے بھی بچائے گا۔
بداعمالیوں کا کفارہ ، بھگدڑ اور بکھرےہوئے جوتے
تو کیا جب وہ اناج تقسیم ہورہاتھا کیا اس وقت بھی کوئی لاٹھیوں والے موجودتھے جو اس بھوکے ننگے ،مفلوک الحال ہجوم کو کنٹرول کررہے تھے؟ کیا اناج لینے کے لیے آنے والوں کو سینکڑوں برس قبل بھی قطار میں کھڑا ہونا آتاتھا؟کیا وہ ایسا نظم وضبط جانتے تھے کہ صبر وتحمل کے ساتھ اپنی باری کاانتظار کرسکیں؟ اور کیا جب پیٹ میں کچھ نہ ہو تو صبروتحمل ہوتا ہے؟ کیا کسی بھوکے سے نظم و ضبط کے ساتھ قطار میں انتظار کرنے کے لیے کہا جاسکتا ہے؟ تو جب اس ہجوم نے خیرات حاصل کی ہوگی تو کیا ایسی ہی بھگڈر مچی ہوگی جیسی رمضان کے آٰخری عشرے میں ان مقامات پر دکھائی دیتی ہے جہاں مخیرحضرات اپنے سال بھر کی بداعمالیوں اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے غریبوں،مسکینوں ،یتیموں اور بیواﺅں میں خیرات اور زکوة تقسیم کررہے ہوتے ہیں۔یا انہیں عید کے لیے نئے کپڑے ،جوتیاں اور راشن دے رہے ہوتے ہیں تاکہ ایک طرف ان کے گناہوں کا کفارہ ادا ہو جائے اور دوسری جانب زمانے میں ان کی خدا ترسی کاڈنکا بھی خوب بجے ۔سو اس بھگڈر میں کئی لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔بکھرے ہوئے جوتے اس بھگڈر کی سب سے خوبصورت تصویر کے طورپر اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔مرنے والوں کے گھروں میں عید پر غربت کا نہیں میت کا ماتم ہوتا ہے۔تو اس زمانے میں آج سے سینکڑوں برس پہلے کتنے لوگ موت سے بچنے کی کوشش میں لقمہ اجل بنے ہوں گے۔ تاریخ تو خامو ش ہے یقیناً وہ احترام میں ہی خاموش ہوگی۔لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔
تاریخ میں کون مرا اور تاریخ نے کسے مارا ؟
تاریخ کو تو آج کے دستاویزی دور میں بھی مسخ کردیاجاتا ہے۔ دستاویزات غائب کردی جاتی ہیں، ٹیپ گم ہوجاتے ہیں، کلپ ڈیلیٹ کردیئے جاتے ہیں۔فاؤ نٹ بدل جاتے ہیں اور کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک بھی اڑا دی جاتی ہے۔آج اتنی بہت سی سہولیات ہونے کے باوجود تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔ تو سینکڑوں برس قبل جب تاریخ ذاتی ملازمین ، مصاحبین یا مریدوں اور عقیدت مندوں سے ہی لکھوائی جاتی تھی تو اس زمانے میں کتنے بہت سے واقعات کو دانستہ نظراندازکردیاگیا ہوگا۔رزق کی خاطر یوں بے موت مرنے والوں کو تو تاریخ میں ماردیاجاتا ہے۔کچھ تو ایسے تھے جنہیں تار یخ میں دانستہ ماردیاگیا لیکن کچھ ایسے بھی تو ہوں گے اور کچھ نہیں ایسے بہت سے ہوں گے جنہیں تاریخ نے خود ماردیا۔
تاریخ انصاف کیسے کرتی ہے ؟
پانچ ہزار سال کوئی معمولی عرصہ تو نہیں۔ان پانچ ہزاربرسوں میں اس شہر میں کروڑوں اربوں افراد نے سانس لیا ہوگا۔اپنا اپنا کام کیاہوگا۔ظلم بھی کیا ہوگا اورخلق خدا پر کرم بھی کئے ہوں گے۔ کچھ نے خود کو اپنی فلاح کے لئے وقف کیاہوگا۔اور کچھ ایسے ہوں گے جو خلق خدا کی فلاح کے لئے سرگرم رہے ہوں گے۔اور ان کروڑوں اربوں افراد میں سے ہزاروں افراد ایسے ہونگے جنہوں نے اس شہر پر حکومت کی ہوگی۔ جن کا اس شہر پر دبدبہ ہوگا۔جو اس سلطنت کے مالک و مختارہوں گے۔جو لوگوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے ہوں گے ۔ اور جن کے ابروئے چشم کے اشارے پر کسی کو زندگی اورکسی کو موت ملتی ہوگی۔لیکن تاریخ میں تو ان ہزاروں افراد کا نام نہیں آئے گا ۔تاریخ نے توان میں سے بیشتر والیوں ،نوابوں، راجاﺅں ،مہاراجاﺅں، ملکوں اورخانوں کو اپنے صفحات میں جگہ ہی نہیں دی۔شہر کی معلوم تاریخ اس کی قدامت کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔لیکن جتنی بھی ہے اس نے جہاں بہت سے لوگوں کے ساتھ ناانصافی کی وہیں بہت سوں کے ساتھ انصاف بھی تو کر دیا۔ان مؤرخین اور مصنفین سے بڑھ کر انصاف کیا۔جو تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں کرپائے تھے۔
( جاری )