سوشل میڈیا ایک ایسا میڈیم ہے جس نے ہر اس ایشو پر بات کو عوم الناس تک پہنچایا اور بروقت باخبر کیا ۔ جس پر کبھی ہمارے سرکاری یا غیر سرکاری میڈیا نے توجہ ہی نہیں دی تھی۔یہ الگ بات ہے کہ سوشل میڈیا کی وساطت سے ہی ہمارے غیر سرکاری میڈیانے خبر کو اٹھایا اور عوام الناس اور حکام بالا تک پہنچایا ۔ ابھی میں پاکستان کے لیجنڈ ڈاکٹر انور سجاد صاحب کا ایک ویڈیو بیان دیکھ رہا تھا جو انہوں نے کسی موبائل کیمرے میں ریکارڈ کرایا اور اسے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک پر اپ لوڈ کر دیا ، کل کے اخبارات میں ایک دو کالمی خبر بھی نظر سے گزری ۔ اس کی سرخی کچھ یوں تھی ، مصنف ڈاکٹر انور سجاد کسمپرسی کی زندگی گزانے پر مجبور ، علاج کے لیے ادھار مانگنے لگے ، حکومت نے بھی مدد نہ کی ۔ اس خبر کی ذیلی میں ڈاکٹر صاحب کا ایک بیان ریاست کے منہ پر ایک طمانچہ تھا ، کہ ’’حق چھیننا پڑتا ہے ، پھر کہتے ہیں کہ یہ ڈاکو ہیں ‘‘یقیناًایسے بیانات فوری طور پر نہیں داغے جاتے بلکہ ان بیانات کے پیچھے ایک کرب ایک طویل اذیت ہوتی ہے ، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویسی کا بڑا نام ڈاکٹر انور سجاد جنہیں دنیا ادب کا دیوتا بھی جانا جاتا ہے ، علالت کے باعث لاہور میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ادب کے لیے خدمت کا صلہ نہ ملا تو حق کی آواز اٹھانے پر مجبور ہوگئے ۔آپ صدارتی ایوارڈ یافتہ مصنف ہیں ، انہوں نے صدر پاکستان کے نام امداد کے لیے درخواست بھیجی تو ایوان صدرکی طرف سے درخواست سندھ حکومت کو ارسال کی گئی مگر سندھ سرکار نے صدارتی ایوارڈ یافتہ ادیب کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ۔ڈاکٹر انور سجاد27مئی 1935کولاہور میں پیدا ہوئے ،ان کا اصل نام سید محمد سجاد انور علی بخاری ہے ۔ انہوں نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا ۔ پھر ڈی ڈی ایم اینڈ ایچ امتحان لندن سے پاس کیا ۔ انور سجاد کی شخصیت پہلو دار ہے وہ پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں ۔ نظریاتی وابستگی انہیں سیاست تک لے آئی۔ اسٹیج، ٹیلی وژن کی قوتِ اظہار سے واقف ہیں چنانچہ ڈراما نویس بھی ہیں اور کامیاب اداکار بھی۔ ایک طاقتور برش پر انگلیاں جمانے کا فن جانتے ہیں اور جدید افسانے کا ایک معتبر نام ہیں۔ وہ اپنی شخصیت اور روحِ عصر کے اظہار کے لیے تمام شعبوں میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے یہ تمام پہلو ان کی افسانہ نگاری میں کسی نہ کسی طرح ظاہر ہوئے ہیں۔ وہ اشیاء کو باطنی ویژن سے دیکھتے ہیں جس کی مثالیں ان کے افسانوں میں ملتی ہیں۔اپنے افسانوں میں انہوں نے حقیقت کو Fantasy کے روپ میں بیان کرنے کے لیے نئی نئی تکنیک استعمال کی ہیں۔ استعارے اور علامتوں کی بھرمار سے انہوں نے Inside out کی طرف سفر کیا اور مشاہدے باطن کی دھندلی پر چھائیوں سے عصری حقیقت بیان کی ہے۔ سیاسی اور معاشی ناہمواری ان کے موضوع خاص ہیں۔ ڈاکٹر انور سجاد کا پہلا ناولٹ رگ سنگ 1955ء میں شائع ہوا۔ دیگر کتابوں میں استعارے 1970ء، جبکہ تصانیف میں آج، پہلی کہانیاں، چوراہا، خوشیوں کا باغ اور دیگر شامل ہیں،رگ سنگ ،استعارے ،آج ،پہلی کہانیاں،چوراہا ،زرد کونپل،خوشیوں کا باغ ،نگار خانہ ،صبا اور سمندر ،جنم روپ،نیلی نوٹ بُک،رسی کی،زنجیر،مجموعہ ڈاکٹر انور سجاد شامل ہیں ۔
ادیب کسی بھی معاشرے میں وہ باشعور طبقہ کے طور پر جانے جاتے ہیں کہ قومیں ان پر فخر کرتی ہیں ۔ لیکن پاکستان میں ایسا کم ہی نظر آیا ۔کیا اس باشعور طبقے کی قسمت میں کسمپرسی اور بے بسی ہی رہ گئی ہے ۔ نہیں ایسا نہیں ہے ۔ڈاکٹر انور سجاد کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد پاکستان بیت المال کی جانب سے ان کی مالی امداد بھی کی گئی ہے جس کی ایک اور ویڈیو جاری کی گئی جس میں ڈاکٹر انور سجاد بیت المال کے ایم ڈی عون عباس بپی اور پھر یاد دہانی پر عمران خا ن کا بھی شکریہ ادا کر رہے ہیں ۔ اس طرح ویڈیو کے ذریعے فریاد ہوئی تو ویڈیو کے ذریعے ہی داد رسی کا اعلان بھی ہو گیا ۔۔ ریاست نے کبھی بھی اس باشعور طبقے کے حوالہ سے آنکھیں بند نہیں کیں ، ریاست نے اکادمی ادبیات جیسے اداروں کی بنیاد رکھ کر اپنا مثبت کردار ادا کر دیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا اکادمی ادبیات جیسے اداروں کے مینڈیٹ ، پالیسی اور مقاصد میں کیا ایسے لیجنڈ فنکاروں کے لیے کوئی شق موجود ہے کہ وہ ایسے مواقعوں پر اس باشعور طبقے کا پرسان حال ہو ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اکادمی ادبیات جسے اداروں کے مینڈیٹ کو پاکستان کے سامنے لانا ہوگا اور اس ادارے کے تحت سکیموں کو شفاف اندازمیں لاگو کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ پاکستان کے باشعور طبقے کو آگاہی بھی دی جائے کہ اکادمی کے مینڈیٹ میں کیا کیا ہے ، لیکن المیہ یہ ہے کہ دوسرے اداروں کی طرح اکادمی کے کردار اور ذمہ داریوں سے کسی کو بھی آج تک آگاہی نہیں دی گئی ، بلکہ انہیں موقع پرستوں اور مفاد پرستوں نے صرف استعمال کیا ہے ۔ اگر ہم اکادمی ادبیات جیسے اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کرنے میں کامیاب ہوگئے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں حکومتوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ایسے اداروں کا قبلہ درست کرنے کے لیے اصلاحات لانی ہوں گی جس دن ہم ان اصلاحات کو لانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر کوئی بھی ادیب ، شاعر یا فنکار ایسے کسمپرسی کی تصور نہیں بنے گا۔