اس دوران بہت کچھ بدل چکا تھا مجھے کھونٹے سے باندھا جا چکا تھا اور میری معلمہ مجھے زندگی کے نئے اسباق تعلیم کر رہی تھی اور گھر کا آنگن تین پھولوں سے مہک رہا تھا۔ احسن اس کے بعد بھی بھی خاصی مدت حیدر آباد میں رہا جہاں عشقی صاحب کے سامنے تو اسے دم مارنے کی ہمت نہ تھی لیکن ہاں حمایت علی شاعر سے اس کی سر پھٹول جاری رہتی جو ان دنوں سندھ یونی ورسٹی میں اردو کے لیکچرار تھےپھر احسن بھی حیدر آباد سے تبادلہ ہو کر کراچی کی نرسری برانچ میں چلاآیا۔یہاں ادب میں اس کے لیے کھلا میدان تھا، اس نے بہت ہاتھ پیر مارےلیکن اس شہر سنگلاخ میں جہاں قدم قدم پر کرشمہ ساز موجود تھے وہاں کسی نئے آدمی کا اپنے لیے گنجائش پیدا کرنا آسان نہ تھا، اب وہ بولایا بولایا پھرتا۔آدمی میں اگر بڑے پن کا فقدان ہو تو پنجوں کے بل کھڑے ہو کر قد نہیں نکالا جاسکتا۔ احسن تخلیقی انسان سہی مگر وہ اس جوہر سے محروم تھا جو انسان کو سرسبز کر دیتا ہے۔میں اس کی شخصیت کی اکثر گرہوں سے آگاہ تھاجنہیں اس نے بڑے جتن سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا مگر دوستی میں بہت کچھ نظر انداز کرنا پڑتا ہے ۔ اصل میں آدمی ناٹک کر کے اپنی حقیقت کو پوشیدہ نہیں رکھ سکتا ۔اس ہڑبونگ میں کتنے ہی ماہ و سال اور بیت گئے اور احسن کو بینک سے ریٹائر کر دیا گیا۔ بینک سے ملی رقم کو اس نے دشمن کے مال کی طرح اڑا دیا، جب روٹی کے لالے پڑے تو میرا دوست ہلکان نظر آنے لگا۔ کراچی ستم گر سہی لیکن غریب پرور شہر ہے، احسن کو فراست رضوی نے ایک سہ ماہی پرچے ” سخن زار "میں مدیر کے منصب پر فائز کرا دیا۔ اس پرچے کے تین یا چار شمارے منظر عام پہ آئے لیکن یہ کھیل زیادہ لمبا چلتا نظر نہیں آتا تھا، مالکان نے مدیر کو ایک کلرک میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا جس سے احسن بہت دل برداشتہ تھا۔۔ میں ان دنوں روزنامہ ایکسپریس میں اپنے ایڈیٹر احفاظ الرحمان کے لیے تختہ مشق ستم بنا ہوا تھا۔ دفتر سے اٹھ کر سیدھا احسن کے پاس پہنچ جاتا، ایک دن گیا تو وہ آپے سے باہر ہو رہا، میں سمجھ گیا کہ تندور میں لپٹیں زور پکڑ رہی ہیں۔ چوتھے شمارے تک بلڈر بد زبانی پر اتر آیا، آخر کٹورا چھلک پڑا۔یہ خاصی مایوس کن صورت حال تھی، احسن نے میرے کہنے پر ایڈیٹری کو لات مار دی۔ وہ آزاد تو ہو گیا تھا لیکن جانیئے اب یہ میری ذمہ داری تھی کہ اس کا ٹھنڈا چولہا ،گرم رکھنے کا سامان کروں۔ مگر کیسے؟ یہ وہ سوال تھا جس کا نوکیلا پن مجھے مارے ڈال رہا تھا لیکن اگر نیت میں کھوٹ نہ ہو تو راستہ سوجھ ہی جاتا ہے، میرے ذہن میں ایک راہ جگمگائی اور میں نے کوئٹہ سے آئے ہوئے اپنے شاعر دوست محسن شکیل کے ساتھ مل کر ایک نئے پرچے کے خواب دیکھنے شروع کردیئے۔ اب تک میں نیپا سے منتقل ہو کر گلستان جوہر آچکا تھا۔ ہم نے پرچے کے خدوخال طے کرنے کے لیے احسن سلیم کو بھی وہیں بلا لیا۔ اس وقت تک مجھے ذرا اندازہ نہیں تھا کہ ابھی میں احسن سے پوری طرح واقف نہیں ہوں۔آدمی کی سرشت معاملہ بندی میں اپنا اظہار کرتی ہے اور مجھے خیال آتا بھی تو کیوں میں تو خلوص اور دردمندی سے اس کے لیے ایک راہ نکال رہا تھا ۔
خیر احسن آگیا، ایک چائے خانے میں یہ چوکڑی جمی جس میں محسن، احسن اور میں شامل تھے،ہم نے پرچے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا، محسن شکیل نے پرچے کے لیے ” اجرا ” کا نام تجویز کیا ، جسے ہم نے قبول کر لیا۔اس کے بعد پرچے کا معیار اور ترجیحات زیر بحث آئیں اور فیصلہ کیا گیا کہ غیر معیاری شاعری کو پرچے میں جگہ نہیں دی جائے گی اور تراجم ترجیحی بنیادوں پر شامل کیے جائیں گے، اس کے بعد محسن نے ذیلی عنوانات لکھ کر دیئے۔ احسن کو یہ فکر کھائے جارہی تھی کہ پرچے کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا ؟ میں نے اسے تسلی دی تو اس کا جی ٹھہرا۔
دوسرے دن میں اسے لے کر شاہین نیازی کے دفتر پہنچ گیا، وہ حسب معمول تپاک سے ملے، احسن دپک کر ایک طرف بیٹھ گیا، ادھر اُدھر کی چند باتوں کے بعد میں حرف مدعا زبان پر لایا۔” نیازی صاحب ایک سہ ماہی پرچہ نکالنا ہے۔” وہ جھٹ سے بولے ۔” بسم اللہ۔” میں مسکرایا۔” جناب اس پر سرمایہ آپ کا خرچ ہوگا۔” انہوں نے ترنت کہا۔ ” حاضر۔۔۔ بس یہ بتادیں کتنی رقم درکار ہو گی؟” میں نے تین شماروں کا حساب لگا کر کہا۔” ڈیڑھ لاکھ۔” انہوں نے ایک وقفے کے بعد جواب دیا۔” کل آکر لے جائیں۔” میں نے دیکھا سمٹے ہوئے احسن میں جیسے زندگی دوڑ گئی ہو، میں نےمسکرا کر سوچا یہ پیسہ بھی کیسی آب شفا کی سی تاثیر رکھتا ہے۔پھر میں نے کچھ سوچ کر شاہیں صاحب کو مخاطب کیا۔” جناب فی الحال ہمیں ایک شمارے کے لیے رقم درکار ہوگی، آپ پینتالیس ہزار دے دیجئے گا۔” نیازی صاحب نے دراز کھول کر رقم نکالتے ہوئے کہا۔” یہ تو ابھی لے لیں۔” میں انہیں بتا چکا تھا کہ پرچے کے مدیر احسن ہوں گے انہوں نے رقم احسن کی طرف بڑھا دی۔ طے پایا کہ پرچے کا ایک جوائنٹ اکاؤنٹ کھولا جائے گا اور پرچے کے نگراں اعلی شاہین نیازی ہوں گے، احسن کو مشاہرے کی مد میں بیس ہزار روپے دیئے جائیں گےاور میں پرچے کا معاون مدیر ہوں گا۔میں نے محسوس کیا کہ رقم ہاتھ میں آتے ہی جیسے احسن کی آنکھیں ماتھے پر آلگی ہوں، میرے لیے یہ نہایت تشویش ناک امر تھا ،میں نے اس خیال کو ذہن سے جھٹکا اور ہم دفتر سے نکل آئے،میں نے دیکھا اس کی چال میں ایک ترنگ سی آگئی تھی، میں نے خیال کیا، جیب بہت دن بعدبھاری ہو تو شاید سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہوگا۔
اس کے بعد احسن طویل عرصے کے لیےلاپتہ ہوگیا،میں نےسوچاپرچے کی تیاری میں مشغول ہوگا، مجھے اکاؤنٹ کی فکر تھی۔جب وہ باہم آیا تو میں نے پہلا سوال یہی کیا۔” اکاؤنٹ کھل گیا؟” اس نے خشونت سے جواب دیا۔” کھل جائے گا۔” میں نے محسوس کیا میں اپنے دوست کو کھو چکا ہوں۔ میں اسے لے کر رشید بٹ کے گھر گیا جو پبلشنگ کا کام کرتے تھے۔ احسن ان سے مدیرانہ شان سے معاملات طےکرنے لگا اور میں حمیرا اطہر سے باتوں میں مشغول ہوگیا جو میرے دفتر میں میری ہی طرح ایڈیٹر کے پنجہ استبداد میں تھیں۔
میں دیکھتا کہ وہ میرے ہر مشورے کو حقارت سے رد کردیتا، جس انسان کو خود پر اعتماد نہ ہو وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرتا۔ احسن نے اپنے گھرکے قریب اکاؤنٹ اپنے نام سے کھول لیا تھا۔ ادھرشاہین صاحب پرچے کے حوالے سے بہت پرجوش تھے انہوں نے اپنے تعلقات استعمال کر کے کتنے ہی پرچوں کی فروخت کا انتظام کر رکھا تھا، اب "اجرا” مکمل طور پر ون مین شو تھا، آخر نوید ملی کہ پرچے کا پہلا شمارہ آگیا ہے ۔ میں نے اشتیاق سے اسے دیکھا ، پرچے نے میرے اور محسن کے خواب چکنا چور کر دیئے تھے،پروف کی انگنت اغلاط، اور غیر معیاری شاعری کی بھرمار اس کے علاوہ اوسط درجے کی کہانیاں اور برائے نام تراجم، یہ سب اس کی ضد تھا جس کی منصوبہ بندی گلستان جوہر میں کی گئی تھی۔
پرچے کی تقریب پذیرائی میں مجھ سادہ دل نے پھر اسی جوش و خروش سے حصہ لیا اور سب بھلا کر تقریب کے مہمان خصوصی کا انتظام کیا اور امر جلیل صاحب کو لانے اور گھر پہنچانے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ تقریب میں شریک ہوا لیکن جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میں ایک اور غلطی کرچکا ہوں، مجھے پوری تقریب میں اسٹیج کے قریب نہیں پھٹکنے دیا گیا ۔ میں تو صابر بندہ ہوں مگر میں اپنے بیٹے کے اس سوال کا جواب کیا دیتا:” بابا آپ کہاں ہیں؟، ” میں نے پہلے شمارے کے بعد ہی احسن سلیم کی موجودگی میں پرچے سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کردیاکیوں کہ پہلے شمارے کی تیاری میں بھی میرا کوئی کردار نہیں تھا ۔ شاہین نیازی میرے اس فیصلے پر بہت حیران ہوئے لیکن احسن نے گویا سکون کا سانس لیا، وہ پرچے پر میری کھلی تنقید سے بہت نالاں تھا مگر ایاز محمود صاحب نے مجھے اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا ، ان کا کہنا تھا پرچہ آپ کا برین چائلڈ ہے، آپ اس سے کیسے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔بات آئی گئی ہو گئی ،ہر انسان ترقی کی راہ ٹٹولتا ہے تو اگر احسن آگے بڑھنا چاہتا تھا تو اس میں ایسا برا کیا تھا لیکن اپنے محسن کی گردن پر پیر رکھ کر راستہ بنانا معیوب بات تھی اگراحسن نے "اجرا” کے ڈیکلریشن کی درخواست جمع کرائی تو اس میں کچھ مثبت پہلو ہی ہوگا لیکن اسے شاہین صاحب کو اعتماد میں لینا چاہیئے تھا۔۔ ایڈیٹر کی دلیل تھی کہ اس طرح پرچہ اے بی سی ہوجائے گا اور ہمیں کاغذ کا کوٹہ مل جائے گا، مگر افسوس انہوں نے ڈیکلریشن فارم میں پرچے کی ملکیت اپنے نام سے ظاہر کی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ یہ حرکت محض اپنی ناآسودہ خواہشوں کی تکمیل کے لیے کی ہو گی ورنہ اس سے بگاڑ اور بدنیتی کی تو توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی، احسن کو پرچے کی ڈیکلریشن نہیں ملی۔
میں” اجرا” سے لاتعلق سا ہو گیا تھا لیکن مجھے اطلاعات مل رہی تھیں، اب احسن کی توجہ پرچے کے معیار سے زیادہ اس کے لیے اشتہارات حاصل کرنے پر تھی ایک لحاظ سے یہ بات غلط نہیں تھی لیکن پرچہ اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے تھی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اجرا کا ہر نیا شمارا اپنے معیار کے لحاظ سے بد سے بدتر ہوا جا رہاتھا۔ پرچے سے مدیر کی شخصیت نمود کرتی ہے مگر اجرا میں یہ ممکن نہیں تھا کیوں کہ وہ تو کسی تحریر میں قلم لگانے کی زحمت ہی نہیں کرتا تھا۔یہی دیکھ کر ایک دن ایاز محمود نے احسن سے کہہ ہی دیا۔” جناب ، ڈاکیہ اور مدیر میں فرق ہوتا ہے، آپ اب تحریروں پر قلم لگانا شروع کریں۔”
احسن کے کان میں کسی نے پھونک دیا تھا کہ ممتاز تمہیں ہٹا کر خود مدیر بننا چاہتا ہے اسے سوچنا چاہیئے تھا کہ اگر ممتاز چاہتا تو یہ تو پہلے دن ہی ممکن تھا۔ اب وہ مجھ سے کھنچا کھنچا رہنے لگا،لیکن کون ہے جو مشکل سے ملے منصب کو کھونا چاہے گا ایسی شخصی کم زوریاں کس میں نہیں ہوتیں۔ ایک دن اس نے کہا شاہین صاحب نے تو پہلے شمارے کے لیےپیسے دیئے تھے اس کے بعد سے تو پرچہ میں نکال رہا ہوں ، یہ درست سہی لیکن وہ یہ بھول گیا تھا کہ شاہین صاحب ہر شمارے کے کتنے پرچے بکواتے ہیں اور کتنے کے اشتہار دلواتے ہیں ورنہ وہ کون سا پوتڑوں کا رئیس تھا، یوں بھی اپنے محسن کے تعلق سے یہ کہنا اخلاق سے بعید بات تھی۔ احسن نے اگر پرچے کے پلیٹ فارم سے اپنی بین الاقوامی شناخت قائم کرنے کی کوشش کی تو یہ بھی کوئی نامناسب بات نہیں، اب ہم جب مل بیٹھتے تو وہ اپنے ذہن میں پروان چڑھنے والی ایک تحریک کاتذکرہ چھیڑ دیتا، دوسرے شمارے سے احسن نے پرچے میں ” تبدیلی بذریعہ ادب ” کا آغاز کر دیا اور مصنفین سے فرمائشیں کر کے اس کے لیے مضامین لکھواتا اور انہیں اہتمام سے شائع کرتا۔مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ جس ملک میں اکثریت ناخواندہ افراد کی ہو وہاں ادب کے ذریعے کسی تبدیلی کا خواب کیسےدیکھا جا سکتا ہے اور احسن کے ذہن میں یہ بات بھی واضح نہیں تھی کہ وہ کس تبدیلی کا خواہاں ہے، اس کا خیال تھا کہ ترقی پسند تحریک کے خاتمے کے بعد ایک تحریک کی ضرورت ہے۔
آدمی میں اگر اہلیت کی کمی ہو تو وہ اسے محنت سے پُر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ احسن دیوانہ وار محنت کرنے والا انسان تھا،وہ جب تک رہا باقاعدگی سے اجرا نکالتا رہا اور معیار؟ تو بہت سے ادیب و شاعر اسے یقین دلا چکے تھے کہ وہ ایک معیاری پرچہ نکال رہا ہے۔۔ احسن برسوں میرا دوست رہا لیکن اس نے کبھی مجھے ہوا بھی نہ لگنے دی کہ وہ ٹی بی کے مہلک مرض میں مبتلا ہے اس نے علاج بھی کروایا اور اس بیماری سے چھٹکارہ بھی حاصل کر لیا لیکن بعد میں وہ پرہیز نہ کرسکا اور نتیجہ یہ ہوا کہ بیماری زیادہ قوت سے عود کر آئی اور میرے ممدوح کو پچھاڑ کر دم لیا۔میں سوچتا ہوں کاش انسان کے ماضی کو اس کے ساتھ قبرمیں دفن کیا جاسکتا۔، افسوس ماضی ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
فیس بک کمینٹ