آدمی تادیر اپنے حوالے سے کسی مغالطے میں رہے تو آخر آخر اس پر ایمان لے آتا ہے سو احسن سلیم بھی خود کو تصوف کےاعلیٰ مرتبے پر فائز کرچکے تھے ، میں حیران ہو کر سوچتا ہوں کہ آدمی اپنے اصل رنگ کس خوش اسلوبی سے مستور رکھنے کا قرینہ رکھتا ہے۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ ہم نے اپنے ممدوح کو کھوجنے میں بہت تاخیر سے کام لیا ۔آیئے اس قصے کو الف سے تفصیل کرتے ہیں۔
ہم سب قمر جمیل کی ہمرہی میں ریگل چوک صدر پر کھڑے تھے جب میں نے پہلی بار آنکھ ٹکا کر اپنے ممدوح کو اپنی نظر کے احاطے میں لیا،وہ عاجزی اور درد مندی سے قمر بھائی سے ان کی ادویات کے بارے میں بازپرس کررہا تھا جو غالباً ختم ہوچکی تھیں۔ قمر بھائی نے پرچہ نکال کر دیا اور وہ جوان لپک کر تھیلے میں دوائیں بھرے پلٹ آیا اور ہم سب ایمپریس مارکیٹ کے محمدی ہوٹل کی اور چل پڑے۔ راستے بھر قمر جمیل،رانبو کے شاعرانہ کمال پر برسرکلام رہے،اس سڑک پر جہاں بسوں کی دھکم پیل تھی اور کھوے سے کھوا چھل رہا تھا اور شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی ،گفتگو میں قمر بھائی کا استغراق حیران کن تھا۔ میں نے دیکھا احسن پورے انہماک سےان کی باتوں پر کان دھرے ہمہ تن گوش بنا ہوا ہےجیسے کسی ایک لفظ کا سماعت سے محروم رہ جانا بہت بڑا خسارہ ہو گا،مجھے اس کا یہ ذوق شوق بہت بھایا۔ہم محمدی ہوٹل پہنچے تووہ مچھلی بازار بنا ہوا تھا،قمر بھائی کے چہرے پر ناگواری سی چمکی لیکن کوئی اور جائے پناہ تھی بھی کہاں؟بیرے نے دو میزیں جوڑ کر بیٹھنے کی جگہ بنادی قمر بھائی رانبو کونمٹا چکے تھے، وہ چائے کی چسکی لے کر احسن سے مخاطب ہوئے۔ ” احسن حیدرآباد میں کیا معرکے ہیں۔” احسن نے اک ذرا سوچا پھر بولا۔” قمر بھائی وہاں تو خاک اڑ رہی ہے ایک شاہد عشقی ہیں ان سے ہی ملاقات رہتی ہے۔” اچھا تو موصوف حیدرآباد میں اقامت رکھتے ہیں۔ میرے ذہن میں جملے نے جگہ بنائی۔قمر بھائی احسن سے نظم سنانے کی فرمائش کررہے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے میز پر نثری نظم چوکڑیاں بھرنے لگی۔ نثری نظم اس منڈلی کا آئے دن کا قصہ تھا لیکن میرا دل ابھی اس صنف کی طرف مائل نہیں ہوا تھا لیکن احسن کی نظم کے امیجز انوکھے اور جان دار تھے، پہلی بار مجھے لگا کہ شاعری سن رہا ہوں، میز پر نوخیز دانش ور نظم کی تحسین میں ہوش کھوئے دے رہے تھے،آہ ،واہ کا شور تھماتو قمر جمیل نے نظم پر صدارتی خطبہ صادر فرمایا۔ میں نے ان کی گفتگو کم توجہ سے سماعت کی کیوں کہ تجربہ بتاتا تھا کہ کل اسی نظم پر محترم کی رائے کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔۔ احسن کے چہرے پر اس تحسین ایک نوع کی تازگی سی آگئی تھی ادھر قمر بھائی بودلیئر کو گفتگو کی سان پر چڑھائے بے تکان بول رہے تھے، ان کے طرز کلام میں جانے کیا سحر تھا کہ ہم بار بار کی سنی گفتگو ہر بار یکساں اشتیاق سے سماعت کیا کرتے۔ رات ڈھلنے کو آگئی تھی اور اب ہوٹل میں قمر بھائی کی آواز راج کر رہی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے اجالا اندھیرے پر غالب آگیا، میری زندی کی ایک اور رات یہاں غارت ہو چکی تھی۔ احسن ان دنوں نیشنل بینک کی کسی اسامی پر فائز حیدرآباد کی برانچ میں متمکن تھا، ہر جمعہ کی شام وہ کراچی آکر قمرجمیل کے سائے میں تبدیل ہو جاتا۔ ان کی محفلوں میں اپنے ممدوح سے میری قربت بڑھی اور ہم ایک دوجے کے رفیق بن گئے۔ جب اس شخص سے ملاقاتوں میں تواتر آیا تو مجھ پر کھلا جیسے وہ کسی قسم کےجنون میں مبتلا ہو،بعض اوقات احسن تکلیف دہ حد تک درشت ہو جاتا۔ اسے یہ قطعی قبول نہیں تھا کہ اس کی بات سے اختلاف کیا جائے۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو وہ حیدرآباد کے ادبی افق پر اندھوں میں کانا راجا بنا ہوا تھا دوم ٹریڈ یونینسٹ تھا، اس وابستگی نے اسے ہر جائز نا جائز بات منوانے کے عارضے مں مبتلا کر دیا تھا۔اس پہ سوا وہ ذات کا قائم خانی تھا یعنی کریلہ اور نیم چڑھا۔ حیدرآباد میں اس کے ہمجولی اسے مرشد کے لقب سے پکارتے تھے۔ جب فردوس ہوٹل میں سبھا سجتی تو وہاں احسن اچانک قمر جمیل کا روپ دھار لیتا ، نثری نظم کے تابناک مستقبل پر حکیمانہ مکالمہ ،رانبو ، بودلیئر اور دانتے پر قمر بھائی کے دسترخوان سے چرائے ہوئے نوالوں کا خوان۔ حیدرآباد کے شعرا اور ادبانے یہ سب کہاں سنا تھا؟ وہ اس پر نثارنثار ہوئے جاتے اور ہمارا قائم خانی خودپسندی کی دلدل میں کچھ اور دھنس جاتا۔ ایک طرف یہ قضیئے تھے اور دوسری جانب باباؤں کا نرغہ تھا، احسن جانے کہاں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپنے حال سے بے گانہ افراد کو کھوج نکالتا اور ان کے حوالے سے کہانیاں گھڑ کر ان کی عظمت اپنے دل پر نقش کر لیتا، اسی کے ساتھ وہ اپنے مرتبے میں ایک آدھ انچ کا اضافہ کرنا نہ بھولتا۔ اس شہر کے علاقے اسلام آباد میں میری اپنی ملاقات ایک ایسے بابا سے ہوئی،سبز کرتے میں ملبوس یہ مرد تواناجس کے لباس پر جابجا چونے کتھے کے داغ لگے تھے اور جو گردوپیش سے بے خبر خاموش بیٹھا تھا اور احسن مارے عقیدت کے واری صدقے ہوئے جاتے تھے اور وہ بیٹھاپان چبائے جاتا تھا۔ سلیم نے بتایا۔” بابا مراقبے میں ہیں۔” میں حیران کہ کیا پان چباتے ہوئے بھی مراقبہ ممکن ہے؟ مجھے احسن کی گمرہی پر ترس آیا لیکن ہونٹ سیئے بیٹھا رہا کہ احسن کے لیے یہ حساس معاملہ تھا مگر میں حیران تھا کہ اچھا بھلاہوش مند دکھائی دینے والا احسن کیسے اس بیراگ کا اسیر ہو گیا ؟ مجھے باور آیا کہ ہوش مند نظر آنے اور ہونے میں بال برابر کا فاصلہ ہے۔احسن نے اپنے مقام کا یقین دلانے کے لیے مجھے ایک واقعہ بھی سنایا۔” ایک دن جب بینک کے اوقات ختم ہو چکے تھے ایک عورت بل جمع کرانے آئی میرے ساتھی نے انکار کر دیا ،مجھے اس عورت پر ترس آیا میں نے کہہ سن کر بل جمع کرادیا، عورت نے جاتے ہوئے مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا ۔ میں اس کے ساتھ ہولیا ، راستے میں اس نیک بخت نے تعلق کی کئی منازل طے کر لیں، وہ مجھے لیے ایک گھر پہنچی اور جلد ہی وہ مرحلہ آگیا جب ہم صرف مرد اور عورت رہ گئے لیکن جب منزل سر کرنے کا مرحلہ آیا تو گھر میں جیسے بھونچال آگیا، وہ خوف زدہ ہو گئی اور میں سمجھ گیا کہ مجھے گناہ سے باز رہنے کی ہدایت دی جا رہی ہے۔ جانے اس میں کتنا سچ ہے ؟
فیس بک کمینٹ