منیرنیازی کی بنیادی پہچان اُن کی شاعری ہے۔انہوں نے اُردوکے علاوہ پنجابی میں بھی خامہ فرسائی کی ہے۔اُ ن کا ادبی سفرکم وبیش ساٹھ برسوں پرمحیط ہے۔اُن کے اُردوشعری مجموعوں کی تعدادگیارہ ہے جن میں’’تیزہوااورتنہا پھول‘‘،’’جنگل میں دھنک‘‘،’’دشمنوں کے درمیان شام‘‘،’’ماہِ منیر‘‘،’’چھ رنگین دروازے‘‘،آغاززمستاں میں دوبارہ‘‘،ساعتِ سیار‘‘،پہلی بات ہی آخری تھی‘‘،’’ایک دُعا جومیں بھول گیا‘‘،سفیددن کی ہوااورسیاہ شب کا سمندر‘‘اور’’ایک مسلسل‘‘ شامل ہیں۔اُن کی وفات کے بعد ایک کلیات دوست پبلی کیشنز،اسلام آبادنے’’اک اوردریا کا سامنا‘‘ کے عنوان سے شائع کی۔پنجابی شاعری میں بھی تین شعری مجموعے’’سفردی رات‘‘،’’چارچپ چیزاں‘‘اور’’رستہ دسن والے تارے‘‘شامل ہیں۔پنجابی شاعری پرمشتمل کلیات کا نام’’کُل کلام‘‘ ہے۔
زیرِتبصرہ کتاب’’کلیاتِ نثرِمنیرنیازی‘‘کا اختصاص یہ ہے کہ اِس کے توسط سے منیرنیازی کی نثری جہات سامنے آئی ہیں۔تحقیق وتنقیدکا بنیادی وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ نامعلوم کومعلوم کرے اورپھراُس کی حیثیت کا تعین کرے۔بطورشاعرمنیرنیازی اُردوشاعری کے ایک تابندہ ستارے ہیں۔جن کے فن کی تعبیریں ہورہی ہیں اورہوتی رہیں گی۔منیرنیازی ڈاکٹرسمیرااعجازکی تحقیقی لگن کا میدان ہے جس میں اب انہیں اختصاص حاصل ہو چکا ہے۔انہوں نے منیرنیازی پرہی ڈاکٹریٹ کی ہے جو’’منیرنیازی۔شخص اورشاعر‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکی ہے۔علاوہ ازیں اِس موضوع پر اُن کے متعددتحقیقی وتنقیدی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔’’کلیاتِ نثرِمنیرنیازی‘‘ڈاکٹر صاحبہ کی ایسی تحقیقی کاوش ہے جس نے ادبی قارئین کو منیرنیازی کے کئی دیگر ادبی پہلوؤں سے روشناس کرایا ہے۔اس کتاب میں منیرنیازی کی نثری کاوشوں کوحتی المقدور یک جا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اِس سے پہلے اس ضمن میں صرف ایک جزوی کاوش ہے جو صدف بخاری کی’’شہرنما‘‘ کی شکل میں سامنے آتی ہے جس میں صرف روزنامہ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے منیرنیازی کے کالم شامل تھے ۔
اس کتاب کے منصہ شہودپرآنے سے پہلے عام قارئین کا یہی خیال تھا کہ منیرنیازی کا فن صرف شاعری تک محدودہے۔اس کتاب کی وساطت سے معلوم ہوا کہ انہوں نے نثرمیں بھی خوب خامہ فرسائی کی ہے۔ کتاب میں تقریباً پونے سات سوصفحاتِ نثرکویک جا کیا گیا ہے۔جن میں کالم اورفلمی کالم،اداریے،افسانہ،ناول،خطوط،تاثرات اورکتب پرتبصرے شامل ہیں۔یہ ایک وقیع تحقیقی کام ہے جسے موصوفہ نے محنت سے تلاش کرکے،سلیقے سے مرتب کیا ہے۔اِس تحقیقی کاوش سے مستقبل کے محققین استفادہ کریں گے۔عموماً مرتبین جب کوئی کتاب مرتب کرتے ہیں تو صرف مضامین ومقالات کویک جا کرکے شائع کردیتے ہیں اورشاذہی کہیں ایسا ہو کہ موضوع کے بارے میں چندتنقیدی جملے لکھے ہوں۔مذکورہ کتاب کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ اس کی ابتدا میں ایک مبسوط مقدمہ بھی شامل ہے جس میں منیرنیازی کی نثری اصناف کا تعارف اورتنقیدی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے۔یوں مقدمے سےقارئین نثرمنیرنیازی سے اچھی خاصی آگہی حاصل کرسکتے ہیں۔منیرنیازی کی نثرمیں سب سے اہم اُن کی کالم نگاری ہے جو معیاراورمقداردونوں میں بہتر ہے۔مختلف اقسام کے کالموں کی تعداد 110 ہے۔اُن کے کالم ،خاص طورپرادبی اورفکاہیہ کالم توخاصے کی چیزہیں جن میں سبھی اسالیبِ نثر کی جھلک پائی جاتی ہے۔اگروہ اپنی نثرپرزیادہ توجہ دیتے توشایدصاحبِ طرزانشا پرداز کہلاتے۔اُن کے ادبی کالموں میں مشفق خواجہ اوروارث علوی کے اندازِبیاں کا عکس پایا جاتا ہے۔یہ کالم اُس دورکی ادبی تاریخ بھی ہیں اورتنقید بھی۔منیرنیازی کو کفایت لفظی کا شعوربھی ہے اوربات کہنے کا ڈھنگ بھی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ نے ان کالموں کی اشاعت کی فہرست بھی دی ہے۔فلمی کالموں اوراداریوں کی تعدادنوہے۔ایک افسانہ،ایک نامکمل ناول،چارخطوط،دوتاثرات اور چھ کتب پرتبصرے شامل ہیں۔تبصروں کے بارے میں ڈاکٹرسمیرا اعجاز نے بتایا ہے کہ یہ تبصرے اُن کے تحریرکردہ نہیں ہیں،صرف دستخط اُن کے ہیں۔کیوں کہ منیرنیازی کہتے تھے کہ تبصرہ لکھ کرلاؤ،میں دستخط کردوں گا۔ڈاکٹر صاحبہ نےاِس تمام نثری سرمائے کواُس کی اشاعتِ اولیں کے حوالے سے بھی معلومات بہم پہنچائیں ہیں۔کتاب کا فلیپ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب نے لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ’’منیرنیازی ایسے شاعرتھے کہ بہت جلد ہمارے حافظوں اورہماری تاریخِ ادب سے محو نہ ہوں گے،اسی طرح عزیزہ سمیرا کا منیرپرکیا جانے والا کام اوریہ مجموعہ بھی بھلائے نہ جا سکیں گے اورمنیر کے احوال وآثاراورمنیر کی معاصرشاعری اورادب پرمستقبل کے مطالعات میں مآخذ کا کام دیں گے‘‘۔
ڈاکٹرسمیرااعجازنے’’پیش لفظ‘‘ میں کتاب کا جوازبھی پیش کیا ہے کہ منیرنیازی اُن معدود ے چندادیبوں میں سے ہیں جن کی شاعری،جہاں منفردموضوعات اوراظہار کے نادرقرینوں کے سبب انتہائی اہم ہے،اہیں ان کی نثربھی اُن کی شاعری کی طرح نکتہ طرازاورفصاھت وبلاغت کا شاہکارہے۔منیرنیازی کی ادبی حیثیت اورمقام ومرتبے کا تعین اس بات کا متقاضی ہے کہ اس منفردشاعراورادیب کی تمام ترادبی جہات کی دریافت کی جائے۔ 580 صفحات پرمشتمل یہ کتاب سرگودھا یو نیورسٹی کے شعبہ اردو نے شائع کی ۔۔ قیمت ایک ہزار روپے ہے
فیس بک کمینٹ