پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پیشتر سرینگر کی ڈل جھیل کے کنارے پر ہمارا ایک وسیع سِیڈ فارم تھا جہاں دیگر پھولوں کے علاوہ ڈہلیا کے کھیت تھے اور وہ حجم میں اتنے بڑے ہوتے تھے کہ صرف تین پھولوں سے ایک گلدان بھر جاتا تھا۔۔۔والد صاحب تب اس خطے کے سب سے بڑے بیجوں کے ادارے کے مالک تھے اور اُن کا کاروبار برما اور سری لنکا تک پھیلا ہوا تھا، یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برما کے برطانوی محاذ کے لئے سبزیوں اور پھولوں کے بیج اور زرعی اوزار سپلائی کئے، تقسیم ہوئی تو کشمیر ہم سے بچھڑ گیا اور والد صاحب نے میرے ننھیال گکھڑ منڈی کے ریلوے سٹیشن کے پہلو میں کئی ایکڑ زمین ٹھیکے پر حاصل کی اور وہاں ایک پُر فضا سِیڈ فارم قائم کیا۔ مجھے رنگ محل مشن ہائی سکول چھوڑ کر گکھڑ کے نارمل سکول میں تیسری جماعت میں داخلہ لینا پڑا۔۔۔میں ایک شہری بچہ تھا، میرا ایک پس ماندہ قصبے میں دل نہ لگتا تھا۔۔۔ ابا جی نے میرا دل لگانے کی خاطر میرے لئے تتلیوں کی افزائش کی۔۔۔گویا اُنہوں نے مجھے اڑان کرنے والے رنگارنگ پھڑپھڑاتے ہوئے کھلونے دیئے۔ کیا آج تک کسی باپ نے اپنے بیٹے کو ایسے رنگین اور پرواز کرتے کھلونے دیئے؟میرا خیال ہے کہ نہیں۔۔۔
اُنہوں نے مُولیوں کے پتّوں کو چاٹتی بدرنگ سُنڈیوں کو درجنوں کے حساب سے جمع کیا۔ اُنہیں دو کورے گھڑوں میں ڈالا۔ اُن کی خوراک کے لئے شہتوت کے پتّے گھڑوں میں ڈال کر اُن کے منہ ململ کے کپڑے سے ڈھانک دیئے تاکہ وہ سانس لے سکیں۔۔۔روزانہ ململ کے وہ کپڑے الگ کرکے گھڑوں میں شہتوت کے تازہ پتے ڈالے جاتے۔۔۔تقریباً ایک ہفتے کے بعد ابا جی نے ایک گھڑے سے ململ کا وہ حجاب اتارا تو میرے کانوں میں ایک پھڑپھڑاہٹ کی سرگوشی سنائی دی۔ گھڑے میں سے ایک سچ مچ کی تتلی پھڑپھڑاتی ہوئی ظاہر ہوئی اور پھر اُس کے پیچھے آپس میں اُلجھتی درجنوں تتلیاں باہر آنے لگیں۔۔۔وہ میرے ابا جی کے سفید بالوں پر بیٹھتی تھیں، چارپائی پر بکھرے اُن کی زراعتی کتابوں کے مسودوں پر اترتی تھیں اور کچھ تنی ہوئی پتنگوں کی مانند آسمان میں اٹھتی چلی جاتی تھیں۔
بہت برس بیت گئے۔۔۔ نہ صرف بچپن بلکہ جوانی بھی بیت گئی جب ایک سجری سویر میں قدرت کے سب سے منفرد عجائب ’’سنولیک‘‘پر ہولے ہولے قدم دھرتا تھا اور میرے قدموں تلے برف کی نامعلوم گہرائیاں تھیں۔ جب میرے کانوں میں ایک پھڑپھڑاہٹ اتری۔۔۔ نقطۂ انجماد سے گرے ہوئے جمود میں تتلیاں اڑتی پھرتی تھیں۔۔۔ وہ سنولیک کے کناروں پر ابھرتی شاندار چٹانوں کی جانب سے اڑان کرتی تھیں اور پھر سنولیک کے انجماد کی تاب نہ لا کر مردہ ہو کر برف پر گر جاتی تھیں، گرتی تھیں اور اُن پر برف کی باریک تہہ جم جاتی تھی اور وہ ایک شیشہ فریم میں حنوط ہو جاتی تھیں۔۔۔ زیادہ کہاں محدود سے چند لوگ ہی ایسے ہوں گے جو ’’سنولیک‘‘ تک پہنچے، اگر پہنچے تو کیا اُنہوں نے یہ معجزہ دیکھا کہ تمہارے قدموں میں حنوط شدہ تتلیوں کے برفیلے فریم ہیں۔ اگر دیکھا تو بیان نہیں کیا، شاید اس لئے کہ وہ جو بدبودار کریہہ النظر سنڈیوں سے تتلیوں کی رنگینیِ نوبہار تخلیق کرنے پر قادر ہے اُس نے اس معجزے کا مشاہدہ صرف میرے نصیب میں لکھ دیا تھا۔ اور اُس لمحے میری روح کے پاتال میں ایک تلاطم نے جنم لیا اور میرا پورا بدن تتلیوں کی پھڑپھڑاہٹ سے سنسنانے لگا اور مجھے خبر ہو گئی یاد کردی گئی کہ وہ جو دوسرا گھڑا تمہارے ابّا جی نے کھولا نہ تھا وہ آج۔۔۔اگرچہ وہ مر چکے ہیں لیکن اُنہوں نے صرف میرے لئے سنو لیک پر اُس گھڑے کو ڈھکنے والے ململ کے حجاب کو الگ کردیا ہے اور یہ سب تتلیاں، میرے آس پاس پھڑپھڑاتی اور میرے قدموں میں تصویر ہوتی سب کی سب ابّا جی کی جانب سے بھیجے ہوئے میرے لئے اڑان کرتے رنگ رنگ کھلونے ہیں۔۔۔ مجھے یاد ہے میں سنولیک سے واپسی پر چند مردہ تتلیاں محفوظ کر لایا تھا۔
ازاں بعد جتنے بھی سلسلے پہاڑوں کے قدموں تلے آئے، جتنے گلیشیئر عبور کئے اور جتنے گھنے جنگلوں میں سے گزر ہوا، یہ تتلیاں میرا پیچھا کرتی رہیں۔ آؤ مدینے چلیں۔۔۔اسی مہینے چلیں۔۔۔ہم جانے کس مہینے مدینے جا رہے تھے جب سمیر نے کہا ۔۔۔’’ ابّا۔۔۔ اب اپنے مدینے کے سفر میں تتلیاں نہ ڈال دینا‘‘ میں نے ذرا ناراض ہو کر کہا۔۔۔کیا ملطلب کہ ڈال نہ دینا۔۔۔تتلیاں ہوتی ہیں، اُس نے مسکرا کر کہا‘‘پر اتنی تو نہیں ہوتیں جتنی آپ ڈال دیتے ہیں‘‘، تو میں مزید ناراض ہوا ’’بچے میں کوئی منشی تو نہیں ہوں کہ تتلیاں شمار کروں اور اُن کی تعداد ایک حساب دان کی مانند کھاتے میں درج کروں‘‘۔۔۔بس کچھ لمحوں کے بعد دائیں جانب کے سنہری صحرا کی جانب سے سفید چھوٹی چھوٹی تتلیوں کا ایک غول نمودار ہوا اور ونڈ سکرین سے ٹکراتا، اُسے چھوتا، بائیں جانب کے ویرانوں میں گم ہو گیا۔۔۔ ’’کیوں سمیر، گواہ رہنا، تتلیاں ہیں کہ نہیں‘‘، ’’پر اتنی نہیں ابا جی جتنی آپ نے ڈال دینی ہیں‘‘۔
اور یہ قصہ تو ابھی کل کا ہے، حراموش کے گاؤں کی شب میں جب کہ ہماری خیمہ گاہ کے درمیان میں ایک الاؤ بھڑکتا تھا اور اُس کی سلگاہٹ میں سے راکھ کے ذرّے جنم لے کر سرد ہوا کے دوش پر ڈولتے پھرتے تھے۔ میں حسبِ خصلت اور مجبوری اپنی خیمہ گاہ سے ذرا دور ہوا، کوہ حراموش کی برفوں کے سیاہ سائے میں جو جنگل تھا اُس کے کناروں تک تنہا ہونے کے لئے چلا گیا۔ میرا زوال پذیر بدن سردی سے کپکپاتا تھا جب میں نے فضا میں اترتے ہوئے ذروں کو دیکھا اور یہی جانا کہ وہ الاؤ کی راکھ سے جنم لینے والے راکھ ذرّے ہیں جو ہوا میں آوارہ ہوتے ہیں۔ پر وہ میرے چہرے پر اترتے تو پگھل جاتے۔ میری آنکھوں میں اترتے تو آنسو ہو جاتے اور تب مجھ پر کھلا کہ وہ راکھ کے نہیں برف کے ذرّے ہیں اور وہ تو سفید تتلیوں کی مانند آسمانوں سے نازل ہوتے جاتے تھے۔۔۔میں نے ہتھیلی پھیلائی تو وہ میری قسمت کی لکیروں میں جذب ہونے لگیں۔۔۔یہ سب میرے ابا جی کے دوسرے گھڑے میں سے فرار ہونے والی تتلیاں تھیں جو نہ صرف سنو لیک کی برفوں میں حنوط تھیں، مدینے کے راستے میں ہماری کار کی ونڈ سکرین سے ٹکراتی تھیں اور اب حراموش کی سرد شب میں برف کے ذرّوں کی صورت میری آنکھوں میں اترتی اُن میں برفیلے آنسو بھرتی تھیں، اور ہر تتلی میرے ابا جی کا وہ بوسہ تھا جو اُنہوں نے میرے کان میں اذان دینے کے بعد میرے گالوں پر ثبت کیا تھا۔ تتلیوں کی صورت آج بھی ابا جی اپنی قبر کے نور میں سے میرے لئے، رخساروں کے لئے وہ پہلا بوسہ، اذان کے بعد، بھیجتے رہتے ہیں۔ میرے رخسار نم رہتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ