آج پاکستانی سینیٹ میں بجا طور سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ نومبر میں پاکستان کی افواج کے سربراہ کے عہدہ سے سبکدوش ہونے والے جنرل (ر) راحیل شریف ایک ایسے فوجی اتحاد کی سربراہی کرنے کےلئے سعودی عرب بھیج دیئے گئے ہیں جس کے اصول و ضوابط اور مقاصد واضح نہیں ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کے علاوہ دیگر سینیٹرز کی طرف سے یہ سوال اس وقت اٹھایا گیا جب وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سعودی عرب کی نگرانی میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے بتایا کہ اس اتحاد کے قواعد و ضوابط طے نہیں ہو سکے ہیں۔ اس لئے اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ انہوں نے بتایا کہ اتحاد میں شامل رکن ممالک کا اجلاس بھی منعقد نہیں ہو سکا جس میں اس اتحاد کے اغراض و مقاصد کے بارے میں حتمی فیصلہ ہوگا۔ انہوں نے البتہ سینیٹ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان ایسے کوئی قواعد قبول نہیں کرے گا جو اس کی خارجہ پالیسی کے خلاف ہوں۔ سینیٹ کے چیئرمین نے واضح کیا کہ جنرل راحیل شریف نومبر میں آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ جب فوجی اتحاد کی نہ شکل و صورت واضح ہے اور نہ ہی اس کے اغراض و مقاصد طے ہوئے ہیں تو حکومت نے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کو کس طرح سعودی عرب روانہ کر دیا۔ پاکستان جوہری صلاحیت کا حامل ملک ہے۔ جنرل راحیل شریف کو فوج کے سربراہ کے طور پر ملک کے ایٹمی اثاثوں اور رازوں سے آگاہی ہے۔ ایسے شخص کی خدمات فوجی خدمات کےلئے کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنا بجائے خود تشویشناک امر ہے۔
سرتاج عزیز نے اگرچہ سینیٹرز کے چبھتے ہوئے سوالوں کا جواب یہ کہہ کر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس تقرری سے پاکستان کی خارجہ پالیسی متاثر نہیں ہوگی۔ لیکن حقیقت حال تو یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی ہے لیکن ملک کی حکومت خارجہ پالیسی کے حوالے سے پرانے بیان جاری کر کے کام چلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارت کے علاوہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ابتری سامنے آئی ہے۔ امریکی حکومت اعلان کر رہی ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔ اس سے سیاسی امور کی عام سی تفہیم رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دوری اور بھارت کے ساتھ قربت کی پالیسی کو مزید واضح کرے گا۔ اس کا ایک اشارہ سینیٹر جان مکین کی قیادت میں پاکستان اور افغانستان کا دورہ کرنے والے وفد کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات میں سامنے آیا تھا جن میں انہوں نے پاکستان پر افغانستان کی صورتحال کی ذمہ داری عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان اس حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرے گا تو امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس کا دوسرا زیادہ واضح اشارہ امریکی ایوان نمائندگان میں 621 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ منظور کرتے ہوئے پاکستان کےلئے فوجی امداد محدود و مشروط کرتے ہوئے دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ بجٹ تجاویز میں ایوان نمائندگان نے ایک قرارداد بھی شامل کی ہے جس میں امریکی وزارت دفاع و وزارت خارجہ کو تین ماہ کے اندر بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون و روابط کے بارے میں واضح منصوبہ تیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ کیونکہ کانگریس کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون میں فروغ امریکہ کی سلامتی کےلئے بے حد ضروری ہے۔
ایک طرف امریکی حکومت اور کانگریس بھارت کے ساتھ دفاعی معاملات میں اشتراک و تعاون بڑھانے پر زور دے رہی ہے تو دوسری طرف امریکی حکام پاکستان کے اس احتجاج کو خاطر میں لانے کےلئے تیار نہیں ہیں کہ بھارت، افغانستان کے راستے پاکستان میں قوم پرست تحریکوں کی سرپرستی کرنے کے علاوہ براہ راست دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ پاکستان یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس کے پاس افغانستان میں ’’را‘‘ کی سرگرمیوں کے ثبوت موجود ہیں جو اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ کو فراہم کر دیئے گئے ہیں۔ بلوچستان سے گزشتہ برس کلبھوشن یادیو نے گرفتاری اور اس سال کے شروع میں طالبان کے سابقہ نمائندے احسان اللہ احسان نے خود کو پاک فوج کے حوالے کرنے کے بعد یہ بیانات دیئے تھے کہ کس طرح بھارتی ایجنٹ افغانستان میں متحرک دہشت گرد گروہوں کے ذریعے پاکستان میں تخریب کاری میں ملوث ہیں۔ لیکن یہ امر باعث حیرت ہے کہ امریکہ میں جب بھی افغانستان یا بھارت کی صورتحال کے بارے میں بات ہوتی ہے تو پاکستان پر براہ راست یا بالواسطہ ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن کسی بھی سطح پر پاکستان کی شکایات کا ذکر کرنا یا ان کا حوالہ دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ صورتحال پاکستان کی قومی سلامتی کے علاوہ خارجہ پالیسی بنانے والوں کےلئے سنگین چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن اس بارے میں کوئی واضح اشارہ سامنے نہیں آیا۔
مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والے حالات بھی پاکستان کے خارجہ و سلامتی مفادات کے حوالے سے خطرناک موڑ اختیار کر رہے ہیں۔ مئی میں سعودی عرب نے 50 سے زائد اسلامی ملکوں کو ایک کانفرنس کےلئے مدعو کیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ و موثر حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ پاکستان نے انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگرچہ اپنے سابقہ آرمی چیف کی خدمات سعودی عرب کے حوالے کی تھیں تاکہ وہ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کر سکیں لیکن سعودی عرب نے کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم کو اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ کسی بھی ایسے فورم پر جہاں دہشت گردوں سے نمٹنے کا معاملہ زیر غور ہو، گزشتہ دس برس سے اس کا مقابلہ کرنے والے ملک کی قیادت سے مشورہ اور رہنمائی حاصل کرنا اہم ہو سکتا تھا۔ خاص طور سے جب اسی مقصد سے بنائی جانے والی اسلامی فوج کی قیادت بھی اسی ملک کے سابق آرمی چیف کے حوالے کی گئی ہو تو اس ملک کے لیڈروں کی آؤ بھگت کرنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ صدر ٹرمپ اور شاہ سلمان کی تقریروں سے واضح ہو گیا، اسلامی ملکوں کا یہ اجتماع دراصل ایران کے خلاف اعلان جنگ کےلئے منعقد کیا گیا تھا۔ پاکستان چونکہ اس جنگ میں فریق بننے کےلئے تیار نہیں ہے، اس لئے ذاتی دوستی اور نواز شریف کی سعودی عرب کےلئے خدمات کے باوجود اس بڑے اجتماع میں انہیں نظر انداز کرنے اور بات کرنے سے محروم رکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پاکستان کے سابق جنرل اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے معاون خصوصی جنرل (ر) راحیل شریف بھی اس حوالے سے اپنے ملک کے وزیراعظم کی کوئی مدد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
آج قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے ایک بار پھر خلیج تعاون تنظیم کے سب ملکوں سے خوشگوار تعلقات رکھنے اور مشرق وسطیٰ میں اختلافات کے خاتمہ کےلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن وزیراعظم بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی باتیں ریاض یا ابوظبی کے حکمرانوں پر بے اثر ہوں گی۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن قطر کے ساتھ سعودی عرب اور اس کے حلیفوں کی پنجہ آزمائی ختم کروانے کےلئے مشرق وسطیٰ کا دورہ کر چکے ہیں۔ لیکن امریکہ کی امداد اور تحفظ کے محتاج ان ملکوں نے قطر کے حوالے سے ان کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کی پشت پر ہیں اور ٹرمپ اور سعودی عرب کے شاہ سلمان مل کر مشرق وسطیٰ میں سفارتی اور عسکری ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے ایران کا اثر و رسوخ محدود کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ قطر پر بائیکاٹ کی صورت میں دباؤ اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی طرح اب یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ جو اسلامی فوجی اتحاد سب اسلامی ملک دہشت گردی کے خلاف بنا رہے تھے، اسے دراصل ایران کے خلاف سعودی عرب کے ایجنڈا کو آگے بڑھانے کےلئے استعمال کیا جائے گا۔ اس لئے یہ سوال تو پیدا ہونا ہے کہ پھر پاکستانی فوج کے سابق سربراہ اس اتحاد کی تشکیل میں کیا کردار ادا کرنے کےلئے بدستور ریاض میں مقیم ہیں۔
جنرل راحیل شریف فوج کی خواہش اور حکمت عملی کے تحت سعودی عرب گئے تھے۔ دیگر اہم قومی معاملات کی طرح ملک کی سول حکومت اس معاملہ میں بھی فوج کی خواہش کو رد کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی۔ اس کی ایک واضح وجہ تو یہی ہے کہ ملک کی ہر سیاسی حکومت برسر اقتدار رہنے کےلئے فوج کو خوش رکھنا ضروری سمجھتی ہے۔ تاہم اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس کوئی متبادل پالیسی نہیں ہے اور نہ وہ پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کرتے ہوئے ملک کو درپیش خارجی و داخلی خطرات کا مقابلہ کرنے کےلئے موثر اور ٹھوس حکمت عملی سامنے لا سکی ہے۔ اسی لئے آج سرتاج عزیز اسلامی فوجی اتحاد اور جنرل راحیل شریف کے حوالے سے معذرت خواہانہ اور غیر واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور تھے۔
ایسی صورت میں فیصلے خواہ اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس میں ہوتے ہوں یا راولپنڈی کے جنرل ہیڈ کوارٹرز میں ۔۔۔۔۔۔۔ انہیں قومی ضرورتوں اور معروضی حالات کے مطابق ہونا چاہئے۔ کم از کم اس مقصد کےلئے تو حکومت اور فوج ایک دوسرے کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کےلئے قابل عمل پالیسی بنا سکتے ہیں جو اس وقت پاکستان کو درپیش ہیں۔ تب ہی کوئی حکومتی نمائندہ سینیٹرز کے اس سوال کا جواب دے سکے گا کہ جنرل راحیل شریف سعودی عرب میں کیا کر رہے ہیں۔
(بشکریہ:کاروان ۔۔ ناروے)
فیس بک کمینٹ