یہ اُن دنوں کا قصہ ہے جب ایام جہالت اور نوعمری کے بخار میں مجھے مشہور لوگوں کے آٹو گراف حاصل کرنے کا خبط ہو گیا۔۔۔ اور میرامعیار صرف شہرت اور بدنامی تھے۔۔۔ میری آٹو گراف بک ایک ایسا اصطبل تھی جس میں مشہور شاعر، ادیب کرکٹ کے کھلاڑی، فلمی اداکار، مفکر، عالم دین، مسخرے اور صحافی سب کے سب ساتھ ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ پرنس علی خان اور ہالی وڈ کی اداکارہ ایوا گارڈنر کے ہمراہ مولانا مودودی بھی جلوہ افروز تھے۔۔۔ آٹو گراف حاصل کرنے کی اس دیوانگی کے دوران ’’چٹان‘‘ کے دفتر کے باہر میں نے آغا شورش کاشمیری کے سامنے دست آٹو گراف دراز کر دیا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ انہوں نے میری آٹو گراف کے ورق پلٹے کہ وہاں کون کون لوگ ہیں اور وہاں گورنر نواب مشتاق احمد گورمانی کے دستخط بھی تھے تو انہوں نے اس ورق کی پشت پر آٹو گراف ثبت کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم لوگ ان لوگوں کی پشت پر سواری کرتے ہیں‘‘۔
اُنہی زمانوں میں آغا صاحب کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘ شائع ہوئی جس میں ہیرا منڈی یا بازار حسن کے ذاتی مشاہدوں پر مبنی قصے تھے اگرچہ کچھ ناروا اور فحش نوعیت کے تھے اور یہ کتاب دنوں میں ایک بیسٹ سیلر ہو گئی۔۔۔ ہم نے اسے چوری چھپے پڑھا، بزرگوں سے نظر بچا کر پڑھا۔۔۔ ’’اُس بازار میں‘‘ اگر آج کے زمانوں میں شائع ہوتی تو حضرت شورش کب کے علماء کرام کے فائرنگ سکواڈ سے ہلاک ہو چکے ہوتے لیکن بدقسمتی سے وہ زمانے ذرا ’’روشن خیال‘‘ تھے۔۔۔ اس لیے شورش شہید نہ ہوئے، جہاں اُن کی نثر میں آغا حشر ایسا ایک ڈرامائی لہجہ اور سج دھج تھی وہاں شاعری پر اُن کی قدرت بھی بے مثال تھی۔ ’’اُس بازار میں‘‘ کے آغاز میں بھی اُن کی شاعری کے شاندار لب و لہجے والے کرشمے ہیں، کبھی پڑھ لیجیے گا۔
’رات اُس بازار میں اِک حو روش کی سیج پر
اِک فقیہہ شہر کی ریش حنائی بک گئی
دھن دھنا دھن کی صدا میں کھو گیا احساس زہد
منبر و محراب کی شعلہ نوائی بک گئی
بک گئی بکنے کی شے تھی پارسائی بک گئی۔
ان دنوں بیک وقت میں تین سفرناموں کو ترتیب دینے میں دنیا سے غافل ہوا جاتا ہوں۔۔۔ سندھ کا سفرنامہ ’’اور سندھ بہتا رہا‘‘، پنجاب کے سفر ’’پیار کا پہلا پنجاب‘‘ اور پھر ’’لاہور آوارگی‘‘۔۔۔ اگر آوارگی ہو اور اُس میں لاہور کی ہیرا منڈی کا تذکرہ نہ ہو تو وہ کیا آوارگی۔۔۔ اور ان اجڑ چکے حسن کے بازاروں کے بارے میں جب یہ بازار آباد تھے یہ شورش کاشمیری کی کتاب ’’اُس بازار میں‘‘ تھی جسے میں نے دوبارہ پڑھا، شورش کی نظروں سے ہیرا منڈی کو دیکھا۔
شورش کا کہنا ہے کہ پچھلے زمانوں کے لوگ طوائف کو ایک ثقافتی ادارہ سمجھ کر اُس کے ہاں آتے تھے (کیسے بھلے زمانے تھے) اُن کا معاملہ بدن کا نہ تھا تہذیب کا تھا چنانچہ سر سید نہایت شوق سے گانا سنتے تھے بلکہ ایک طوائف نے علی گڑھ یونیورسٹی کے لیے ایک بڑی رقم عطا کی۔۔۔ (اور جب کچھ ’جہلا‘ کرام نے اعتراض کیا کہ یہ گندی رقم ہے تو سر سید نے کہا تھا کہ فکر نہ کیجیے اس سے ہم گندی جگہیں یعنی ٹائلٹ وغیرہ تعمیر کروائیں گے)۔۔۔ مولانا شبلی، شرر، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی ، یہ زعماء گانا سننے جاتے تھے۔۔۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال کی محبوبہ امیر، اور پھر ہمارے اخلاق کی اصلاح کرنے والے بزرگ اکبر الہ آبادی نے بوٹا بیگم سے نکاح پڑھوایا تھا۔ آغا حشر نے مختار بیگم کے عشق میں ڈرامے لکھے۔ امیر سے جب کبھی اقبال کا ذکر آتا وہ مسکرا دیا کرتی۔۔۔
شورش نے ایک ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’21 اپریل 1948ء کی شب پاکستان میں پہلا یوم اقبال تھا، ادھر یونیورسٹی میں حکیم الامت کے عقیدت مند فلسفۂ خودی چھانٹ رہے تھے، اُدھر ریڈیو پر کلام اقبال نشر ہو رہا تھا اور کہیں کہیں فٹ پاتھ پر خوش لحن فقیر ’’ساقی نامہ‘‘ الاپ رہے تھے۔۔۔ گیا دورِ سرمایہ داری گیا۔
خان کو اصرار تھا کہ ہم اُس کی معیت میں امیر سے ملیں (جانے یہ کونسے خان تھے، شورش نے پورا نام درج نہیں کیا) علامہ اقبال آغاز جوانی میں اس امیر ہی کی آواز کے معترف تھے۔۔۔ اور یہ حسن اتفاق تھا کہ آج اس کے ہاں کسی تقریب کا اہتمام تھا (عین ممکن ہے کہ وہ بھی یوم اقبال منا رہی ہوں) امیر کی بیٹیاں جن کا آفتاب ان دنوں نصف النہار پر ہے، خوبصورت کبوتریوں کی طرح غٹر غوں غٹر غوں کر رہی تھیں، سب پشتیفی رنڈیاں اس کے ہاں مدعوتھیں، تمام احاطہ بقعہ نور بنا ہوا تھا جیسے اپسراؤں کا کوئی غول ستاروں سمیت کرۂ ارضی کی اس ٹکری پر اُتر آیا ہو۔
آج کی رات، اُف او میرے خدا آج کی رات
امیر چھیاسٹھ برس کے سن میں ہے ممکن ہے کبھی خوب رو ہو، مگر اب عمر رفتہ کا ایک جھوٹا جھول ہے۔ یا نظر بہ ظاہر چچوڑی ہوئی ہڈیوں کا ایک ڈھیر، جس میں دھوئیں کی سڑاند رہ گئی ہے۔ رنگ سنولا چکا بلکہ سیاہ ہوتا جا رہا ہے ، بال سفید ہو چکے ہیں، دانتوں میں کھڑیاں نکل آئی ہیں اور لہجہ مریل ہو چکا ہے۔
الٰہی جان نے کہا ’’خالہ یہ کچھ پوچھناچاہتے ہیں‘‘ امیر نے آنکھیں کھول دیں گویا کسی بھولی بسری حکایت کا تعاقب کر رہی ہیں۔ ہم نے سوال کیا تو اُس کے بوڑھے چہرے کی جھریاں مسکرائیں، جیسے کسی گمشدہ کہانی کے الفاظ بکھر گئے ہیں اور وہ اُنہیں ایکا ایکی جوڑ دینا چاہتی ہے، اقبال کے نام سے اُس کی بجھی ہوئی آنکھوں میں ایک نور سا جاگ اٹھا لیکن بسرعت مدھم ہو گیا، گویا ایک چپ سو سکھ۔۔۔ اُس نے کچھ بتانا قبول نہ کیا، ہمارا اصرار بڑھا تو قدرے جھنجھلا کر کہا، ہمارے ہاں مردوں کے کفن پھاڑنے کا رواج نہیں، انسانی گوشت کی چاٹ بری ہوتی ہے، ایک دفعہ منہ لگ جائے تو شراب کے نشہ سے بڑھ کر خوار کرتی ہے، اس عمر میں انسان کو خوف خدا کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا، جب خدا کا خوف نہیں تھا تو سب کچھ یاد تھا۔۔۔ ہم نے بات کو طول دینا چاہا اور تقاضا کیا کہ وہ اُن صحبتوں کی کوئی کہانی چھیڑے جب حکیم الامت علامہ اقبال، سر عبدالقادر ، گرامی اور ناظر وغیرہ حاضر ہوتے تھے لیکن اُس نے کھوکھلے قہقہوں میں ہمارے استفسار کو سمیٹا ، پھر ذرا ترش ہو کر کہا ۔۔۔’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا است۔۔۔ میں کوئی کتاب نہیں کہ اٹھایا، ورق پلٹے جس صفحے یا پیرے پر نظر ٹھہری اُس کو کھنگالنا شروع کیا،پرانی باتیں وقت کے ساتھ مرجاتی ہیں، اُن رازوں کی ٹوہ میں رہیے جو زندگی میں راہنما ہوا کرتے ہیں، اُن باتوں کی کھوج سے فائدہ جو آپ کو نفع نہیں دے سکتیں لیکن دوسروں کومحض اس لیے نقصان پہننچتا ہو کہ آپ کے کان اس ذائقہ سے عاری ہو چکے ہوں۔۔۔ یاد رکھئے ہم لوگ راز فروشی نہیں کرتے یہ کام شریفوں کا ہے‘‘ہمیں یقین ہو گیا کہ امیر اس معاملے میں سر خفی ہے گو اس کا روپ مر چکا ہے لیکن اس کی آن نہیں مری، اس کی خودی زندہ ہے‘‘۔
اقبال اکیڈمی کی جانب سے شائع کردہ حیات اقبال کے تذکرے میں اس امیر نام کی طوائف کا حوالہ موجود ہے جو علامہ کی منظور نظر رہی تھی۔۔۔ بلکہ ایک بار جب اس کی والدہ محترمہ نے علامہ اقبال کو کوٹھے پر آنے سے منع کر دیا تھا کہ ایک شاعر زیادہ منافع بخش نہیں ہوتا تھا تو ان کے دوستوں نے اس نائکہ سے ذاتی طور پر گزارش کی تھی کہ یہ پابندی اٹھا دیجیے، ہمارے شاعر پر شعر اترنے بند ہو گئے ہیں۔ اگرچہ شورش کاشمیری نے جو قصہ بیان کیا ہے مجھے کسی حد تک اس سے اختلاف ہے۔۔۔ انہوں نے طوائف امیر کی زبان سے جو کچھ نہایت ڈرامائی اور تھیٹریکل زبان میں کہلوایا ہے وہ امیر کی نہیں شورش کی اپنی زبان اور لہجے کی کارستانیاں ہیں۔ ایک طوائف چاہے وہ حکیم الامت کی محبوب رہی ہو کلام پر اس قدر قدرت نہیں رکھتی۔ اگر شورش خصوصی طور پر امیر کی بیٹیوں کے ’’آفتاب‘‘ کو نصف النہار پر قرار دیتے ہیں تو آخر در پردہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں، مجھے اُن کی نیت پر کچھ شک ہے۔۔۔ اب اس بکھیڑے کے سلسلے میں اقبال شناس کچھ مدد کریں کہ اصل قصہ کیاتھا۔۔۔