اخبارات ورسائل کے لیے ڈکلریشن حاصل کرنے کی آزادی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اخبار اوررسالے بڑی تعداد میں شائع ہونے لگے ہیں۔ہرگلی ،ہرمحلے سے کوئی نہ کوئی ماہنامہ یاہفت روزہ شائع ہورہاہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا۔اخبارات میں کام کرنے والے کاتب اور مالکان کے ستائے ہوئے دوسرے بہت سے کارکن ردعمل کے طورپر ایڈیٹر بن گئے ہیں۔اب نام کے ساتھ صرف ایڈیٹر لکھ لینے سے تو بات نہیں بنتی ۔ایڈیٹر بننے کے بعد اپنی اخبار یا رسالے کاپیٹ بھی بھرناہوتا ہے۔یاتو ایڈیٹر میں خوداتنی صلاحیت ہو کہ اگر اس کو اپنے پرچے کے لیے مواد نہ ملے تو خود ہی سارے پرچے کے لیے مضامین تحریر کرڈالے۔لیکن یہاں حالت یہ ہے کہ ہم نے بہت سے ایڈیٹروں کو اداریہ لکھوانے کے لیے دوسروں کی منت کرتے دیکھا ہے۔پرچوں کاپیٹ بھرنے کا اب ایک ہی طریقہ باقی ہے ۔طریقہ یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب قینچی لے کرمختلف اخبارات اوررسائل کا آپریشن کرتے ہیں اوراپنی پسند کے مضامین فوٹو سٹیٹ کروا کر یادوبارہ کتابت کروا کے اپنے پرچے کی زینت بنالیتے ہیں۔یوں کسی ایک بڑے اخبار میں شائع ہونے والا کوئی بھی مضمون آج کل بہت سے چھوٹے اخبارات اوررسائل کی زینت بھی بن جاتا ہے۔ہمارے انشائیہ نگاردوست محمد اسلام تبسم کے ایک انشائیے کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا ۔لیکن مدیر محترم نے ان کامضمون شائع کرکے ان کی شہریت بھی مشکوک کردی۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ اسلام تبسم کاایک انشائیہ ستمبر1989ءمیں ”غنڈے“ کے عنوان سے روزنامہ” امروز“کے جمعہ میگزین میں شائع ہواتھا۔دوماہ قبل ہم نے یہی انشائیہ ”سیاسی غنڈے“ کے عنوان سے ملتان کے ایک پرچے میں دیکھا۔پرچے کانام ”کلیم “ ہے۔اس کے ایڈیٹر ابن کلیم ہیں۔ابن کلیم صاحب ملتان کے معروف خطاط ہیں اور ماہنامہ ”کلیم“ خطاطی کے فروغ کے لیے ہی شائع کرتے ہیں۔ماہنامہ” کلیم “میں جو انشائیہ ”سیاسی غنڈے“ کے عنوان سے شائع ہوا اس کے ساتھ نام تو اسلام تبسم کاہی درج تھا لیکن آگے بریکٹ میں ناروے بھی لکھا تھا۔ہم پہلے تو یہی سمجھے کہ یہ کوئی نئے اسلام تبسم صاحب پیداہوگئے ہیں جو ناروے میں مقیم ہیں لیکن جب ہم نے انشائیہ پڑھا تو وہ ہمارے ”اسلام تبسم“ کاتھا۔اس پر ہمیں یہ شک گزرا کہ شاید اسلام تبسم واقعی ناروے منتقل ہوگئے ہیں۔ویسے بھی دوچارہفتوں سے ہماری ان کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن جب اسلام تبسم ہمیں ایک روز ناروے کی سڑک کی بجائے چوک ڈیرہ اڈا میں اپنی پرانی سائیکل پرہی سواردکھائی دیئے تو ہم نے انہیں بھی ناروے والاقصہ سنادیا۔اسلام نے کہاکہ ”بھائی ،میں تو کبھی نارووال نہیں گیا،بھلا ناروے کیسے جاسکتا ہوں“۔آخر کار ہم دونوں اسی نتیجے پرپہنچے کہ ابن کلیم صاحب نے غالباً اسلام تبسم کے ساتھ سہواً ناروے لکھ دیا ہے اوراگرانہیں اپنی غلطی کااحساس ہوا تو وہ تصحیح بھی کردیں گے۔
اسلام تبسم بھی بہت جذباتی ہیں ۔انہوں نے ایڈیٹرابن کلیم کے نام ایک خط لکھ دیا جس میں بغیر اجازت مضمون کی اشاعت پر احتجاج اور پھرنام کے ساتھ ناروے لکھنے کو اپنے ساتھ ناروا سلوک قراردیا۔اسلام کے اس خط کا ردعمل یہ ہوا کہ تازہ شمارے میں ابن کلیم نے جو ضروری تصحیح شائع کی ہے وہ کچھ اس قسم کی ہے کہ ہم گزشتہ شمارے میں جن اسلام تبسم کامضمون ”سیاسی غنڈے “ کے عنوان سے شائع کیاتھا وہ ناروے میں مقیم ہیں اور ملتان والے اسلام تبسم کا اس مضمون سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ہمیں افسوس اس بات کا نہیں کہ ابن کلیم صاحب نے معذرت کرنے کی بجائے اپنی غلطی پرڈٹے رہنا پسند کیا بلکہ دکھ اس بات پر ہے کہ ہمارا اسلام تبسم مفت میں اپنی شہریت ہی نہیں انشائیے سے بھی محروم ہوگیا۔ہم تو اب اس دن کے منتظر ہیں جب ماہنامہ ”کلیم“ میں کینیڈا کے انورجمال ،لندن کے عرش صدیقی،ٹوکیو کے محمدامین اورنیروبی کے ہلال جعفری کی تخلیقات شائع ہوں گی اورساتھ میں یہ بھی وضاحت ہوگی کہ ان تحریروں کا ملتان والے انورجمال،عرش صدیقی،محمد امین اور ہلال جعفری سے کوئی تعلق نہیں۔
روزنامہ امروز لاہور
17مئی 1990ء