آپ جانتے ہی ہوں گے کہ میں دیگر لوگوں کی نسبت کچھ ابنارمل سا ہوں۔ میرا ذہن بھٹکتا رہتا ہے۔ ممکنات اور تصورات کے ویرانوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ میں اپنی حیات میں اورخاص طور پر اپنے ادب میں بہت کم سیدھے راستے پر چلا کہ میری جستجو مجھے ان راستوں میں پڑتی گلیوں میں جھانکنے اور کچھ دیر ان کے اندر سفر کرنے پر مجبور کرتی رہی اور یوں میں نے بہت کچھ ایسا عجب دیکھا کہ بعد میں مجھے بھی یقین نہ آیا کہ کیا واقعی میں نے وہ کچھ دیکھا تھا۔ کیا واقعی جب وہ مجھے ایک انتہائی موت کے قریب لے جانے والے آپریشن کے لیے سٹریچر پر آپریشن تھیٹر لے جارہے تھے تو کیا واقعی میں نے اپنی ماں کو ایک سلیٹی رنگت کے بیاباں میں کھڑے دیکھا تھا۔ کیا غار حرا کی رات میں واقعی… یہ قصے پھر سہی لیکن میں آپ کو ایک عجب تصوراتی تجربے میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔ اندلس کے شاعر فریڈریکو گارسیا لورکا جس کی مکمل شعری سلطنت پچھلے دنوں میرے حواس پر چھائی رہی۔ معلوم ہوا کہ پابلونیرودا، چلی کا عظیم انقلابی شاعر بھی گارسیا لور کا دوست رہا تھا۔ اگرچہ اس سے عمر میں کم ہی ہو گا لیکن وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ پابلو نیرودا فیض احمد فیض کو جانتا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کی شاعری کے مداح تھے۔ ان دونوں کی تصاویر گواہی دیتی ہیں اور میں فیض احمد فیض کو جانتا تھا، ان کے ساتھ کچھ ملاقاتیں اگرچہ سرسری ٹھہریں لیکن کم از کم دو شامیں ایسی تھیں جو فجر تک ان کی رفاقت اور شاعری میں گزاریں تو ذرا غور کیجئے کہ میرے قدرے ابنارمل ذہن میں اس خیال نے تقویت پکڑ لی کہ گارسیا لور کا پابلونیرودا کو جانتا تھا، نیرودا فیض صاحب کو جانتا تھا اور میں فیض صاحب کو جانتا تھا تو گویا میں گارسیا لور کا کو جانتا تھا۔ یعنی ایک کڑی ہے ربط کی جو چلی آ رہی ہے۔ لورکا نے نیرودا کو چھوا ہوگا۔ نیرودا فیض صاحب سے بغلگیر ہوا ہو گا اور کم از کم ایک بار میں بھی فیض صاحب سے گلے ملا تھا تو یوں کیا لورکا کے شعری احساسات اور جذبے کچھ نہ کچھ تو مجھ میں منتقل ہو گئے ہوں گے کہ اس کی شاعری پڑھتے ہوئے میں کیوں کبھی کبھی خود گارسیا لورکا ہو جاتا ہوں۔ آخر کیوں میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ انقلاب کی بیری فاشسٹ قوتوں نے جب اسے عین جوانی میں غرناطہ کے باہر ایک ویرانے میں ہلاک کر ڈالا تو انہوں نے مجھے ہلاک کر ڈالا کہ میں بھی تو کبھی غرناطہ میں تھا اور پھر مجھے اپنے اس حماقت آمیز تخیل پہ ہنسی آتی ہے کہ بابا تارڑ آپ تو اسی کے پیشے میں چلے آتے ہو اور بیکار ہی چلے آتے ہو، کہ نہ کچھ کام کا ادب تخلیق کیا، نہ تمہارا کچھ نام ہوا اور لورکا تو اڑتیس برس کی عمر میں ہلاک کردیا گیا اور وہ کام کرگیا جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا اور نامور ایسا ہوا کہ ایشیا کا ایک گمنام ادیب اس کے نام کی مالا جپتا ہے۔ لورکا ایک جینئس تھا، ایک بے چین روح تھا اور وہ ہمیشہ اذیت میں رہتا تھا، خوف میں رہتا تھا، موت کے خوف میں مبتلا رہتا تھا، اس کی نظموں کے مزاج میں بے حد تنوع پایا جاتا ہے۔ کبھی سرگوشیاں کرتی، کبھی چیختی، کبھی درخواستیں کرتی، محبت کرتی، ہنستی، روتی، آہیں بھرتی اور رقص کرتی۔ اور جب جنرل فرانکو سے پوچھا گیا کہ لورکا کیسے ہلاک ہوگیا تو اس نے کہا ’’جنگ کے قدرتی حادثات کے نتیجے میں‘‘ ’’چاند نے ایک خنجر ہواؤں پر منتظر رکھ دیا ہے اور اس کی دھار خون کے درد کے لیے ترستی ہے اور جب میں نے تمہیں بہت دور سے دیکھا میں نے اپنی آنکھوں میں ریت بھر دی لیکن جب میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا تو وہ مجھے سیدھا تمہارے دروازے پر لے گیا اور جب لورکا نے ایران کے حافظ شیراز کی رومانوی شاعری پڑھی تو وہ اس کا دیوانہ ہوگیا، اس کے نقش قدم پر چلنے کی آرزو کرنے لگا اور یوں اس نے اپنے ایک شعری مجموعے کا نام حافظ کی پیروی میں ’’تماریت دیوان‘‘ رکھا۔ تماریت ایک رہائش گاہ کا نام تھا اور اس میں شامل شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک ’’گسیلا‘‘ یا غزل اور دوسرا ’’کاسیدہ‘‘ یعنی ’’قصیدہ‘‘ میں قطعی طور پر آگاہ نہ تھا کہ لورکا نے غزلیں اور قصیدے بھی لکھے ہیں اور یوں لورکا نے نہ صرف اپنے مورش ماضی پر فخر کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے مسلمان شاعری کی پیروی بھی کی۔ رات تو آنا ہی نہیں چاہتی تو کیا تم بھی نہیں آؤ گی میں کیسے جا سکتا ہوں لیکن مجھے جانا ہی پڑے گا لورکا کی غزلوں کا رنگ سرسر اندلسی مزاج اور جذبے کا تھا کوئی بھی اس مہک کو نہیں سمجھتا سمجھ سکتا نہیں جو تمہاری راتوں کے سیاہ میگنولیا پھولوں سے آتی ہے کس کو کیا پتہ کہ محبت کا گنگناتا پرندہ تمہارے دانتوں میں پھنس کر شہید ہو گیا ہے لورکا اپنی ایک غزل ’’حیرت بھری محبت‘‘ میں اپنے محبوب کو ایک محبت کے سرکنڈے اور نم آلود گل یاسمین سے تشبیہہ دیتا ہے۔ لورکا کے جتنے بھی قصیدے ہیں وہ بھی محبت، جدائی، جذبے اور موت کے بارے میں ہیں۔ لورکا کا ایک عزیز دوست اگناسیو جو بل فائٹر تھا ایک دوپہر کسی بھینسے کے سینگوں میں پرویا گیا اور ہلاک ہوگیا۔ لورکا نے اس کا ’’مرثیہ‘‘ لکھا میں اس کی لاش نہیں دیکھنا چاہتا چاند سے کہو کہ وہ اسے دیکھ لے مجھ سے تو اگناسیو کا خون دیکھا نہیں جاتا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا میری یادداشت میں آگ لگ گئی ہے یاسمین کے پھولوں کو خبر کردو تجھے کبھی خبر نہ ہوگی کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں کیونکہ تم میرے اندر خوابیدہ ہو، سو چکی ہو لورکا کی شباہت گری اور تشبیہات کی آئینہ گری، حیرت گیری ہے۔ مثلاً زیر آب لفظ تیرتے ہیں اور پانی کی سطح پر ایک گول چاند تیرتا ہے لورکا کا ڈرامہ ’’دے بلڈ ویڈنگ‘‘ یعنی ’’خون کی شادی‘‘ دنیا کے اہم ترین ڈراموں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کا ہر مکالمہ اس لائق ہے کہ اسے شاہکار مکالوں کی فہرست میں درج کرلیا جائے۔ مثلاً وہ ماں جس کے بیٹے مارے گئے ہیں وہ اپنے آخری بیٹے کی زندگی کی دعائیں کرتی ہے اور پچھلے زمانوں کو یاد کرتی ہے۔ کسی گلی میں خاک میں جذب ہوتا اپنا ہی خون دیکھنا، اس سے بدتر کوئی دیکھنا نہیں ہوتا۔ وہ خون، برسہا برس لگ جاتے ہیں اسے پرورش کرنے میں اور پھر وہ ایک لمحے میں بہہ جاتا ہے۔ جب میں نے اپنے بیٹے کو گلی کے درمیان میں مرتے دیکھا تو میں نے اس کے خون میں اپنے ہاتھ گیلے کئے اور میں نے انہیں اپنی زبان سے جانا کہ یہ میرا اپنا خون تھا۔ کیا آپ اب بھی شک کرسکتے ہیں کہ گارسیا لورکا اور میں آپس میں بندھے ہوئے ہیں۔ نیرودا اور فیض کی نسبتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ تھم چکے دریاؤں کے اوپر بیس سورج طلوع ہورہے ہیں اور وہ پھول کاڑھتی چلی جاتی ہے گارسیا لورکا جو ’’اندلش میں اجنبی‘‘ کے زمانوں میں مجھ پر آشکار ہوا تھا قرطبہ، دور افتادہ اور تنہا سیاہ فجر او رسرخ چاند آہ انجام یہ کہ موت میری منتظر ہو قرطبہ، دور افتادہ اور تنہا
( بشکریہ : روزنامہ نئی بات )
فیس بک کمینٹ