ہم سیم ریپ کے شہر اور انگ کور واٹ کے مندروں سے پچاس ساٹھ کلومیٹر کی مسافت کے بعد کمبوڈیا کے دل میں داخل ہورہے تھے۔ سڑک کے دونوں جانب ایک ایسا جنگل تھا جس کے شجر، جھاڑیاں، بیلیں اور عجیب شکلوں کے پودے الگ الگ دکھائی نہ دیتے تھے۔ یہ سب آپس میں الجھے ہوئے اتنے تھے کہ ان کی شناخت نہ ہو سکتی تھی۔ اتنی گھناوٹ تھی ہر یاول تھی کہ اس میں ایک تتلی بھی داخل نہ ہو سکتی اور یہ گھناوٹ ایک ہراسمندر تھا جو سڑک پر امڈا چلا آتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس امڈتے ہوئے جنگل کو روکنے کے لیے ایک پورا محکمہ ہے جس کے اہلکار کلہاڑیوں اور قینچیوں کے ساتھ اسے مسلسل کاٹتے رہتے ہیں۔ اگر اس گھناوٹ کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ دو تین مہینوں کے اندر وہ اس سڑک کو سبز اژدھے کی مانند ہڑپ کرلے گی۔ یہ سڑک جنگل کے گھنے پن میں دفن ہو جائے گی۔ انگ کور واٹ کا شہر عالم میں انتخاب تھا۔ ان زمانوں میں دنیا کا سب سے بڑا اور متمول شہر تھا جب لندن کی آبادی ایک لاکھ بھی نہ تھی۔ اس شہر اور اس کے گرد پھیلے سینکڑوں شاندار مندروں میں کئی لاکھ لوگ مقیم تھے۔ پھر آج تک آثار قدیمہ کے ماہر طے نہیں کر سکے کہ یکدم یہ عظیم تہذیب زوال پذیر کیسے ہو گئی۔ موسم کے اثرات تھے، اپنے وسائل سے بڑھ کرمندر تعمیر کرنے کے اخراجات تھے۔ بہرطور جو بھی وجہ تھی انگ کور واٹ کو ترک کردیا گیا اور پھر جنگل امڈ آیا اور انگ کور واٹ کی پوری تہذیب کو نگل لیا۔ سینکڑوں معبد‘ مندر‘ عالی شان محلات سب کے سب جنگلوں میں دفن ہو گئے۔ بالآخر اس آبشار کا شور سنائی دینے لگا جسے دیکھنے کی ہوس میں ہم نے اتنی طویل مسافت اختیار کی تھی۔ آبشار تک اترنے والے پھسلن راستے کے گرد حسب معمول ایک سیاحتی اور خوراکی بازار تھا۔ بہت کچھ کوئلوں پر بھونا جارہا تھا۔ مینڈک، سور کے بچے وغیرہ تو تھے ہی لیکن وہاں سیخوں میں پروئے ہوئے غالباً چوہے تھے جن کے دانت نمایاں ہورہے تھے اور لوگ انہیں نہایت رغبت سے کھا رہے تھے۔ وہ گلہریاں بھی ہوسکتی تھیں، عین ممکن ہے کوئی اور مخلوق ہو۔ آبشار ذرا گہرائی میں تھی اور اس تک اترتی کوئی سو کے قریب پھوار میں بھیگی ہوئی سیڑھیاں تھیں تو مونا انکاری ہو گئی کہ تم ہو آؤ۔ تو میں ہو آیا۔ اوپر جنگلوں کی تاریکی میں سے پانی نمودار ہوتے تھے اور ایک پرشور آبشار کی صورت تالابوں میں گرتے تھے۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی کہ آبشار کے پانیوں سے اشنان کرنے والوں کی اکثریت ہندوستان کی تھی۔ موٹی بھی اور کالی بھی خواتین شاید بنگال بہار کی یا مدراس کی ساڑھیوں سمیت ڈبکیاں لگا رہی تھیں۔ شکر ہے کہ میں نے ڈبکی لگانے سے گریز کیا کہ بعد میں کھلا کہ یہ تو انتہائی فحش اور گندے گندے پانیوں کی آبشار تھی۔اللہ تعالیٰ نے مجھے فحاشی اور عریانی کا مرتکب ہونے سے بچا لیا۔ اس آبشار کے فحش نظارے کرنے کے بعد ہم واپس آئے۔ لینڈ کروزر میں سوار ہوئے اور آبشار کے آگے کے پہاڑوں میں چلے گئے اور وہاں وہ قدیم دریا یا پہاڑی ندی تھی جس کی کشش مجھے کھینچ لائی تھی۔ ہم اس ندی کے بہائو کناروں پر امڈے ہوئے جنگلوں میں راستہ بناتے چلنے لگے۔ ہم بہت دور تک جنگلوں سے الجھتے چلے اور پھر ان کی نیم تاریکی میں ایک جھونپڑا معبد نظر آیا جہاں بدھ کے مجسمے کے گرد کچھ موم بتیاں روشن تھیں اور ہم ڈر گئے کہ اس شہر ہول میں وہ کون ہے جو چراغ جلا گیا۔ آس پاس کوئی نہ تھا تو ہم سہم گئے اور واپس ہو گئے۔ میں کیوں یہاں تک کشاں کشاں چلا آیا تھا۔ اس کا ایک سبب تھا۔ آج سے ہزار برس پیشتر بھی یہ دریا یہیں بہتا تھا۔ تب شیو مہاراج کے ایک پجاری مہاراجے نے حکم دیا کہ دریا کا رخ عارضی طور پر موڑ دیا جائے اور پھر اس کی تہہ میں بچھے سب پتھروں کو تراشا جائے۔ کناروں پر ہندو دیو مالا کے نقش ہوں اور دریا کی تہہ کے پتھروں پر شیولنگ اور یونی کی شبیہہ تراشی جائیں۔ چنانچہ ہزاروں سنگ تراش جت گئے، برس ہا برس لگ گئے کہ جہاں سے دریا جنم لیتا تھا وہاں سے شروع ہو کر جہاں دریا ایک آبشار کی صورت گرتا تھا وہاں تک ان شکلوں کو تہہ کے پتھروں میں سے تیشوں کے ساتھ نمایاں کرنا تھا اور یہ کئی کلومیٹر طویل بہاؤتھا اور جب یہ منصوبہ مکمل ہوا تو دریا کا رخ پھر سے موڑ دیا گیا اور اس کے پانی مجسموں، دیویوں، دیوتاؤں، مہاراج شیو لنگ اور پاربتی کی یونی کی شکلوں پر بہنے لگے اور ہاں اس کے پانی گہرے نہ تھے۔ گھٹنوں تک آتے تھے اور ان کی تہہ شفاف اور شکلوں سے تراشی ہوئی صاف دکھائی دیتی تھی۔ میں پھر کبھی قدیم ہندو تہذیب کے اس پہلو پر بات کروں گا آخر کیوں وہ لنگ اور یونی کی پرستش کرتے تھے۔ ویسے تو ہمارے ہاں بھی کٹاس راج مندروں کے جمگھٹے میں ایک پوشیدہ کمرے میں شیولنگ ایستادہ ہے اور سیالکوٹ کے پورن بھگت کے کنویں کی قربت میں ایک ’’یونی‘‘ مندر موجود ہے۔ بہر طور عقیدے سے کیا بحث کہ اس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ لیکن یہ دریا ایک عجوبہ تھا کہ اس کی پوری تہہ کے پتھروں پر ہزاروں برس پیشتر تراشے ہوئے ’’خدا‘‘ دکھائی دیتے تھے۔ آبشار کے پانیوں میں اسی لیے ہندوستانی لوگ اشنان کرتے تھے کہ یہ ہزاروں شولنگ اور یونیوں پر سے بہتے ہوئے آتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک انڈین خاندان نے اس دریا کے پانیوں کو فلاسکوں میں ڈالا اور تبرک کے طور پر لے گئے۔ ازاں بعد ہم ذرا اور بلندی تک گئے اور وہاں چٹانوں کی اوٹ میں بہت سے بدھ بیٹھے تھے۔ ہم نے کنول کے پھولوں کے دو گلدستے خریدے اور جو بھی بدھ پیارا لگا اس کے چرنوں میں بھینٹ کردیئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ وہاں ایک ایسا بدھ ہے جو بہت شاندار ہے اور ہزاروں برسوں سے استراحت فرما رہا ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لیے ہمیں جو گرز اتارنے پڑتے اور سیڑھیاں چڑھنی پڑتیں تو ہم نے سوچا کہ مہاتما کو کیا ڈسٹرب کرنا، اگر ہزاروں برسوں سے سوئے ہوئے ہیں تو ان کو کچی نیند سے جگانا مناسب نہیں۔ بائے بائے بدھ جی! واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ ہم کچھ دیر دنیا کے واحد ’’لینڈ مائن میوزیم‘‘ یا ’’ بارودی سرنگوں کے عجائب گھر‘‘ میں ٹھہرے جو ایک ایسے شخص نے قائم کیا تھا جس نے جنگوں کے دوران کھیتوں اور آبادیوں میں ایک جنگجو کے طور پر ہزاروں لینڈ مائنز بچھائی تھیں اور جب وہ ان کی تباہ کاریوں سے آشنا ہوا تو اس نے اپنی زندگی انہیں دریافت کر کے تباہ کرنے اور خلق خدا کو ان کی ہولناکیوں سے آگاہ کرنے اور یہ میوزیم قائم کرنے کے لیے وقف کردی۔ ہم ’’نبت سرائے‘‘ مندر کی جانب جا رہے تھے جب کسی ’’مسافر سرائے‘‘ مندر کو دیکھنے کے لیے رکے۔ یہ مندر حسب معمول داخلے کے بعد کوئی ایک کلومیٹر کے فاصلے پر دکھائی دے رہا تھا۔ میں اس مندر کا تذکرہ کرتا اگر مجھے وہاں ایک آٹھ دس برس کی کمبوڈین بچی نہ ملتی جو ایک شاعرہ تھی۔ ہر مندر کے باہر بہت سے کمبوڈین بچے سیاحوں کو ورغلا رہے ہوتے ہیں کہ یہ شال خرید لو۔ یہ سویٹر یا کتاب خرید لو اور وہ ان میں سے ایک تھی لیکن وہ بھنبھیریاں بیچ رہی تھی جو اس کی ماں کاغذ سے بناتی تھی جو گھومتی تھی جیسے ہمارے ہاں کی بھنبھیریاں ہوتی ہیں بالکل ویسی۔ وہ میرے قریب آئی اور ایک بھنبھیری کی تہوں میں پھونک مار کر بولی ’’دیکھو یہ گھومتی ہے۔ یہ ایک بھنبھیری نہیں، تمہاری خواہشوں کی کشتی کے بادبان ہیں جو تمہیں تمہارے خوابوں کے جزیروں تک لے جائیں گے۔ یہ ایک تتلی ہے جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ تمہاری ماں کے مہرے پر بیٹھ جائے گی۔ یہ صرف ایک بھنبھیری نہیں ہے۔ میں واپس لینڈ کروزر کی ٹھنڈک میں منتظر مونا کے ہاں آیا تو وہ کہنے لگی یہ کیا خرید لائے ہو۔ ہماری اگلے روز آخری منزل ’’نبت سرائے‘‘ کا گلابی تاج محل تھا۔ پنک سینڈ سٹون میں سے تراشا ہوا ایک ’’روز ریڈ ٹمپل‘‘ تھا۔ ایک ’’عورتوں کا مندر‘‘ تھا۔ اور اس کے حزن آمیز افسوں کو بیان کرنے کے لیے ایک ’’مہا بھارت‘‘ درکار ہے جس کے لیے یہ کالم، اس زندگی کی مانند کافی ہے۔ اس شب کمبوڈیا کے شہر سیم ریپ کی آخری شب میں میری سائیڈ ٹیبل پر اس شاعرہ کی بھنبھیری پڑی تھی۔اور شب بھر رہا چرچا ترا۔ ایک تتلی میری ماں کے مہرے پر پھڑ پھڑاتی تھی اور میری خواہشوں کی کشتی کے بادبان کھلتے گئے اور مجھے خوابوں کے جزیروں تک لے گئے۔ اور خواب جتنے بھی تھے سب کے سب سراب تھے۔ اول و آخر فنا کے خواب سراب۔ یہ خواب تمام اور کمبوڈیا تمام۔
(بشکریہ:روزنامہ 92نیوز)
فیس بک کمینٹ