جی ہاں، پورے ایک ماہ بعد وزیرِ اعظم عمران خان کی کراچی یاترا ہوئی۔ نہ جانے کیسے اور کیوں یہ روایت پڑ گئی ہے کہ ادھر کوئی شخص صدر، وزیرِ اعظم، گورنر، وزیرِ اعلیٰ یا میئر بننے بھی نہیں پاتا کہ کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہو جاتا ہے کہ اب جناب مزارِ قائد پر حاضری دینے کے لیے کب تشریف لائیں گے۔
سو منتخب یا نامزد ہوتے ہی ہمارے بڑے چھوٹے حکمراں پورے پروٹوکول کے ساتھ ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیے مزارِ قائد پر بدستِ دعا ہوتے ہیں۔ اور تو اور، نئے آئی جی سندھ کلیم امام بھی اتوار کے دن اپنی پوری بٹالین کے ساتھ مزارِ قائد پر فاتحہ فرما رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس کے اگلے ہی دن چیف جسٹس کے ہاتھوں اپنی کارکردگی پر جھاڑیں کھا رہے تھے۔
آئی جی سندھ کا ذکر تو برسبیلِ تذکرہ کررہا تھا۔ بات اپنے محترم عمران خان کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلی بار کراچی آمد پر ہورہی تھی کہ 5 سال پہلے وزیرِ اعظم نواز شریف، اُس سے 5 سال پہلے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی، اُس سے بھی پہلے وزیر اعظم شوکت عزیز، اور اس سے پہلے دیگر وزرائے اعظم تک میری یادداشت کے مطابق سارا سیٹ اور اسکرپٹ وہی ہوتا ہے۔
امید بھی یہی تھی اور نیک دلی سے خواہش بھی کہ ہمارے تبدیلی لانے کے دعویدار وزیرِ اعظم اور اُن کے ساتھ آزمودہ مشیرانِ کرام ’تاثر‘ دینے کی حد تک ہی اس میں تھوڑی بہت تبدیلی ڈال دیں گے۔مگر برسوں بلکہ دہائیوں سے درجنوں سربراہانِ مملکت کو بھگتانے والی سویلین، ملٹری اصلی تے وڈی سرکار نے بھی لگتا ہے 18 اگست کو حلف اٹھاتے ہی Blue Book پکڑا دی ہوگی جسے نعوذباللہ حکمرانوں کے لیے ’آسمانی صحیفے‘ کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ سو ہمارے خان صاحب کراچی ایئر پورٹ سے ہیلی کاپٹر پر اڑتے تپتی دوپہر میں 1 بجے مزارِ قائد پہنچے جہاں انہوں نے فاتحہ خوانی میں پون گھنٹہ گزارا۔جب وہ مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کر رہے تھے، تو بس ایک بات بار بار ذہن میں آتی رہی کہ آخر یہ سیاستدان ایسی جگہوں پر اس کتاب میں آخر لکھتے کیا ہوں گے، کبھی تو یہ بھی عوام کے سامنے لانا چاہیے کہ مزارِ قائد پر فاتحہ کے لیے آنے والے یہ سیاستدان آخر کیا تاثرات رکھتے ہیں۔سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیا جتنی مستعدی حاضریاں دینے میں لگائی جاتی ہے، اتنی کیا کبھی قائدِ اعظم کے اقوال پر عملدرآمد کرنے میں دکھائی گئی ہے؟خیر، فاتحہ خوانی میں پون گھنٹا گزارنے کے بعد اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس، جسے سابق صدر ممنون حسین کی طرح ہمارے محترم صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی صدارتی کیمپ کی حیثیت میں برقرار رکھا ہوا ہے، وہاں 2 بجے سے 3 بجے تک گورنر عمران اسمٰعیل، وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ اور وزیر اعظم عمران خان کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی۔اب عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں اکثر ہونے والی نوک جھونک کے پیشِ نظر اس حوالے سے بھی نہایت چہ مگوئیاں رہیں کہ درونِ خانہ اس ملاقات میں کیا کیا گفتگو ہوئی ہوگی۔ مگر کیا کریں کہ اس طرح کی ون ٹو ون ملاقاتوں میں جب کوئی فریقین کے علاوہ کوئی موجود ہی نہ ہو، تو فریقین یا ان کے ترجمانوں کا سہارا لیے بغیر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔3 بجے سے 4 بجے کے دوران امن و امان کے حوالے سے بریفنگ میں صدر، گورنر، وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ڈی جی رینجرز، کور کمانڈر کراچی، چیف سیکریٹری، ہوم سیکریٹری، کمشنر کراچی اور آئی جی سندھ کو شامل کر لیا گیا۔ حسبِ روایت ہر صدر اور وزیر اعظم کی طرح ایک گھنٹہ یعنی 4 سے 5 متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے لے لیا۔سننے میں تو یہی آیا ہے کہ متحدہ اپنے رکنِ قومی اسمبلی امین الحق کو وزارت برائے اوورسیز پاکستانیز دلوانا چاہتی ہے مگر حکمراں جماعت اس پر رضامند نہیں ہے۔ چنانچہ اسی مسئلے پر گفتگو کے لیے انتہائی مصروف شیڈول میں یہ ایک گھنٹہ بھی شامل کیا گیا۔ اب طے کیا پایا ہے اور کیا نہیں، کچھ طے پایا بھی ہے یا نہیں، یہ تو آنے والے دنوں میں ہی پتہ چلے گا۔5 سے 6 بجے کا وقت اخبارات اور چینل مالکان کے لیے مخصوص تھا۔ اس دوران ہم بیچارے اینکرز کو پونے 5 بجے ہی طلب کر لیا گیا تھا کہ تب سے ساڑھے 6 بجے تک بریفنگ ہوگی، اور پھر ساڑھے 6 سے اگلے 30 منٹ تک ایکسکلوژیو بات ہوگی اور پھر 7 بجے گورنر ہاؤس میں ڈیمز کے لیے ڈنر، اور پھر اُسی شب واپسی۔2 سے 3، پھر 3 سے 4، پھر 4 سے 5 اور 6 بجے تک کن اہم امور پر گفتگو ہوئی وہ رات گئے تک اسکرینوں پر بریک ہوتا رہا۔ بقیہ تفصیل سے پرنٹ میڈیا پر آچکا ہے۔ مگر خان صاحب نے ہمارے سابقہ وزرائے اعظم کی طرح کراچی میں شب بسری نہ کرنے کی روایت برقرار رکھی۔ ایک ایک گھنٹے میں ہر فریق اور ہر میٹنگ کو بھگتاتے رہے۔ کیا ملک کا سب سے بڑا شہر ملک کے سب سے بڑے عہدے کی تھوڑی زیادہ توجہ کا مستحق نہیں؟پھر بات کرتے ہیں گورنر ہاؤس میں ہونے والے ڈنر کی۔ درجن بھر اینکروں کا یہ اجتماع صحافی برادری کا کتنا نمائندہ تھا، اس پر سوال اس لیے نہیں اٹھاؤں گا کہ بھئی پی ٹی آئی والے جسے چاہیں بلائیں، اُن کی حکومت ہے۔ ہاں جب یہ خبر بریک ہوئی کہ ہمارے قریبی دوست اور صحافی مبشر زیدی کو پہلے بلا لیا گیا اور پھر منع کر دیا گیا تو ہم نے بھی سوچا کہ ہم بھی ‘بائیکاٹ، بائیکاٹ’ کا نعرہ بلند کرتے ‘واک آؤٹ’ کرجائیں۔ایک سینیئر صحافی کی اس ہتکِ عزت کس کے کہنے پر اور کیوں کی گئی، اس کے حوالے سے پی آئی ڈی نے مزید کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا۔ایک زمانہ تھا کہ جب کسی صحافی کے ساتھ تنکا برابر زیادتی بھی ہوتی تو ساری پریس کانفرنس ‘درہم برہم’ ہوجاتی تھی، مگر اُن پریس کانفرنسوں میں واقعی صحافت کے پیشے سے دیانتدار سینیئر صحافی ہوتے تھے۔ ارد گرد نظر دوڑائی تو دو چار ہی آشنا نکلے اور اُن کی آنکھیں بھی انکار کا ہی پیغام دے رہی تھیں۔ہمارے محترم وزیرِ اعظم نے اسلام آباد کے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے 2 ہفتے پہلے کہا تھا کہ 90 دن تک اُن پر تنقید نہ کریں، اس لیے جو کچھ محترم خان صاحب نے کہا اُس پر آمناً صدقاً۔ 90 دن گزرنے میں دن بھی کتنے لگنے ہیں۔ 20 دن تو گزر ہی گئے۔ بقیہ رہے 70 دن تو یہ بدقسمت پاکستانی قوم تو 70 برس سے انتظار کی عادی ہے، سو خان صاحب 90 دن کیا 900 دن لے لیجیے۔
فیس بک کمینٹ