اُردو کے ہر دل عزیز شاعر اقبال ارشد طویل علالت کے بعد 4 ستمبر 2018ءکو نشتر ہسپتال ملتان میں انتقال کر گئے۔ یہ خبر جب مختلف ٹی وی چینلز اور فیس بک پر دکھائی دی تو میرے فون پر درجنوں احباب نے رابطہ کیا۔ دریافت کیا جنازہ کب اور کہاں پر ہے؟ ان کے انتقال کے بعد تدفین کے معاملات کو برادرم تحسین غنی دیکھ رہے تھے۔ تو انہوں نے اطلاع کی کہ 4 ستمبر کو شام چھ بجے انہیں سپردِ خاک کیا جائے گا۔ اقبال ارشد کے انتقال کی خبر پھر ان کی نمازِ جنازہ کا وقت ملتان والوں کو بتانے کے لیے مجھ میں حوصلہ نہیں تھا کہ ٹھیک دو سال پہلے جب ان کے ہمزاد پروفیسر حسین سحر کا انتقال ہوتا ہے تو مَیں تب بھی کڑے امتحان میں گزرا تھا کہ اقبال ارشد کو کیسے بتا پاؤ ں گا حسین سحر کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس موقع پر سوشل میڈیا میرے کام آیا۔ دوستوں نے اپنی اپنی وال پر اقبال ارشد کے بچھڑ جانے کی خبر کو اہمیت دی یوں جب شام کے چھ بجے تو پیراں غائب قبرستان کی جناز گاہ سینکڑوں لوگوں سے بھر چکی تھی۔ وہ اقبال ارشد جس کے دونوں بیٹے و اہلیہ اس کی زندگی میں انتقال کر گئے۔ دو بیٹوں میں سے ایک نے بیٹی مدیحہ جعفری نے پہلے جوان بھائی کی موت کے بعد پہلے اپنی ماں کی طویل بیماری میں حوصلہ مند بیٹا بن کر خدمت کی کہ کم و بیش اقبال ارشد کی اہلیہ ایک عشرہ تک بستر سے لگی رہیں۔ نہ بات کر سکتی تھیں اور نہ ہی کچھ کھا سکتی تھیں۔ اقبال ارشد اور ان کی بیٹی نے وفاداری کی ایسی مثال قائم کی کہ دیکھنے والے دونوں کی ہمت کو داد دیتے۔ اقبال ارشد نے محبت کی شادی کی جب ان کی اہلیہ جوان بیٹے کی موت کے صدمہ میں فالج کا شکار ہوئیں تو ہم نے دیکھا اقبال ارشد ”کومے“ میں پڑی شریکِ حیات کے سامنے پڑھنے لکھنے کا کام کرتے۔ اس سے یک طرفہ باتیں کرتے۔ ان کی اہلیہ کا نام ثریا سلطانہ تھا لیکن پیار سے اسے ”شیا“ کہتے تھے۔ ”کومے“ کے بعد روزانہ اقبال ارشد گھنٹوں اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر خاموشی سے اپنی محبت کو دیکھتے رہتے۔ اس کی سانسوں کی مہک کو اپنی سانسوں میں کشید کرتے اور خوش ہوتے۔ اسی خوشی کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے اپنی محبت کے انتقال سے 40 منٹ پہلے ایک غزل کہی:
دیکھ لیتا ہوں تری ذات کی خوشبو کیا ہے
مجھ پہ ہے جو اثر انداز وہ جادو کیا ہے
ایک تو ہے ترے چہرے پہ بلا کی شوخی
دوسرا تجھ میں ستم گاری کا پہلو کیا ہے
رابط قائم و دائم رہے تجھ سے میرا
میرے ہونٹوں پہ سدا نعرہء یاہو کیا ہے
یہ چمک آنکھوں میں آ جائے ہماری ارشد
اس کی مٹھی میں ستارہ ہے کہ جگنو کیا ہے
اقبال ارشد اپنی اہلیہ کی بیماری کے دوران اپنی بینائی سے بھی محروم ہوئے کہ اپنے جوان بیٹے کے لیے اتنا روئے کہ جب وقت جدائی آیا تو وہ روشنی کو محسوس تو کر سکتے تھے لیکن دیکھ نہیں سکتے تھے۔ پروفیسر حسین سحر کی اہلیہ کا جب تین برس پہلے انتقال ہوا تو اس موقع پر انہوں نے جس انداز سے اپنے ہمزاد کی دلجوئی کی اس سے حسین سحر کو بہت حوصلہ ملا۔ اپنی اہلیہ کی وفات کے ٹھیک ایک سال بعد جب حسین سحر نے کفن اوڑھا تو ہمیں سب سے زیادہ مشکل اقبال ارشد کو یہ خبر سنانے میں پیش آئی۔ اس موقع پر ان کے دونوں بیٹے بھی موجود تھے لیکن پورے شہر نے اقبال ارشد سے برابر تعزیت کی۔ حسین سحر کے انتقال کے کچھ عرصہ بعد مَیں، رضی االدین رضی، نوازش علی ندیم اور تحسین غنی ان کی عیادت کے لیے گئے تو ہماری آوازیں سن کر اُٹھ کر بیٹھ گئے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد انہوں نے شہر کے اہلِ قلم کا پوچھنا شروع کیا۔ حسب سابق انہوں نے عاصی کرنالی کے لطیفے سنانے شروع کر دیئے۔ پھر مَیں نے پوچھا کہ آپ کی سحر صاحب سے آخری ملاقات کب ہوئی؟ تو کہنے لگے سحر بڑا آدمی ہے وہ اگر ملنے کے لیے نہیں آتا نہ آئے جہاں رہے خوش رہے۔ پھر اطہر ناسک کا ذکر لے بیٹھے اور پوچھنے لگے کہ بہت دنوں سے وہ آیا نہیں ہے لگتا ہے کسی نئی شادی کے چکر میں ہو گا (حالانکہ اطہر ناسک کو فوت ہوئے بھی کئی برس ہو چکے ہیں) اس ملاقات کے دوران کئی مرتبہ ہم سب کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوا۔ پھر ہم بوجھل قدموں سے اس شخص کے گھر سے اٹھے جو ملتان کی ادبی دنیا کا سب سے اہم ترین فرد تھا۔ اب وہ فرد آہستہ آہستہ اپنی یادداشت کھو رہا تھا۔ وہ اقبال ارشد جب سٹیج پر آ کر شاعری یا تقریر کرتا تھا تو ہزاروں لوگ مسخر ہو جاتے۔ اس دن کی ملاقات کے بعد ہم سب نے اندازہ لگایا کہ اقبال ارشد اب شاید ہی کسی تقریب میں آ سکیں۔ مَیں نے اور رضی نے کئی مرتبہ تحسین غنی سے کہا وہ کسی دن ان کو ملتان ٹی ہاؤ س لائیں۔ تحسین غنی ہمیشہ انکار کرتا رہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اقبال ارشد کے لیے اب گھر سے باہر آنا ناممکن تھا۔ یعنی وہ شخص جو دوستوں کے درمیان رہ کر زیادہ خوشی محسوس کرتا تھا۔ وہ اب کئی برسوں سے دوستوں کے بغیر شام و سحر بسر کر رہا تھا۔ یہی طرزِ زندگی اقبال ارشد کو موت کے قریب کر رہا تھا۔ اقبال ارشد نے اپنی شاعری کے ذریعے جو شہر ت پائی وہ ملتان کے گنے چنے لکھنے والوں کو ملی۔ ان کی بے شمار شاعری زبان زد عام ہوئی۔
تجھ سے کربِ ذات کا اظہار کیسے ہو گیا
تو محبت کے لیے مسمار کیسے ہو گیا
مَیں نے تو ہلکی سی دستک سے پکارا تھا اسے
شہر سارا نیند سے بیدار کیسے ہو گیا
ان کی درج ذیل غزل جب معروف گلوکارہ اقبال بانو نے گائی تو ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ خاص طور پر اس غزل کا پانچواں شعر تو ان کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔ مجھے اقبال ارشد پر بہت کچھ لکھنا ہے لیکن ابھی نہیں کہ فی الحال اپنے قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمارا شہر ملتان آہستہ آہستہ اپنے نامور لوگوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔
رگوں میں زہر کے نشتر اُتر گئے چُپ چاپ
ہم اہلِ درد جہاں سے گزر گئے چُپ چاپ
مسافرانِ محبت کی یہ کہانی ہے
چلے تھے شور مچاتے ٹھہر گئے چُپ چاپ
کسی پہ ترکِ تعلق کابھید کھل نہ سکا
تری نگاہ سے ہم یوں اتر گئے چُپ چاپ
اُداس چہروں میں رو رو کے دن گزار دیا
ڈھلی جو رات تو ہم اپنے گھر گے چُپ چاپ
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سُنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چُپ چاپ
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چُپ چاپ؟
شکستِ دل کی خبر تک نہ ہو سکی ارشد
ہم اپنی ذات میں ٹوٹے بکھر گئے چُپ چاپ