ملتان ۔۔ گردوپیش نیوز ۔۔ جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے پوری زندگی جدوجہد کرنے والے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی 22 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جب تک نوابزادہ نصر اللہ خان زندہ رہے،غیرجمہوری قوتوں کے دلوں میں جمہور یت پسندوں کا خوف غالب رہا۔ نوابزادہ نصر اللہ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ وہ ایک خوبصورت شاعر بھی تھے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں انہوں نے چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے پوری دنیا میں یہ مسئلہ اجاگر کیا ۔ وہ چھبیس ستمبر 2003 کو انتقال کر گئے تھے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کے صاحب زادے نوابزادہ افتخار احمد خان نے کہا ہے کہ نواب زادہ نصراللہ خان اپنی ذات میں سیاست کی اکیڈمی کا درجہ رکھتے تھے وہ میرے سیاسی اتالیق تھے ۔ انہوں نے کہا کہ خانگڑھ میں ان کی برسی ہر سال کی طرح شایان شان طریقے سے منائی جائے گی ۔ نوابزادہ نصراللہ نے ہمیں جو درس دیا ہم اس پر کاربند ہیں ۔ان کی سیاست کے لیے لفظ اکیڈمی وسیع تر معنی کے باوجود بہت چھوٹا ہے ملک میں یو ڈی ایف کا محاذ ہو یا کوئی بھی سیاسی تحریک نواب زادہ کے ذکر کے بغیر نہ مکمل رہے گی ۔
یہ انہی کی سیاست کا فیض ہے کہ آج ہم ایک نیک اور پاک دامنی کے ساتھ سیاست میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہوئے پیپلزپارٹی جیسے ایک ایسے پلیٹ فارم پر ہیں جہاں صرف اور صرف عوام کے حقوق کی بات ہوتی ہے اور ریاست کی حفاظت کی بات ہوتی ہے اس ریاست کے لیے اپنا خون دینے کی بات ہوتی ہے جناب بھٹو صاحب سے لے کر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید تک محترمہ بیگم نصرت بھٹو سے لے کر مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو تک سب نے عوام کے لیے اس ملک کے لیے اپنا خون دیا ہے اور زندگی گزاری ہے پیپلزپارٹی ہی ایک ایسی سیای جماعت ہے جس میں عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا گیا ہے یہ سیاسی پلیٹ فارم آج بھٹو صاحب کے نواسے اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید رانی کے صاحب زادے بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے انہیں محترمہ خاتون اول آصفہ بھٹو زرداری صاحبہ کی مدد بھی میسر ہے ان کے ہاتھ میں عوام کی خدمت اور اس ملک کی ترقی کا جو علم اٹھایا ہوا یہ حسینی قافلہ عوام کے لیے اور اس ریاست کے لیے آگے بڑھ رہا ہے اللہ اس کی قافلے کی حفاظت فرمائے۔

