اوسلو میں ’سزائے موت‘ کے عنوان سے نئی تھیٹر پرفارمنس درحقیقت جمہوریت، انصاف اور مزاحمت کی کہانی ہے۔ اسے تھیٹر کمپنی ٹونی عثمان پروڈکشنز کی جانب سے پیش کیا جارہا ہے۔ ’سزائے موت‘ کا پریمیئر وولدس لوکا سین، اوسلو میں 9 اکتوبر کو ہوگا۔
یہ ایک طاقتور مونو لاگ پرفارمنس ہے جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک اہم اور متنازع باب پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی زندگی اور ان کی 1979 میں پھانسی پر مبنی ہے۔ پرفارمنس میں بھٹو اپنے قید خانے سے براہ راست عوام سے مخاطب ہوتے ہیں، جہاں وہ اپنی آخری تقریر کرتے ہیں – جس میں اپنا دفاع، الوداع اور جمہوریت کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کی اپیل شامل ہے۔
’سزائے موت‘ ڈرامہ نہ صرف ماضی کے سیاسی حالات کو اجاگر کرتا ہے بلکہ آج کے دور کے مسائل جیسے کرپشن، آمریت، اور جمہوریت کی نازک حالت کے موضوعات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ ’سزائے موت‘ جمہوریت کی جدوجہد میں ایک نہایت اہم اور تازہ ترین کہانی ہے۔ اس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا جمہوریت اور سماجی انصاف مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں یا یہ اتنے نازک ہیں کہ غیر جمہوری طاقتیں انہیں جڑ سے اکھاڑ سکتی ہیں؟
’سزائے موت‘ ایک نیا مونو لاگ ڈرامہ پیشکش ہے جو نظریے کے مقابلے میں لالچ کے تصادم کو بیان کرتا ہے۔ اس میں اظہارِ رائے کی آزادی، جمہوریت، طاقت کی سیاست اور قریبی رشتوں سے جُڑی کمزوریوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پاکستان کے پہلے جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1977 میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے معزول کیا گیا اور 1979 میں ایک سیاسی طور پر جانبدار مقدمے کے بعد پھانسی دے دی گئی۔ پچھلے سال پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ بھٹو کے خلاف چلایا گیا مقدمہ ایک منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کرتا تھا۔ اب ان کی کہانی ناروے میں ایک ڈرامے کی شکل میں پیش کی جارہی ہے۔
یہ ڈرامہ بھٹو کی زندگی کو بنیاد بناتا ہے جنہیں 4 اپریل 1979 کو غیر منصفانہ طور پر پھانسی دی گئی تھی۔ اب وہ پاکستان کی سیاست میں ایک دائمی عنصر بن چکے ہیں۔ ان کی پھانسی کا وقوعہ آج بھی پاکستان کے افسوسناک سیاسی منظرنامے پر اثرانداز ہے۔ نارویجین ڈرامہ نگارٹونی عثمان نے اس کہانی کو استعمال کرتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح عدالتی نظام کے ذریعے ناپسندیدہ سیاستدانوں کو راستے سے ہٹانے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو آج بھی دنیا کے کئی حصوں میں جاری ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق، سزائے موت اب بھی 55 ممالک میں رائج ہے۔ اسے اکثر مخالفانہ آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ تھیٹر پرفارمنس بھٹو کے دور اور آج کی دنیا کے درمیان ایک پل بناتی ہے، جہاں جمہوری نظام بار بار آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ منظرنامہ یہ ہے کہ بھٹو (عمر 51 سال) ایک ناپسندیدہ سیاستدان ہیں۔ فوجی حکومت انہیں راستے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ وہ اٹھارہ ماہ سے جیل میں ہیں اور اب انہیں پھانسی دی جانی ہے۔ لیکن پھانسی سے پہلے، وہ ناظرین کو ایک سفر پر لے جاتے ہیں جس میں وہ ماضی کی جھلک دکھا کر حال کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ناظرین واضح طور پر دیکھیں کہ جمہوریت کو کن چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم کیسے تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے ترقی پسند اور متنازع شخصیات میں سے ایک تھے۔ لوگ انہیں یا تو بہت پسند کرتے تھے یا سخت ناپسند۔ اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ٹونی عثمان کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود وہ پاکستان کے سب سے باصلاحیت، عوامی اور قابل سیاستدان تھے۔
ٹونی عثمان کا کہنا ہے کہ یہ ڈرامہ ایک ایسے سفر پر لے جاتا ہے جس میں سیاسی و تاریخی، بلکہ جذباتی و حسیاتی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اس ڈرامہ میں ہم حقائق اور عوامی تاثر کی حدوں کو چھوتے ہیں۔ سیاسی طور پر منقسم اور اظہارِ رائے پر دباؤ والے ماحول میں ہم نئے زاویے دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایسے مسائل ہیں جو جمہوریت کے لیے مسلسل ایک چیلنج ہے۔
منفرد انداز میں پیشکش
یہ پرفارمنس مونو لاگ پر مبنی ہے مگر اس میں رقص، موسیقی، گیت اور ویڈیو پروجیکشن کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو اسے ایک مکمل فنی تجربہ بناتا ہے۔ اسٹیج کو گول شکل میں ترتیب دیا گیا ہے جو جیل کی کوٹھڑی کا منظر پیش کرتا ہے۔ سامعین اسٹیج کے گرد چاروں طرف بیٹھیں گے – گویا وہ خود عوام، جج یا جیوری ہوں۔
تخلیقی ٹیم
مصنف و ہدایتکار: ٹونی عثمان
اداکار ٹورگنی گیرہارد آندریا:
موسیقی و ساؤنڈ ڈیزائن پیٹر باڈن:
رقص: سدیش آدھانہ
ویڈیو ڈیزائن: للیا نیئرگارڈ
دیگر فنکاروں میں ملٹن مونڈال (سین ڈیزائن)، ماری بالانگرود (کوسٹیوم) اور انگر جوہانے بیئرنگ (لائٹنگ) شامل ہیں۔
’سزائے موت‘ صرف ایک فن پارہ نہیں بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے – یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جمہوریت اور انصاف کے لیے جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ اور ہر دور میں اس کی نئی شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں۔

