کئی دنوں سے فون پر دوستوں کا ایک سو ال باربار سننے کو مل رہاہے کہ تم اپنے پسندیدہ موضوع پر کیوں نہیں لکھ رہے۔مراقبہ ، تصوف،روحانیات پر دوستوں کی محافل میں گفتگو توہوتی رہی لیکن میں نے ان موضوعات پر بہت کم لکھا۔آج سوچا کیوں نہ مراقبہ پر قلم
اُٹھایا جائے کہ اس منشتر عہد میں ذہنی سکون کے لئے اس سے بہتر کوئی چیز نہیں۔لوگوں کی اکثریت تیزرفتارزندگی،مسائل اور وسائل کے عدم توازن،اقدار کی پامالی اور زوال پذیر معاشرے کو دیکھتے ہوئے ایک مسلسل ذہنی اذیت کاشکار ہے۔ضروری ہے کہ مراقبے کو فروغ دیا جائے اور زندگی کو جینے کے لائق بنایا جائے۔
مراقبہ انسانی ذہن کی ایک مقدس مہم جوئی ہے ۔عموماً ارتکازِ توجہ اور مراقبہ کو ایک ہی چیز سمجھا جاتا ہے لیکن مراقبہ ارتکازِ توجہ کی مشق نہیں یہ ایک طرز زندگی ہے ۔مراقبہ کامطلب کچھ کرنا نہیں صرف ’ہونا‘ ہے۔آپ کو جب بھی ا پنے لیے کچھ وقت ملے تو کام ترک کردیں۔ حتیٰ کہ سوچنا بھی ایک کام ہے۔آپ اپنے داخلی مرکز میں موجودہوں تو یہ مراقبہ ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کی ذات میں کوئی انتشار نہ ہو ۔ایک مکمل اطمینان سکون اور ہونے کااحساس۔لیکن مکمل آگاہی کے ساتھ مرحلہ صرف سمت کی تبدیلی کا ہے۔ہم باہر سے کچھ دیر کے لئے توجہ ہٹا کراپنے اندر مرکوز کرتے ہیں۔مراقبے کا اصول ہی آگہی کے ساتھ دیکھنا ہے۔مراقبہ آپ کی حساسیت میں اضافہ کرتا ہے ۔آپ زندگی کے ، فطرت کے قریب ترین ہوجاتے ہیں۔درخت،پرندے،دریا،پہاڑ آپ سب کو محسوس کرتے ہیں۔یہ سب آپ کے دوست بن جاتے ہیں۔آپ محبت سے چھلکتے ہیں ۔محبت تقسیم کرتے ہیں۔آپ میں ایک مسلسل سرشاری ،ایک خوشی کاعالم رہتا ہے۔مراقبہ آپ کی ذہانت میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ذہین آدمی بنے بنائے جوابات یا پیمانوں سے زندگی کو نہیں ناپتا۔وہ اپنی بصیرت پر بھروسا کرتا ہے۔ذہین آدمی صورتحال کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے۔فیصلہ کرتا ہے،ذہانت کہتے ہی ردعمل کی صلاحیت کو ہیں۔آگہی کے عمل میں آپ پہلے اپنے جسم کی حرکات اوراپنے اندربدلتی کیفیات کا کامطالعہ،مشاہدہ کرتے ہیں۔رفتہ رفتہ یہ آپ کے مزاج کاحصہ بنتا چلاجاتا ہے اورآٰپ ہرلمحہ شعوری سطح پر بسرکرتے ہیں۔ہرکام سے آگاہ ہوتے ہوئے اسے انجام دیتے ہیں۔ہمہ وقت حواس کی بیداری آپ کے جینے کا انداز بدلتی ہے۔آپ کی گفتگو،آپ کے لفظوں کاچناؤ، آپ کی قوت فیصلہ اور معاملات پر آپ کی نظر ایک مکمل شعور کے ساتھ آپ کی ذات کاحصہ بنتی ہے۔مراقبہ کوئی مذہبی شے نہیں اور نہ ہی کسی مذہب کی ملکیت ہے۔یہ تمام عالم انسانیت کامشترکہ اثاثہ ہے۔آپ کے عقائد ،آپ کے مسلک کوئی بھی شے مراقبے میں حارج نہیں ہوتی۔مراقبہ سانس لینے جیسا عمل ہے جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔
اگر میرے گردوپیش کے قارئین نے دلچسپی لی تو مراقبہ کے طریق کار پر بحث کروں گا۔انسانی دانش کایہ سرمایہ بہت وسیع ہے بہت قیمتی ہے۔اس پر بات ہونی چاہیئے اسے فروغ دیاجانا چاہیئے۔
فیس بک کمینٹ