میں لکھنا چاہتا ہوں ‘ میں لکھناجانتا ہوں، اظہار کے وسیلوں سے آگاہی اور لفظوں پر دسترس کا دعویٰ بھی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ لفظ ہی میری گرفت سے پھسل رہے ہیں۔ جو میں لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھ نہیں سکتا اور جو میں لکھ سکتاہوں میرے نزدیک اسے لکھنا وقت کا ضیاع ہے۔
ہم ایک تضادات سے بھرے ، سوالات سے چھلکتے ہوئے معاشرے میں زندہ ہیں۔ ’’زندہ ہیں ‘‘ بھی میں نے اصطلاحی معنوں میں لکھا ہے ورنہ تو ہم صرف سانس لے رہے ہیں زندگی کی علامت اور زندگی کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔ زندہ آدمی حق تلفی پر احتجاج کرتا ہے ، خوشی پر قہقہہ لگاتا ہے ، دکھ پراس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں وہ موسموں کی آمدورفت کا تاثر قبول کرتا ہے اپنے گردوپیش میں ہونے والے واقعات پر ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے لیکن ہم تو ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم کا نمونہ ہیں یا کٹھ پتلیوں کی طرح انگلیوں کی جنبش پر حرکت کرتے ہیں ۔ ہم کرہ ارض پر بسنے والے اربوں افراد سے بہت مختلف لوگ ہیں جو اس خطے میں موجود ہیں۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں لیکن ایسے مسلمان جن پر ابھی تک اسلام کا نفاذ نہیں ہو سکا۔ آئے دن کوئی اسلام کی نشاۃثانیہ کا خواب لے کراٹھتا ہے اور ہم اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ وہ کون سا اسلام ہے جو چودہ سو سال بعدبھی مسلمانوں پر نافذ نہیں ہو سکا۔ ہم بنیادی طور پر ایک منتشر الخیال قوم ہیں۔ چند روز کی نام نہاد بادشاہت نما جمہوریت کے بعد ہمیں سپہ سالاروں کی یاد آنے لگتی ہے۔ ہم مجاہدوں کے ترانے پڑھتے ہیں او ر وہ بھی سرحدیں چھوڑ کر ہماری خواہش پر مسندِ اقتدار پرآجاتے ہیں۔معیشت ، معاشرت ،ادب، سائنس، مذہب، صحافت غرض یہ کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہم خوابوں پر اکتفا کرتے ہیں۔’’یوں ہونا چاہئے ‘‘ ہمارا سب سے پسندیدہ فقرہ ہے ، کیسے ہونا چاہیے ؟ اور کون کرے گا؟ یہ ہمارے دائرہ خیال اور دائرہ کار سے باہر کا معاملہ ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود کوئی کرن ہے جو گردوپیش کو روشن کرتی ہے چند لمحوں کے لئے ہی سہی بے چہرگی کے باوجود آئینہ سازی کا عمل نہیں رکا اور نہ اسے رکنا چاہئے ۔میں نے تحریر کے عنوان کے لئے جون بھائی کے شعر سے استفادہ کیا تھا۔
میں بھی بہت عجیب ہوں، اتناعجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
لیکن یہ ملال ہی تو ہے جس نے مجھ سے یہ تحریر لکھوا دی یقیناًہر صاحب دل کو اس صورت حال پر ملال ہے تو کیوں نہ اس گردِ ملال کو چہروں سے صاف کرنے کی سعی کی جائے۔
فیس بک کمینٹ