دسمبر ہرسال کس کے لیے آتا ہے ۔یہ عقدہ آج تک نہیں کھُل سکا۔2007ءمیں دسمبر محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے آیا تھا ہم بہت روئے ، بہت ماتم کیا مگر دسمبر جس کے لئے آیا تھا اسے لے کر رخصت ہو گیا ۔اسی طرح ہرسال یہ مہینہ کوئی نہ کوئی دکھ لے کر آتا ہے اور رخصت ہو جاتا ہے ہمیں تو اب خوف کے مارے پروفیسر عرش صدیقی کی نظم ’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے ‘بھی یاد نہیں آتی ۔اس مرتبہ یہ مہینہ ملتان کے نامور اداکار اور صداکار مظہر احسن اور میرے ماموں کے لیے آیا۔مظہر احسن چند روز قبل راہ چلتے اندھی گولی کانشانہ بنا۔گولی اس کی آنکھ میں لگی اور وہ ایک آٓنکھ کی روشنی سے محروم ہوگیا۔ہم سب نے اس خبر پر خدا کاشکر ادا کیا اور اس لیے ادا کیا کہ گولی اگر ایک انچ بھی اِدھراُدھر ہوجاتی تو ۔۔۔یکم دسمبر کو مظہر احسن جان کے بدلے اپنی آنکھ کا صدقہ دے کر ہسپتال سے اپنے گھر واپس پہنچ گیا ۔۔وہ آدھی روشنی کے ساتھ ۔اسی گھر واپس پہنچا جہاں سے وہ مکمل روشنی لیے اپنی بیگم کے ہمراہ شاپنگ کے لیے نکلا تھا۔یکم دسمبر کو مظہر نے مجھے ایک درد بھری تحریربھیجی جس میں اس نے کہاتھا ”الحمد اللہ،میرا ایمان مکمل ہے ۔زندگی مکمل ہے۔روشنی آدھی رہ گئی۔اجالے آدھے رہ گئے۔قہقہے مکمل ہیں۔آنسو نصف رہ گئے لیکن امید اور حوصلہ مکمل ہے۔میں آدھی روشنی کے ساتھ تمام خوبصورتیاں دیکھوں گا اور آدھی روشنی کے ساتھ پوری دنیا دیکھوں گا“۔اسی روز بہت سے دوستوں نے حسبِ روایت عرش صاحب کی شہرہ آفاق نظم ’اسے کہنا دسمبرآگیا ہے‘ مجھے ارسال کی ۔اورابھی میں یہ سوچ ہی رہاتھا کہ میں کسے کہوں کہ دسمبرآگیا ہے کہ مجھے معلوم ہوگیا کہ دسمبر تو اس مرتبہ مظہراحسن کے ساتھ ساتھ میرے ماموں کے لیے بھی آیا ہے وہ یکم دسمبر کی صبح اور بہت سی ہستیوں کی طرح رفتگانِ ملتان کاحصہ بن گئے۔میرے دو ماموں تھے ۔چھوٹے ماموں کے ساتھ میری دوستی اور بے تکلفی تھی ۔جاوید ان کانام تھا۔وہ چند برس قبل اس جہان سے رخصت ہوئے تھے ۔ بڑے ماموں اشفاق کے ساتھ میری کبھی بھی بے تکلفی نہیں رہی۔میری تو کیا میری والدہ کی بھی ان کے ساتھ وہ بے تکلفی نہیں تھی جو دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ رہی۔اشفاق ماموں کو میں نے ہمیشہ غصے میں دیکھا۔کبھی مسکراتے یا ہنستے بھی تھے تو اس طرح جیسے کسی پر احسان کررہے ہوں۔ان کے ماتھے پر عموماً بل ہوتے تھے۔چہرے پر خفگی اور اکتاہٹ۔ عموماً کرخت لہجے میں بات کرتے تھے۔محبت بھری گفتگو اور اپنائیت کے اظہار میں بھی معمولی سی خفگی موجودہوتی تھی ۔ وہ بہت کم گو تھے ۔محفل کے آدمی نہیں تھے۔ساری عمر انہوں نے ہوٹل پر گزاری۔میرے نانا ہوٹل کے کاروبار سے منسلک تھے۔کوئی بڑا ہوٹل نہیں تھا لیکن ان کا ہوٹل جب اور جہاں بھی قائم ہوا اس نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔آبائی زمین بھی موجود تھی لیکن نانا نے اس پر کبھی بھی توجہ نہ دی۔بورے والا کے گاﺅں چک 118۔ای بی میں یہ اراضی پہلے ٹھیکے پر دی جاتی رہی اورپھراسے فروخت کردیاگیا۔نانا کے ساتھ میرے ماموں بھی ہوٹل کے کاروبار سے منسلک ہوگئے ۔یہ ہوٹل ملتان، فیصل آباد، لاہور ،رحیم یارخان میں بنائے گئے اور ان تمام شہروں میں اشفاق ماموں بھی نانا کے ساتھ کام کرتے رہے۔نانا کی وفات کے بعد ہوٹل بند ہوگیااور پھر ماموں کو مختلف ہوٹلوں پر کام کرنا پڑاکہ وہ اس کے سوا کوئی اورکام نہیں جانتے تھے۔روزگار کے مسائل پیدا ہوئے تو اور بہت سے مسائل نے بھی جنم لیا۔اولادنرینہ سے وہ محروم رہے۔ایک بیٹا ان کے ہاں پیدا ہوا مگر وہ پیدائش کے پانچ چھ ماہ بعد ہی چل بسا۔حسن پروانہ قبرستان میں ماموں نے اسے سپردخاک کیا اور عمربھر اس قبر کی دیکھ بھال کرتے رہے۔انہوں نے بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح پالا ۔انہیں تعلیم دلوائی اور شادیاں کردیں۔گزشتہ چند برسوں سے وہ صحت کے مسائل کاشکار تھے۔آمدن کے ذرائع بہت کم تھے ۔سو وہ اپنے علاج پربھی اس طرح توجہ نہ دے سکے جیسے دینا چاہیے تھی۔ان کے مزاج میں تلخی کی یہی بہت سی وجوہات تھیں۔ایک شخص جو عمربھر زندگی کی بے رحمی کا شکاررہا ہواس کے چہرے پر بھلا مسکراہٹ کیسے آسکتی تھی۔یکم دسمبر کو عرش صاحب والا دسمبر میر ے ماموں کے لیے بھی آگیا۔انہیں اذیتوں سے نجات دلانے کے لیے۔ ماموں ابدی نیند سو گئے۔اسی روز انہیں سپردخاک کردیاگیا۔جنازے میں محلے کے بہت سے لوگ موجودتھے ۔تدفین سے پہلے نمازجنازہ ادا کرنے والوں نے بہت شوق کے ساتھ(ثواب حاصل کرنے کے لیے) ماموں کا آخری دیدار کیااوروہ ماموں جو عمربھر دکھوں کا شکار رہے ، بہت آزردہ رہے اور جو شاید مسکرانا بھی بھول چکے تھے ۔آخری دیدار کے بعد سب نمازی کہہ رہے تھے ”ماشاءاللہ ،چوہدری صاحب کے چہرے پر کیسی مسکراہٹ ہے“۔
فیس بک کمینٹ