حسن سدپارہ 21 نومبر 2016ء کو انتقال کر گئے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ حسن سدپارہ کون تھا؟ جس کے لیے ہم نے آج اپنا کالم مختص کیا ہے۔ وہ پاکستان کا نامور کوہ پیما اور مہم جو تھا جس کا تعلق سکردو کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں سدپارہ سے تھا۔ اس کا اصل نام حسن اسد تھا لیکن اس نے اپنے گاؤں کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے اسے اپنے نام کا حصہ بنا لیا ۔ یہ گاؤں سکردو سے 7 کلومیٹر دور گلگت بلتستان کے علاقے میں ہے۔ یہ پہلا پاکستانی تھا جس نے آٹھ ہزارمیٹر سے بلند چھ چوٹیاں( جن میں ماؤنٹ ایورسٹ بھی شامل تھا) سَر کیں۔ حسن سدپارہ کو پہلی شہرت اُس وقت ملی جب اُس نے دو جولائی 1999ء کو نانگا پربت (8126میٹر) کو سَر کیا۔ 27 جولائی 2004ء کو K-2 کی چوٹی (جس کی بلندی 8611 میٹر ہے) کو فتح کیا۔ 2006ء میں گیشربرم (G1) 8008 میٹر اور گیشربرم (G2) 8003 میٹر بلند کو زیر کیا۔ جبکہ 2007ء میں براڈ پیک 8051 میٹر اور 11 مئی 2011ء کو ماؤنٹ ایورسٹ 8848 میٹر بلند پر پہنچ کر پاکستان کا پرچم بلند لہرایا۔
اسے 2008ء میں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا اور اس اعزاز کے پیچھے یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی سفارش الپائن کلب آف پاکستان کے عہدیداروں نے کی۔ جنوری 2009ء میں اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے حسن سدپارہ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ پاکستانی کوہ پیماؤں کی نہ صرف حکومتی سطح پر مالی مدد کریں گے بلکہ ایسے تمام کوہ پیماؤں کی حوصلہ افزائی بھی کریں گے جو ذاتی طور پر دنیا کی بلند و بالا چوٹیاں سَر کر رہے ہیں۔ حسن سدپارہ کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ وہ اتنی بلندی پر جا کر بھی آکسیجن ماسک استعمال نہیں کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی پہاڑیوں میں گزری اس لئے وہ جتنی بھی بلندی پر جاتا تھا اسے کسی بھی قسم کے آکسیجن ماسک کی ضرورت نہ رہتی تھی۔
حسن سدپارہ کی خوبی یہ تھی کہ اس نے چوٹیاں سَر کرنے کے لیے کسی سے تربیت نہیں لی بلکہ وہ دنیا بھر سے آئے ہوئے کوہ پیماؤں کے لیے بطور پورٹر کام کرتا تھا۔ جس کا بنیادی کام یہ ہوتا تھا کہ چوٹی سَر کرنے کے لیے وہ راستوں میں پہلے کیل ٹھونکتا، پھر رسی باندھتا اور یوں کوہ پیما کا راستہ بناتا۔ اس کی تمام زندگی اسی کام میں گزری۔ یہ کام کرتے کرتے آخرکار وہ خود مہم جو اور کوہ پیما بن گیا۔ مسلسل پہاڑی علاقوں اور برف کے درمیان رہنے کی وجہ سے چند ہفتے قبل اسے کینسر تشخیص ہوا جس کے فوراً بعد اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کے اہلِ خانہ سرکاری علاج کے لیے اپیلیں کر رہے تھے کہ انتقال سے دو روز قبل وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے اُن کے لیے 25لاکھ روپے امداد کا چیک بھی بھجوایا لیکن بیماری اتنی شدید ہو چکی تھی کہ پچیس لاکھ بھی اب اس کی زندگی کو نہ بچا سکے۔
حسن سدپارہ کا کاروبار گمبہ روڈ (جس کو سکردو ایئرپورٹ روڈ بھی کہا جاتا ہے) پر تھا جہاں پر وہ اُن کوہ پیماؤں کا استعمال شدہ لباس اور قیمتی بوٹ فروخت کرتا تھا جو اُس کے ساتھ چوٹیاں سَر کرنے جایا کرتے تھے۔ کوہ پیماؤں کا ایک طے شدہ اصول ہے کہ چوٹی سَر کریں یا ناکامی اُن کا مقدر ہو اُن کا مکمل لباس پورٹر کا ہوتا ہے۔ حسن سدپارہ نے جہاں پر پاکستان کے لیے ناقابلِ تسخیر ریکارڈ قائم کیے وہاں پر اس نے سیکنڈ ہینڈ چیزیں فروخت کر کے پوری زندگی گزارہ کیا۔ حکومت نے صرف ایک ایوارڈ دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر لی اور یہ کبھی نہ سوچا کہ اس کی خدمات کتنی زیادہ ہیں۔ دور کیوں جائیں حسن سدپارہ کے گاؤں کا ایک اور کوہ پیما علی سدپارہ بھی حسن سدپارہ کے نقشِ قدم پر ہے۔
علی سدپارہ کی کہانی بھی کچھ یوں ہے کہ اس نے جہاں باقی چوٹیوں کو سَر کیا وہاں پر اس نے نانگا پربت جس کی بلندی 26660 فٹ ہے اور یہ سنگِ میل اُس نے 26 فروری 2016ء کو طے کیا جب نانگا پربت پر درجہ حرارت منفی 52 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اس سے پہلے نانگا پربت کو اس موسم میں کسی نے سَر نہیں کیا کہ یہ دنیا کی خطرناک ترین چوٹی شمار ہوتی ہے۔حکومت کو جب معلوم ہوا کہ علی سدپارہ نے نانگا پربت اُس موسم میں فتح کیا جب لوگ سردی کی وجہ سے گھروں میں قید ہو جاتے ہیں تو مارچ 2016ء میں علی سدپارہ کو وزیرِ اعظم پاکستان نے ملاقات کے لیے دعوت دی۔ علی سدپارہ اپنے خرچے پر اسلام آباد پہنچا تو الپائن کلب کے عہدیداروں نے اس سے کہا کہ آپ نے وزیراعظم کے سامنے ہماری تعریف کرنی ہے جس پر اس نے کہا یہ چوٹی سَر کرنے میں آپ کا تو کوئی ہاتھ نہیں ہے مَیں کس طرح آپ کی تعریف کروں؟ جس پر کلب کے عہدیداروں نے کہا کہ ہم نے آپ کے لیے وزیرِاعظم پاکستان سے وقت تو لیا ہے، وزیراعظم آپ کو صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ساتھ مالی امداد بھی دیں گے۔ اب وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف علی سدپارہ سے ملاقات کر رہے تھے اور علی سدپارہ اس بات کا منتظر تھا کہ اس کا میزبان اپنے مہمان کی پذیرائی کرے گا، پذیرائی بس اتنی ہوئی کہ ایوانِ وزیراعظم میں چند لمحے وہ قیام پذیر رہا۔ وزیراعظم کے ساتھ تصویری سیشن ہوا، کھانا اور چائے پیش کی گئی، پولیس کے چاک و چوبند دستے نے علی سدپارہ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے گارڈ آف آنر پیش کیا اور یوں علی سدپارہ اپنے خرچے واپس لوٹ آیا۔ الپائن گروپ والے خوش رہے کہ ان کی کارکردگی وزیراعظم کے سامنے عیاں ہو گئی لیکن کسی کو یہ معلوم ہی نہ ہوا کہ علی سدپارہ ہو یا حسن سدپارہ ان جیسے ہیرو تو اپنی مدد آپ کے تحت اپنے شوق کی خاطر چوٹیاں سَر کرتے ہیں۔ پاکستان کا پرچم اُس جگہ پر لہراتے ہیں جہاں پر پہنچتے پہنچتے اب تک سینکڑوں لوگ موت کی وادی میں جا چکے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے پاکستان کے حسن سدپارہ اور علی سدپارہ کامیاب کوہ پیما ٹھہرے تو اس کے پس منظر میں کوئی حکومتی امداد نہیں ہے بلکہ ایسے لوگوں کے شوق اُن کو گھر میں بیٹھنے نہیں دیتے اور وہ پاکستان کے لیے اپنی جان کو خطروں میں ڈال کر وہ چوٹیاں سَر کرتے ہیں جس کا تصور کوئی نہیں کر سکتا۔
دور کیوں جائیں 26 نومبر 2016ء کو برادرم کنور طارق کے ذریعے ہماری اسکوائش کے بے تاج بادشاہ جہانگیر خان سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں کسی بھی کھیل کی کامیابی کے لیے حکومتی اقدامات کا ذکر ہوا تو جہانگیر خان نے کہا اگر حکومتیں مختلف کھیلوں پر توجہ دیں تو کوئی وجہ نہیں پاکستان کے پاس بے شمار جہانگیر خان، جان شیر خان، حسن سدپارہ، سمیع اﷲ، حسن سردار، عمران خان، ماجد خان، ظہیر عباس، جاوید میانداد، عبدالقادر، وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، حنیف محمد، محمد یوسف (سنوکر) اور ان جیسے ٹیلنٹڈ لوگ موجود ہیں لیکن حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے جو آگے بڑھ کر ٹیلنٹ کو دریافت کرے تاکہ وہ ہر شعبۂ کھیل میں پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔ اس کالم کو لکھتے ہوئے جب ہم نے نامور سیاحوں محمد بقا شیخ اور قیصر عباس صابر سے رابطہ کیا کہ وہ سدپارہ گاؤں کے لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو ان کا یہی کہنا تھا کہ اس علاقے میں اور بھی حسن اور علی سدپارہ جیسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے لیے مزید نئے ریکارڈ بنا سکتے ہیں لیکن حکومت کی اُن پر کوئی نظر ہی نہیں۔
فیس بک کمینٹ