یوں تو لاٹھیاں کھانا ہمارا قومی کھیل ہے۔ (ہاکیاں کھانے اور کھیلنے والوں سے معذرت کے ساتھ لیکن اس کھیل کو مقبولِ عام بنانے کا سہرا ان سقراطوں کے سر ہے جو چائے کی پیالی سامنے رکھ کر زہر کے پیالے پینے والوں کی عظمت کو سلام کرتے ہیں اور ننھّی مُنی معصوم اٹھتی اور سلگتی ہوئی نادان جوانیوں میں بغاوت کی چنگاریاں بھر دیتے ہیں۔ ایسے ایسے بڈھے دستیاب ہیں جنہوں نے اچھے دنوں میں’’ مقتل مقتل پکاروں میں بن میں، موامقتل لڑے مورے من میں‘‘ اس توازن اور خوبصورتی سے ادا کیا کہ نوجوانوں کی جوانیوں میں آتش فشاں بھر گئے۔ پھر ان آتش فشانوں کے اَنار چل گئے۔ یعنی خون میں سینکڑوں سالہ غلامی کے جمود کو بعض بُڈھوں کے لڑکپن نے جلد بازی میں مفت کے مئے کی طرح اڑا دیا۔ میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ بعض حضرات غلامی کے پیچھے کیوں لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں اس طرح تو یہ اپنے پیچھے آپ پڑ گئے ہیں۔ میری ناچیز رائے میں غلامی بہت بڑی نعمت ہے، اور اس میں بڑی عظمت ہے، ضرورت اس کی ہے کہ غُلامی کے آداب ایک سائنس کی طرح پڑھے جائیں۔ ہر مہذب انسان بنیادی طور پر غلامانہ ذہنیت کا مالک ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی اصل ذہنیت ہے ۔ غور کرنے کی بات ہے کہ کوئی شاعر بڑا فنکار حسن کی غلامی کے بغیر فن تخلیق نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ انسان اپنی ضرورت کے بغیر جرم بھی نہیں کر سکتا۔ میری رائے میں تو مہذب انسان اور ان میں خصوصیت سے پڑھے لکھے متین شائستہ انسان غلامی کے خلاف کبھی صف آرا نہیں ہو سکتے۔ یہ جو علامہ اقبال نے کہا تھا:
اُٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
خواہ مخواہ لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا کرنے والی بات ہے، حالانکہ غریبوں کو جگانے سے اپنی نیند حرام کرنے کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔ میں تو کہتا ہوں
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت میں بھنگ گھوٹ کے تم اور ملا دو
بہرحال مجھے یقین ہے کہ انسانیت کا مستقبل غلامی سے وابستہ ہے اور یہ جو اقوام متحدہ میں بعض شرپسندوں کے شور و غل کی وجہ سے غلامی کے خلاف قراردادیں پاس ہوتی رہتی ہیں، تو ان کی وجہ سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہمیں امید ہے بلکہ یقین ہے کہ اقوام متحدہ دنیا کے امن کو کسی طرح خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔ دنیا کا حقیقی امن صرف حقیقی روحِ غلامی سے وابستہ ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول پر نظر ڈالیں تو ہر آدمی غلامی میں ہی خوش نظر آتا ہے۔ غلامی سے نکلتے ہی انسان کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مَیں نے پڑھا ہے کہ عظیم روم کی عورتیں اپنے غلاموں کے سامنے لباس اتار دیتی تھیں، کیونکہ وہ غلاموں کو اتنا بے حیثیت سمجھتی تھیں کہ ان سے کسی قسم کی شرم یا خوف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ آج کل کے غلاموں کو سہولتیں میسر نہیں ۔ خود اپنی کوشش سے کپڑے اتار کر لے جاتے ہیں، تاہم روٹی کپڑا اور مکان کوئی اتنا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے کہ انسان اس پر اپنی غلامی قربان کر دے۔
بعض امن کے دشمن یہ بات مسلسل پھیلاتے رہتے ہیں کہ دنیا کا موجودہ نظام ہی (Patriarchal) ہے اور عورت مرد کی اقتصادی طور پر غلام ہے اور روحانی طور پر حکمران ہے۔ اقتصادیات اور روحانیات میں میرا عمل دخل ادھورا ہے۔ اس لیے نیم ملا خطرۂ ایمان سمجھنے کے باوجود میرے لیے نیم مارکسی ہونا بھی خطرہ ہے۔ کیونکہ اس صورت میں آدمی ایمان کے ساتھ ساتھ اپنی دکان اور اپنے مکان تک کو بھی لٹوا بیٹھتا ہے سو قصہ یوں ہے کہ اگر عورت غلام ہے تو اسے غلام رہنا چاہیے، مرد غلام ہے تو اسے غلام رہنا چاہیے بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر ہڈ حرام ہونا چاہیے۔
غلامی بہرحال زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورت مرد کی غلام ہے۔ مرد مومن کا غلام ہے۔ مومن مرد کے اندر ہوتا ہے اندر کی دنیا میں خودی ہوتی ہے اور خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں، اس لیے جو لوگ حساس ہیں وہ خودی میں ڈوب جاتے ہیں ۔ مَیں نے جب غلامی کے متعلق اپنا دعویٰ ایک ادبی عزیز کی خدمت میں پیش کیا تو غصے سے آگ بگولا ہو گئے، کہنے لگے۔ ’’تم نوجوانوں کو بغاوت کے راستے سے ہٹنے کا فلسفہ پیش کر کے ان کا بیڑا غرق کرنے کا مشن شروع کر رہے ہو۔‘‘ عرض کیا ’’آزادی کے لیے زہر کا پیالہ پینے میں کوئی فائدہ نہیں ، میں غلامی کا سقراط بننا چاہتا ہوں‘‘ ان کا بھیجا غلامی کے ساتھ ساتھ ملازمت کی حدود، قیود سے تجاوز کر گیا۔ کہنے لگے ’’تیرا ککھ نہ رہے ، تیرا بیڑا غرق ہو جائے، خانہ خراب ہو جائے، تیری مطبوعہ کتاب کی تقریب رونمائی ہو جائے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مَیں نے ان مغلظات کے جواب میں خموشی اختیار کر لی کیونکہ میں سمجھتا ہوں ادب، شاعری کے طالب علم غلامی کی حقیقی روح سے ٹھیک طرح آشنا ہو ہی نہیں سکتے۔ خصوصیت سے ترقی پسند شاعروں کو تو اور کوئی موضوع ہی نہیں ملا، دل ہی دل میں غلامی کے خلاف جھگڑ جھگڑ کے کئی مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر لے آتے ہیں اور وطن کی آزادی کے خواب دیکھتے دیکھتے پبلشروں کے غلام ہو جاتے ہیں۔
عرصہ ہوا مَیں نے غلامی کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے شاعری پڑھنی ترک کر دی تھی۔ مَیں غلامی کو اپنی روح کا حصہ بنا لینا چاہتا تھا، لیکن مجھے اس کوشش میں مکمل کامیابی نہ ہو سکی۔ آزادی ہمیشہ سانپ کی طرح میری روح کو ڈستی رہی ہے۔ میرا خیال ہے میں ان دنوں اپنے آپ کا غلام تھا لیکن اپنا غلام ہونے اور اپنی ضروریات کا غلام ہونے میں فرق ہے۔ اپنی ضروریات کا غلام ہونا بھی فنکاری ہے۔ عرض کرنے کا بنیادی مدعا یہ تھا کہ غلامی کے خلاف مہم کوئی انسانی جذبہ نہیں۔ یہ حیوانی جذبہ ہے اور اس کے حق میں کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ حیوانوں میں مَیں گدھے کو اشرف الحیوانات سمجھتا ہوں، کیونکہ یہ غلامی کے خلاف بالکل احتجاج نہیں کرتا۔ احتجاج تو خیر ہاتھی بھی نہیں کرتا، تاہم ہم نے ہاتھی کو قریب سے نہیں دیکھا، ہاتھی چڑیا گھر کا وائس چانسلر ہوتا ہے، لیکن اس سے قطع نظر حیوان بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ ہیں جو خرد کو غلامی سے آزاد نہیں ہونے دیتے اور انسانی تہذیب، ثقافت کی سرگرمیوں میں بھی شریک رہتے ہیں۔ دوسرے وہ ہیں جو آزادی کے نام پر ہنگامہ کرتے ہیں اور انسان ان کی کہانیاں سنا سنا کر اپنے بچوں کو ڈراتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ایک عرصہ پہلے جب میونسلپٹی والے قومی ترقی کے جشن منظم کرنے کی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور جانوروں کی ثقافتی سرگرمیاں عروج پر پہنچی ہوئی تھیں تو دیگر شہری جانور ہنگامہ بھی کر دیتے۔ لیکن گدھوں نے ڈسپلن کے وہبی عطیے کے باعث کبھی ہنگامہ نہ کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جانوروں کی ان سرگرمیوں کو دیکھ کر ایک داخلی قسم کی مسرت حاصل ہوتی تھی، اور آدابِ غلامی کی پابندی کی وجہ سے ایک استاد کے چہرے پر جو سنجیدگی اور متانت کی مہذب لکیریں نمودار ہو جاتی ہیں ابھی ظاہر نہ ہو ئی تھیں۔ ایک ویرانے کے قریب کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اشرف الحیوانات گدھے پر بعض کم ظرف لوگوں کے نونہال پتھر پھینک پھینک کر اسے سرکشی پر مجبور کر رہے ہیں۔ گدھے نے پہلے پہل تو مار کھاتے ہوئے غلامی کے آداب کی پابندی کی، لیکن جب پتھر زیادہ پڑے تو اس پر اپنے بزرگوں کی تربیت کے اثرات زائل ہونے لگے، اور کیفیت کچھ اس طرح ہو گئی جیسے سرکاری ملازم کی روحِ عصر بیدار ہوتی ہے، آگے قدم بڑھاتا لیکن جذبۂ غلامی آڑے آتا۔ گدھے نے سرکش ہوئے بغیر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ظالم نونہالوں نے اس کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اشرف الحیوانات اس خواہ مخواہ کے کرکٹ میچ سے بہت گھبرائے ، ایکا ایکی موصوف نے تمام جبر کی حدود و قیود کو توڑ دیا اور کیری پیکر کے منتخب کھلاڑی کی طرح دولتی کا اسٹروک مار کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب انہیں روکنا مشکل تھا۔ پچھلی ٹانگوں سے صفِ دشمناں کو لتاڑتے چتھاڑتے ہوئے پورس کے ہاتھیوں کی روایت کے برعکس آگے بڑھے اور ایک چھابڑے پر شب خون محبت مارتے ہوئے آگے نکل گئے تب نونہالوں کے بزرگوں کو ہوش آیا اور وہ اپنے اسلاف کی روایت یعنی گھڑ سواری چھوڑ کر اپنے نونہالوں کے نقش قدم پر چل نکلے اور گدھے پر اندھا دھند لاٹھیاں برسانے لگے وہ گدھا بھی دبستانِ مومن سے زیادہ متاثر تھا، کوئی ایک فرلانگ فاصلے پر ایک دوشیزہ گدھی کو دیکھ کر لاٹھیاں بھول گیا اور گدھی کے عشوہ، غمزہ ناز ادا سے متاثر ہوکر وہیں کھڑے کھڑے فصاحت و بلاغت کے جوہر دکھانے لگا۔ گدھی مشرقی تہذیب کو اس طرح پامال ہوتے دیکھ کر گھبرا گئی اور اپنی عصمت بچانے کے لیے بھاگی اس کے پیچھے عاشق مزاج گدھا اور گدھے کے پیچھے لٹھ بردار اور ان کے قائد نونہال۔ اصلاحِ معاشرہ کی اس مہم کی زد میں ایک دانتوں کا منجن بیچنے والا مع اپنی سائیکل اور چھوٹے لاؤڈ سپیکر کے ڈھیر ہو گیا۔
میرا خیال ہے کہ تاریخ میں اگر جبر کا عمل نہ ہوتا تو کوئی بھی غلامی کے خلاف مشتعل نہ ہوتا۔ مجھے ہر طرح کی غلامی پسند ہے ۔۔۔ لیکن اچھی موسیقی اور اچھی صورت کی غلامی آنکھیں بند کر کے قبول کر لیتا ہوں۔ تاہم یہ بات محاورتاً کہہ رہا ہوں ورنہ اچھی صورت دیکھ کر تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔ بعض لوگ اچھی سیرت کی بھی غلامی کرتے ہیں اور اخباری اشتہاروں میں ضرورتِ رشتہ کے ذریعے اپنا نظریۂ حیات پیش کرتے ہیں۔
میرے ایک دوست کرسی کی غلامی کو سب غلامیوں پر ترجیح دیتے ہیں، اس ضمن میں وہ اپنی کرسی اور دوسرے کی کرسی میں بھی کوئی تمیز نہیں کرتے، کئی دوسروں کی کرسیا ں محض اسی لیے جبری ریٹائرمنٹوں میں نکل گئیں کہ آپ ان کرسیوں کے کرسیوں پر بیٹھنے والوں سے زیادہ وفادار تھے۔ ایک دن کرسی میں مَیں نے انہیں خلافِ معمول غور و فکر میں مصروف پایا۔ میرا دل دھک سے رہ گیا سوچا کہیں ان کے خون میں غلامی کے جمود کے خلاف تحریک نہ اُٹھ کھڑی ہو۔ مَیں نے قریب جا کر خیریت دریافت کی تو کراہ کر پہلو بدلا اور شکست خوردہ تبسم کے ساتھ ارشاد فرمایا ’’گزشتہ کئی سال سے خونی بواسیر کا دیسی علاج کرتا رہا ہوں مگر اب کرسی پر بیٹھنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
عرض کیا ’’بواسیر کا مناسب علاج کیوں نہیں کرتے؟‘‘ کہنے لگے ’’ دل کے ہاتھوں مجبور ہوں، سرخ مرچیں نہیں چھوڑ سکتا، ویسے ابا جان کو بھی بیماری تھی اور دادا جان نے تو ایک دن خونی بواسیر کی نقاہت سے جلال میں آ کر ابا جان کو جائیداد سے عاق کر دیا تھا۔‘‘
پھر کہنے لگے۔ ’’جسے بواسیر نہ ہو میرا جنازہ نہ پڑھائے۔‘‘ مَیں نے سوچا سب غلامیوں کے بعد مہذب آدمی بیماری کا غلام ہو جاتا ہے اور اس کے بعد موت غلامی چھین کر لے جاتی ہے، شاید اسی لیے بعض بے صبروں نے غلامی کی زندگی پر آزادی کی موت کو ترجیح دی ہے۔
فیس بک کمینٹ