نئے سال کی پہلی نظم : نئے جذبے ، نئے موسم
دسمبر کے چلے جانے پہ اتنے غمزدہ کیوں ہو
دسمبر بھی تو
ہر اک ماہ جیسا اک مہینہ ہے
مگر یہ سچ ہے کسی کا جب بھی کوئی پیارا
کسی موسم کسی رت میں بچھڑتا ہے
تو دل پہ سوز و غم کی
ایسی مہر ثبت ہوتی ہے
اور آ نکھوں سے
لڑی اشکوں کی بہنے کو
بڑی بے تاب رہتی ہے
جدائی درد کا بہتا ہوا گہرا سمندر ہے
اگر ہم اپنے ماضی کو
ہمیشہ یاد رکھیں گے
تو جاناں ہم کبھی بھی پھر
سکوں سے جی نہ پائیں گے
سبھی خوشیاں ہمیشہ کے لیے بس روٹھ جائیں گی
چلو اٹھو
نئے جذبے کے سنگ اس سال نو کو ہم
ابھی welcome تو کہتے ہیں
نیا جب سال آ تا ہے
نئی آسوں امنگوں کو بھی
اپنے ساتھ لاتا ہے
پرانے سارے رنج اور غم
وہ پیچھے چھوڑ آ تا ہے
نئی کونپل نئے پتے
نئے پھر پھول کھلتے ہیں
نئی قوس قزح ہریالی
ہر سو پھیل جاتی ہے
نئے پھر دوست ملتے ہیں
پرانے بھول جاتے ہیں
کہیں خوشیوں کے موسم اور کہیں غم چار سو جاناں
کبھی دکھ اور غم سارے
ہمیں وہ سونپ جاتے ہیں
کریں مل کر تبسم یہ دعا
اس جنوری میں ہم
نئے اس سال میں مل کر
سبھی اقرار کرتے ہیں
مٹاؤنفرتوں کو تم
بھلا دو رنجشیں ساری
انا کو قتل کر ڈالو
محبت اور چاہت سے
ہم اپنے ملک کی خاطر
وفاؤں کی ہر اک حد
آج مل کر پار کرتے ہیں
تبسم سے گلے مل کر
یہی اظہار کرتے ہیں
جو ہم کو بھول بیٹھا ہے
اسی سے پیار کرتے ہیں
فیس بک کمینٹ