لاہور : پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان کی جانب سے ایک تقریب میں ہندوؤں کے بارے میں ریمارکس نے پاکستانی سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے کلپ میں وزیرِ اطلاعات کو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے بارے میں تضحیک آمیز کلمات ادا کرنے سنا جا سکتا ہے۔ فیاض الحسن چوہان ماضی میں بھی اپنے بیانات کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہے ہیں تاہم اس مرتبہ انھوں نے اپنے بیان پر وضاحت دیتے ہوئے معذرت کی ہے۔ انھوں نے لاہور میں منعقدہ تقریب میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی اور جھڑپوں کا ذکر کرتے ہوئے ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے حقارت آمیز الفاظ استعمال کیے۔ خیال رہے کہ بالاکوٹ میں انڈین طیاروں کی کارروائی کے بعد پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ اعتراض کیا جاتا رہا ہے کہ انڈیا کے اس عمل پر تنقید کرنے یا ردعمل دینے والے ہندو برادری کو کیوں اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ہندو سماجی کارکن کپیل دیو نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’ہمیں پاکستان سے اپنی محبت اور حب الوطنی دکھانے کے جواب میں پی ٹی آئی کے وزیر فیاض چوہان سے یہ ملا کہ وہ یہ سوچے بغیر کہ یہاں 40 لاکھ ہندو رہتے ہیں، ہندوؤں کے لیے `گائے کا پیشاب` پینے والے جیسے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی میں ہندو رکنِ پارلیمان ہیں۔فیاض الحسن چوہان کے تضحیک آمیز بیان پر نہ صرف عوام بلکہ خود ان کی جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے بھی نہ صرف شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا بلکہ وزیر اعظم کے معاون نعیم الحق نے تو ان کے خلاف کارروائی کا اعلان بھی کر دیا۔نعیم الحق نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ فیاض الحسن چوہان کا بیان سخت کارروائی کا تقاضا کرتا ہے اور ان کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب کی مشاورت سے قدم اٹھایا جائے گا۔نعیم الحق کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سینیئر حکومتی رکن یا کسی کی بھی جانب سے اس قسم کی فضول بات برداشت نہیں کرے گی۔
فیس بک کمینٹ