کولمبو:سری لنکا میں اتوار کو مسیحی تہوار ایسٹر کے موقع پر ہونے والے دھماکوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 290 تک پہنچ گئی ہے جبکہ قریباً 500 افراد زخمی ہیں۔
پولیس کے مطابق ان حملوں کے بعد اب تک 24 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن سری لنکن حکومت نے تاحال ان حملوں کے لیے کسی گروپ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا ہے اور نہ ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ان دھماکوں کے بعد ملک بھر میں جو کرفیو نافذ کیا گیا تھا اسے پیر کی صبح چھ بجے ختم کر دیا گیا ہے۔اتوار کی صبح ہونے والے ان دھماکوں میں کولمبو سمیت تین شہروں میں تین ہوٹلوں اور تین گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا اور ہلاک شدگان میں مقامی باشندوں کے علاوہ غیر ملکی بھی شامل ہیں۔یہ سنہ 2009 میں سری لنکا میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد ملک میں دہشت گردی کی سب سے بڑی اور مہلک کارروائی ہے۔اتوار کو رات گئے سری لنکا کے وزیرِاعظم رانیل وکرماسنگھے نے کہا کہ ملک میں سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو ممکنہ حملوں کے بارے میں ’اطلاع‘ تھی۔ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ ملک میں افواہوں کو روکنے کے لیے سوشل میڈیا تک رسائی بھی عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے اور واٹس ایپ اور فیس بک کے استعمال کی سہولت اکثر افراد کو میسر نہیں۔اتوار کی شب سری لنکن فضائیہ نے کہا ہے کہ کولمبو کے ایئرپورٹ کے قریب نصب دھماکہ خیز مواد برآمد کر کے ناکارہ بنایا گیا ہے۔
فضائیہ کے ترجمان گیہان سنیوارتنے نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ’پلاسٹک کا ایک چھ فٹ لمبا پائپ ملا جس میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔ہلاک ہونے والے غیرملکیوں میں کم از کم پانچ برطانوی شہری ہیں جن میں سے دو کے پاس امریکی شہریت بھی تھی۔اس کے علاوہ سری لنکن حکام کے مطابق انڈیا اور ڈنمارک کے تین، تین جبکہ پرتگال کا ایک شہری بھی ہلاک ہوا ہے۔ترک خبر رساں ادارے اناطولو نے دو ترک انجینیئرز کی ہلاکت کی خبر دی ہے جبکہ ہالینڈ کا ایک شہری بھی مرنے والوں میں شامل ہے۔سری لنکا کے وزیرِ دفاع روان وجےوردھنے نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ان دھماکوں کے پیچھے کسی ایک گروہ کا ہاتھ لگتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم ‘ہر اس انتہاپسند گروپ کے خلاف تمام ضروری کارروائی کریں گے جو ہمارے ملک میں کام کر رہا ہے۔ ہم ان کے پیچھے جائیں گے چاہے وہ جس بھی مذہبی انتہا پسندی کے پیروکار ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ جو بھی مجرم اس بدقسمت دہشت گرد کارروائی میں ملوث ہیں ہم انھیں جتنا جلد ممکن ہو گرفتار کر لیں گے۔‘دریں اثنا سری لنکا کی حکومت نے ملک میں زیادہ تر سوشل میڈیا سروسز کو عارضی طور بند کر دیا ہے اگرچہ بی بی سی کو سری لنکا میں موجود لوگوں کی طرف سے کافی سوشل میڈیا پیغامات ملے ہیں۔کولمبو کے کارڈینل آرک بشپ میلکم رنجیت نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سری لنکا کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ‘افواہوں پر نہ جائيں بلکہ صبر کے ساتھ انتظار کریں اور امن و صلح کے لیے کام کریں۔’
فیس بک کمینٹ